English   /   Kannada   /   Nawayathi

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہماری تہذیبی شناخت

share with us

یوں تو وزارت فروغ انسانی وسائل کا قلمدان انہیں تفویض کئے جانے کے ساتھ ہی اعتراضات اور سوالات شروع ہوگئے تھے۔ ان کی تعلیمی قابلیت اور بہت ساری باتوں پر بہت کچھ کہا گیا لکھا گیا۔ تاہم حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر روہت ویمولا خودکشی کے واقعہ کے بعد سمرتی ایرانی کی منفی شبیہ منظر عام پر آئی۔ ملک کی قومی سیاست میں ان کی ساکھ متاثر ہوئی۔ ایوان پارلیمنٹ میں ان کی جذباتی تقریر نے وقتی طور پر متاثر کیا مگر اس کا اثر عارضی ثابت ہوا۔ انہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ غلط اطلاعات فراہم کردیں‘ جس کی وجہ سے وہ اپوزیشن کی تنقید کا ہدف بن گئیں۔ سنٹرل یونیورسٹی حیدرآباد کی ڈاکٹر اور وہاں کے طلبہ کی جانب سے سمرتی ایرانی کے ایوان میں دےئے گئے بیان کی تردید اور حقائق کے مصدقہ ثبوت کی اخبارات میں اشاعت نے ان کی پوزیشن کو بہت کمزور کردیا۔ ساتھ ہی حکمراں جماعت کے لئے وقتی طور پر مسائل میں اضافہ کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ پارٹی نے انہیں ہدایت دی ہے کہ وہ ایوان میں جذباتی لب و لہجہ اختیار نہ کریں۔ ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ اس افسوسناک انکشاف نے کہ وائس چانسلر علیگڑھ مسلم یونیورسٹی لیفٹننٹ ضمیرالدین شاہ کے ساتھ سخت اہانت آمیز لب و لہجہ ا ختیار کیا گیا‘ مرکزی وزیر فروغ انسانی وسائل کی شبیہ کو اور بگاڑ دیا۔ اس وقت سوشیل میڈیا پر سمرتی ایرانی کے خلاف تنقیدی ریمارکس کئے جارہے ہیں کہ انہوں نے ایک ایسی ہستی کے ساتھ درشت لب و لہجہ میں بات کی جس نے مادر وطن کی چار دہائیوں تک خدمات انجام دیں‘ جو فوج کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہا اور جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے باوقار ادارہ کے وائس چانسلر ہیں جس ادارہ پر ہندوستانی مسلمانوں کو ہی نہیں ہندوستان کو فخر ہونا چاہئے۔ ملی گزٹ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق 9؍جنوری کو کیرالا کے وزیر اعلیٰ مسٹر اومین چنڈی نے مرکزی وزیر سمرتی ایرانی سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی اور ان سے ملاپورم (کیرالا) کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سنٹر کے سلسلہ میں بات چیت کئے۔ سمرتی ایرانی نے اس علی گڑھ یونیورسٹی کے تمام سنٹرس کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں بند کردینے کی دھمکی دی۔ جب کیرالا کے وزیر اعظم نے انہیں کیرالا سنٹر سے متعلق بتایا کہ اس پر بہت کچھ کیا جاچکا ہے‘ بہت کچھ دیا جاچکا ہے تو مرکزی وزیر نے انہیں مشورہ دیا کہ جو دیا ہے اسے واپس لے لیا جائے۔ اسی دوران جب وائس چانسلر لیفٹننٹ جنرل ضمیرالدین شاہ اجلاس میں داخل ہوئے تو انہیں دیکھ کر سمرتی ایرانی بھڑک اٹھیں‘ سخت لہجہ میں پوچھا کہ وہ یہاں کیوں آئے ہیں جاکر اپنے کمرے میں بیٹھے‘ لیفٹننٹ جنرل شاہ نے جب انہیں بتایا کہ وہ چیف منسٹر کیرالا کی دعوت پر آئے ہیں تو وہ اور بھی آگ بگولہ ہوگئیں‘ غصہ کا سورج سوانیزے پر پہنچا۔ ایک بار پھر سخت لہجہ میں سوال کیا ’آپ کو تنخواہ کون دیتا ہے ہم یا کیرالا کی حکومت‘؟
یہ واقعہ انتہائی افسوسناک قابل مذمت ہے۔ سمرتی ایرانی آج مرکزی وزیر ہیں کل کسی وجہ سے وزارت سے نکال دی جائیں یا اگلے الیکشن میں ان کی پارٹی اقتدار حاصل نہ کرسکی تو وہ گمنامی کے غار میں کھوجائیں گی۔ لیفٹننٹ جنرل شاہ اس ملک کے خدمت گذار ہیں۔ مادر وطن کی حفاظت کے لئے سرحدوں پر دشمنوں کا مقابلہ کیا۔ اور ہر ایک مقابلہ کے عوض ان کے سینے پر ایک تمغہ کا اضافہ ہوا۔ ان کی توہین کرنا ہندوستانی فوج کی توہین کرنا ہے۔ ایک طرف یونیورسٹیز کے احتجاجی واقعات پر بی جے پی قائدین اور خود سمرتی ایرانی ایوان پارلیمنٹ میں یہ کہتی ہیں کہ نعرے لگانے والے اور ان کا ساتھ دینے والے ملک کے غدار ہیں یا غداروں کے ہمنوا ہیں۔ وہی سوال بھی کرتی ہیں کہ آیا ہمیں ملک کے غداروں کا ساتھ دینا ہے ملک کی حفاظت کرنے والے جوانوں کا۔ دوسری طرف یہی قائدین‘ یہی سمرتی ایرانی ملک کے خدمت گذاروں کے ساتھ اہانت آمیز رویہ اختیار کرتی ہیں۔ اگر ان کے بارے میں جو باتیں منظر عام پر آئی ہیں اگر سچ ہیں تو اپنی وزارت، اپنے موجودہ منصب کو فراموش کرتے ہوئے انہیں ملک کے سچے خدمت گذاروں سے معافی مانگنی چاہئے۔
جہاں تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلرکے ساتھ مرکزی وزیر کے رویہ کا تعلق ہے اس کا پس منظر کچھ اور بھی ہے۔ دو سال پہلے نومبر 2014ء میں بی جے پی چاہتی تھی کہ یونیورسٹی کیمپس میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی یوم پیدائش تقاریب منائی جائیں۔ اس وقت لیفٹننٹ جنرل ضمیرالدین شاہ نے بحیثیت وائس چانسلر مسز سمرتی ایرانی کو مکتوب لکھتے ہوئے انہیں بتایا تھاکہ بعض فرقہ پرست عناصر کی جانب سے یونیورسٹی کی فضاؤں میں فرقہ پرستی کا زہر گھولنے کی سازش کی جارہی ہے۔ اس قسم کے پروگرام کے انعقاد سے طلبہ میں بے چینی پیدا ہوگی۔ اس وقت سے بی جے پی لیفٹننٹ جنرل شاہ کے خلاف موقع کی تلاش میں ہے جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ 1886ء میں پیدا ہوئے ۔ وہ مارکسی خیالات اور نظریات کے حامل تھے۔ ہندوستان کی پہلی صوبائی حکومت کے بھی وہ سربراہ رہے۔ بی جے پی نے ایک نیا شوشہ چھوڑا تھا کہ جس اراضی پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کی گئی ہے وہ ہند راجہ کی دی ہوئی ہے۔ جبکہ جس راجہ کا بی جے پی حوالہ دے رہی ہے ان کی پیدائش سے بہت پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ بی جے پی قائدین کی نگاہوں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اس لئے بھی کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے کہ پارلیمانی انتخابات سے قبل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ٹیچرس اسوسی ایشن نے مودی کو شکست دینے کی عوام سے اپیل کی تھی۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوں کی پہچان ہے۔ اس کی اپنی تہذیبی شناخت ہے۔ یہاں کے فارغ التحصیل دنیا بھر میں علیگڑھی اور ہندوستانی تہذیب کے سفیر ہیں۔ فرقہ پرست عناصر ہر دور میں یونیورسٹی اور اس کے کردار کو متاثر کرنے کی کوشش اور سازش کرتے رہے ہیں۔ اور ہندوستانی مسلمانوں نے ہر دور میں اس یونیورسٹی کے کردار کی بحالی اور اس کی بقاء کے لئے جدوجہد کی۔ بی جے پی نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد سب کا ساتھ سب کا وکاس کا وعدہ کیا مگر وہ وعدہ ہی کیا جو پورا ہوجائے کے مصداق ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلمانوں کی تہذیب اور اس کی شناخت کو متاثر کرنے، مٹانے کی ممکنہ ک کوششیں کی جارہی ہیں۔ کبھی مدارس کو تو کبھی طلبہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کبھی بی جے پی کے قائدین زہریلی تقاریر سے نفرت کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ اب تو وزراء نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سمرتی ایرانی کا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے متعلق رویہ افسوسناک ہے۔ اور لیفٹننٹ جنرل ضمیرالدین شاہ کے ساتھ ان کا سلوک ہر اعتبار سے غیر انسانی ہے۔ کیوں کہ لیفٹننٹ جنرل شاہ کی عمر سمرتی ایرانی کے پتا جی کی عمر سے بھی زیادہ ہوگی۔ اپنے بزرگ اور ملک کی مایہ ناز ہستی کے ساتھ اپنے لب و لہجہ کو قابو میں نہ رکھنے سے ان کی امیج متاثر ہوئی ہے۔ جسے بحال کرنے کے لئے انہیں اپنے پاپ کا پراشچت کرنا چائے۔
اس وقت سوشیل میڈیا پر لیفٹننٹ جنرل شاہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حمایت میں اور مرکزی وزیر سمرتی ایرانی کے خلاف تحریک شروع ہوچکی ہے۔ واٹس اَپ، فیس بک اور ٹوئیٹر پر بلالحاظ مذہب عوام مسز ایرانی کے رویہ کی مذمت کررہے ہیں۔ واٹس اَپ کا ایک مشہور گروپ ’’اردوپروفیسراینڈ لیکچررس گروپ اور اردو کلچر گروپ نے باقاعدہ اس پر مباحثہ شروع کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ملک گیر سطح پر احتجاجی مہم کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ مستقبل میں بی جے پی قائدین کے اس قسم کے رویے سے پارٹی کو بہت زیادہ نقصان ہوگا۔ 
ادارہ گواہ لیفٹننٹ جنرل ضمیرالدین شاہ سے یگانگت کا اظہار کرتا ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تحفظ، بقا اور اس کے اقلیتی کردار کی بحالی کے لئے جدوجہد میں شامل ہے۔ یونیورسٹی چاہے وہ علی گڑھ ہو، جامعہ ملیہ ہو یا کوئی اور‘ یہ نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیم و ترقی، ان کی ذہنی‘ فکری تربیت کے لئے قائم کی گئی ہے‘ یہاں کے طلبہ اس ملک اور قوم کا اثاثہ ہے۔ ان یونیورسٹیز کو نقصان پہنچانا قوم کے اثاثے کو نقصان پہنچانے کے مماثل ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا