English   /   Kannada   /   Nawayathi

من کی اوردھن کی بات

share with us

وقت کے ساتھ مودی جی کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ اب قوم مہینے میں ایک مرتبہ بھی ان کاآکاش وانی سینشر ہونے والا بھاشن تک سننا نہیں چاہتی اس لئے اس بار وہ اپنے ساتھ سچن تندولکر اور وشوناتھ کو لے آئے کہ مبادہ ان کے طفیل کچھ لوگ ان کی جانب توجہ فرما لیں۔ امتحان کا موسم چونکہ شروع ہوا چاہتا ہے اس لئے مودی جی نے اپنی تقریرکے اختتام پر کہا ’کل میرا امتحان ہے۔ کل جب بجٹ پیش ہوگا تو ۵۲۱ کروڈ لوگ میرا امتحان لیں گے اور میں بہت ہی پراعتماد ہوں‘۔ 
سچن تندولکر اگر کسی میچ سے قبل یہ دعویٰ کرے تو لوگ اگلے دن کھیل کا اسکور بورڈ دیکھیں گے؟ اس لئے آئیے دیکھتے ہیں دوسرے دن حصص(شئیر) بازار میں کیا ہوا؟ میچ بہت دلچسپ تھا پہلے تو بہار کی مانند ۱۲۰نکات کااچھال آیا اور اس کے بعد وہ گرنا شروع ہوا تو۶۶۰ پوائنٹ نیچے پہنچ گیا لیکن پھر سنبھلنا شروع ہوا اور جب کھیل کی آخری سیٹی بجی تو۱۵۲ رن سے مودی جی یہ میچ ہارگئے۔ سینسیکس تو خیر ٹسٹ میچ کی مانند تھا لیکن نیفٹی جو ففٹی ففٹی جیسا ہے اس میں بھی مودی جی کو۴۳ رنوں سے شکست فاش ہوئی۔ دراصل مودی جی کا مسئلہ یہ ہے کہ راہ چلتی مصیبت کو غیر ملکی سربراہ سمجھ کر بے ساختہ گلے لگا لیتے ہیں۔ بجٹ بناکر پیش کرنا وزیرخزانہ کا کام ہے اگر مودی جی اس بلا سے نہ لپٹتے تو لوگ جیٹلی کی ناکامی کا ماتم کرتیلیکن بھلا ہو مودی جی کی جلد بازی کا جو انہوں نے وزیر خزانہ کو رسوائی سے بچا لیا۔
بھولے ناتھ کے بھکت مودی جی خود بھی بہت بھولے ہیں وہ بھی (ہندوستان کی بھولی بھالی عوام کی مانند) رحمت اور زحمت کے درمیان فرق نہیں کرپاتے ہیں ورنہ یہ کیوں کر ممکن تھا کہ سمرتی ایرانی کی اداکاری پر خوش ہوکر اس تقریر پر ’ستیہ میو جیتے ‘ کی مہر ثبت کرتے جو کذب و مکاری کا پلندہ تھی اور ’جھوٹ میو مرتے‘ کہلانے کا سزاوار بھی نہیں تھی۔ اب حال یہ ہے کہ لوگ سمرتی جی کے بجائے مودی جی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ مودی جی کو سمرتی ایرانی کی ڈرامہ بازی اس لئے پسند آئی کہ وہ خود بھی نوٹنکی کرتے رہتے ہیں۔ عرصہ دراز کے بعد پچھلے دنوں وزیراعظم کو جب ممبئی کا خیال آیا تو ان کی دلجوئی کیلئے وزیراعلیٰ دیویندر فردنویس نے چوپاٹی پر ’’ میک ان انڈیا‘‘ کا تماشہ لگادیا۔ اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت فرماکر وزیراعظم واپس ہوئے تو پنڈال میں آگ لگی گئی۔
میک ان انڈیا کی آگ میں تیل ڈالنے کا کام وزیراعظم کی زوجہ محترمہ جسودا بین نے اسی دن ممبئی مظاہرہ کرکے کیا۔ ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم کے زیراہتمام احتجاج میں محترمہ جسودہ بین موسمِ باراں کے اندر جھگیوں کو مسمار کئے جانے کے خلاف بھوک ہڑتال کررہی تھیں جبکہ وزیراعظم امیر کبیر لوگوں کے ساتھ دعوت اڑا رہے تھے۔ ان تقریبات کے اندر یہ سوال پوشیدہ ہے کہ آخر یہ تضاد ہے جہاں بھری برسات میں خود اپنے باشندوں کی چھت کو بچانے کیلئے وزیراعظم کی اہلیہ کو سڑک آکر نعرہ لگانا پڑتا ہے مگر دیش بھکت وزیراعظم ان کی التجاء4 پر کان دھرنے کے بجائے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے سرخ قالین بچھا کرائیر انڈیا کے مہاراجہ کی مانند ہاتھ جوڑکرمسکراتا ہے۔ 
میک ان انڈیا کے پنڈال سے امیتابھ بچن اور عامر خان کو صحیح سلامت نکالنے کے بعد بہت جلدآگ پر قابو پالیا گیا لیکن چوپاٹی سے قریب ہی میں واقع ممبئی اسٹاک میں جو آگ لگی ہوئی تھی اس کے شعلوں کو دیکھ کر کون احمق سرمایہ کار ادھر پھٹکنے کی حماقت کرے گابلکہ ان شعلوں کو توقومی بجٹ بھی بجھا نہیں سکا۔ فی الحال حصص بازار شعلہ زن ہے ،ہرروز کروڈوں کا سرمایہ خاک میں مل رہا ہے۔ بجٹ والے دن وہ اس سال کے سب سے کم تر سطح پر پہنچ گیا اس کے باوجود عصر حاضر کا نیرو ارون جیٹلی چین کی بنسی بجارہا ہے۔یو پی اے کے زمانے میں وزیراعظم خود ایک ماہر معاشیات تھے اس کے باوجود انہوں نیپی چندمبرم اور پرنب مکھرجی جیسے ماہرین کووزارت خزانہ کا قلمدان سونپا۔ اب حال یہ ہے کہ چائے والے وزیراعظم کا وزیرخزانہ دہلی کرکٹ ایسو سی ایشین میں نوٹ کھیلتا ہے۔ ایسے میں اگر قومی معیشت سکرات کے عالم میں دم توڑنے لگیتو اس میں حیرت کی کیابات ہے ؟ 
ارون جیٹلی ایک ماہر وکیل ضرورہیں لیکن معاشی معاملات کا انہیں کو ئی تجربہ نہیں ہے اس کے باوجود وفاداری کے سبب وہ وزیرخزانہ بنا دئیے گئے۔ اس میں شک نہیں کہ ارون جیٹلی نے للت مودی جیسے گھپلے بازوں کی وکالت اور نریندر مودی جیسے سفاکوں کی چاپلوسی کرکے اپنے ذاتی خزانے کو مالا مال کیا ہیلیکن اپنی جیب بھرنے اورملک کی معیشت کو سنبھالنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ خام تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کا فائدہ اٹھا کرعوام کی فلاح وبہبود کی جانب توجہ دی جاتی لیکن ایسا کرنے کیلئے جو غریب پرور ذہنیت درکار وہ اس حکومت کے اندر ندارد ہے۔ مرکزی حکومت کو فی الحال اپنے رائے دہندگان کے بجائے ان سرمایہ داروں کا اربوں کھربوں کا قرض ستا رہا ہے جنہوں نے چندہ دے کر پچھلے انتخاب میں مودی جی کو وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچایا تھا۔ حق نمک ادا کرنے کی خاطر موجودہ سرکار سرمایہ داروں کا قرض معاف کرکے آئندہ انتخاب میں اپنی اعانت کو یقینی بنارہی ہے۔ وہ تو خیر سپریم کورٹ نے اس پر روک لگا کر قرض چرانے والوں کی فہرست طلب کر لی ورنہ کب کا یہ چور چور موسیرے بھائی ایک دوسرے کے وارے نیارے کرچکے ہوتے۔ 
قومی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے بنک خسارے کے بحران سے گذررہے ہیں۔ اسٹیٹ بنک آف انڈیا نیدسمبر کے خاتمہ پر ۶۷ فیصد گھاٹے کا یعنی۱۲۶۰ کروڈ کے نقصان کا اعلان کیا۔اس نے یہ بھی بتایا کہ۲۰۷۰۰ کروڈ کے قرضہ جات کا واپس آنا مشکل ہے۔ پنجاب نیشنل بنک ، یونین بنک آف انڈیا اور دیگر بنک بھی اس طرح کے خسارے کا شکار ہیں۔ معاملہ اس قدر سنگین ہے کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی اور اس نے ریزرو بنک سے ان کمپنیوں کی فہرست طلب کرلی جن پر ۵۰۰کروڈ سے زیادہ کا قرض ہے اور انہیں سہولت دی جارہی ہے۔ عدالتِ عالیہ کو اس پر تشویش ہے کہ بغیر کسی واضح رہنمائی اورواپسی کی ضمانت کے کن بنیادوں پر عوامی بنک اور معاشی ادارے قومی خزانے پر یہ عظیم بوجھ ڈال رہے ہیں ؟ حکومت کی معاشی کارکردگی کی کھری کسوٹی آئندہ سال کیلئے خوشنما بجٹ پیش کردینانہیں بلکہ گزشتہ بجٹ پر عملدرآمد ہے اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جیٹلی جی کے پچھلے بجٹ پر ایک نگاہ ڈالی جائے اور دسمبر کے اواخر تک اس پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جائے؟ 
گزشتہ سال کے بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق وزیرخزانہ چدمبرم نے کہا تھا کہ اس بجٹ کا زیادہ جھکاؤ صنعتی دنیا اور انکم ٹیکس ادا کرنے والے طبقے کی طرف ہے جبکہ ملک بڑی آبادی کے مفادات اس بجٹ سے غائب ہیں۔ یہ لوگ نہ صنعتی دنیا سے وابستہ ہیں اور نہ انکم ٹیکس چیاتے ہیں۔ عوامی فلاح و بہبود کے ان شعبوں میں بڑی ظالمانہ کٹوتی کی گئی ہے جو حکومت سے مدد وتعاون کی امید سے رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر پسماندہ طبقات سے متعلق کیلئے ۲۰۱۴ میں ۴۳۲۰۸ کروڑ روپے مختص گئے تھے جو گھٹ کر ۳۰۸۵۱ کروڑ روپے ہوگئے۔ درج فہرست قبائل کے لئے ۲۰۱۴ میں ۲۶۷۱۴ کروڈکا الاٹمنٹ کیا گیا تھا جو کم ہوکر۱۹۹۸۰ کروڈہوگیا۔ بچوں کی فلاح بہبود کا بجٹ ۱۸۵۹۱سے گھٹا کر محض ۸۷۵۴ کروڑ روپے کردیا
گیا۔ قومی سماجی امداد ، چھوٹی اور متوسط صنعتیں ، اقلیتوں کے ملٹی سیکٹورل ڈیولپمنٹ پروگرام ، ماحولیات اور جنگلات کا شعبہ اور دیہی سڑک منصوبہ کی مد میں بھی رقم گھٹائی گئی۔ اس کے برعکس حکومت نے صنعتی ٹیکس میں پہلے ہی سال ایک فیصد یعنی تقریباً ۲۰ ہزار کروڑ روپے کی راحت دی اور ہر سال یعنی ۵سالوں تک جملہ ایک لاکھ کروڈ کی سہولت دینے جارہی ہے۔ اس لئے حکومت کا یہ دعویٰ کہ ترقی ہوگی تو اس کا فائدہ سب کو ملے گاباؤلے کا خواب لگتا ہے۔
اس سال کے حتمی اعدادوشمار تو مارچ کے اواخر میں آئیں گے لیکن دسمبر تک یعنی تین چوتھائی سال کا جائزہبھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ساری وزارتوں میں تقریباً ۷۵ یصد اخراجات سرف ہوتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ۰۱ شعبوں نے نصف بھی خرچ نہیں کیا اور ۷ نے ۹۰ فیصد سے زیادہ خرچ کرڈالاجبکہ ایک چوتھائی سال باقی تھا۔ تفصیل میں جاکر دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ میک انڈیا کے نقطہ نظر سے تکنیکی صلاحیت میں اضافہ کی خاطر قائم کردہ وزارت نے صرف ۳۳ فیصد خرچ کئے۔ اسمارٹ سٹی بنانے والے شعبے نے صرف ۱۸ فیصد سرف کئے جبکہ اس کے تحت شہروں کی غربت کو دور کرنے کا شعبہ بھی آتا ہے۔غذائیت کی کمی کے لاکھ شور شرابے کے باوجود غذائی رسد کی وزارت نے صرف ۴۴ فیصد خرچ کئے۔ اقلیتوں کے شعبے کو پہلے رقم کم مختص کی گئی اور اس میں سے بھی ۹ ماہ کے اندر صرف ۳۸ فیصد کا استعمال ہوا۔ بڑی صنعتوں اور دفاعی امور جیسی وزارتوں میں ۷۵کے بجائے۵ ۲ فیصد خرچ ہوا۔ 
اس کے برعکس کوئلہ ،بجلی اور معدنی تیل و گیس کے شعبے نے ۹۰فیصد سے زیادہ خرچ کردئیے۔ وزارتِ آب رسانی ، ہوابازی ، پنچایت راج اور خواتین و واطفال کے فلاح بہبود کے شعبے تو۱۰۰ سے تجاوز کرکے ۱۳۷ فیصد تک پہنچ چکے تھے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کے ۳ ماہ میں وہ اپنا کام کیسے چلاتے رہے؟ پچھلے سال بجٹ کی ابتداء4 میں وزیر خزانہ ارون جیٹلی کاطنز یہ فقرہ ’’وراثت میں ہمیں جذباتی عذاب اور اداسی ملی ہے‘‘ اب خودان پر صادق آرہا ہے جبکہ مزید ۳ سال باقی ہیں۔ برآمدات کی شرح ایک تہائی ہوچکی اور روپیہ دن بدن گرتا جارہا ہے ایسے میں جب یہ لوگ اپنا بوریہ بستر گول کر کے جائیں گے تو قومی معیشت کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ منموہن سنگھ نے تو اپنی مدت کار میں سینسیکس کو ۸ ہزار سے ۲۴ ہزار تک اٹھایا تھا اب یہ اسے کہاں تک گرا کر جائیں گے یہ کوئی نہیں جانتا؟
اس موقع پر وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ اپنے من کی بات پر خود کان دھریں۔ مثلاً انہوں نے کہا تھا’’ امتحان صرف اعداد کا کھیل نہیں ہے بلکہ اسے اعلیٰ مقاصد سے وابستہ کرنا چاہئے‘‘۔ اسی طرح بجٹ بھی اعداد و شمار کی کرشمہ سازی نہیں ہے اسے بھی عوامی فلاح وبہبود سے منسلک کیا جانا چا ہیے۔ وزیراعظم نے نظم و ضبط کی جو تلقین کی ہے اس پر اے بی وی پی والے عملدارآمد کریں تو تعلیم گاہوں میں امن و امان قائم ہوجائیگا۔ وزیراعظم نے طلباء4 کو اچھی طرح سونے کا مشورہ بھی دیا لیکن ساتھ یہ بھی کہا امتحان گاہ میں نہ سوئیں اور کم نمبرآنے پر انہیں موردِ الزام نہ ٹھہرائیں اگر کوئی طالب علم وہاں موجود ہوتا تو کہتا جناب عالی امتحان گاہ کوئی ایوان پارلیمان تو ہے نہیں جہاں سمرتی ایرانی کی ہنگامہ آرائی کے دوران بھیاربابِ اقتدار گھوڑے بیچ کر سوجاتے ہیں۔ وزیرا عظم کا ’’اپنے اہداف طے کرکے بغیر کسی دباو کے کھلے ذہن سے اسے حاصل کرتے ہوئے اپنے آپ پر سبقت لے جانے کی کوشش ‘‘ کرنے کی نصیحت لفاظی اور نرگسیت کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے اس لئے اسے نظر انداز کردینا ہی بہتر ہے۔ 
اس بارمن کی بات میں شریک دیگر شرکاء4 تو ایسا لگتا تھا کہ وزیراعظم سے مخاطب تھے مثلاً وشوناتھ ا?نند کا مشورہ کہ ’’اپنا دماغ ٹھنڈا رکھو۔ بیجا خوداعتمادی یا قنوطیت کا شکار ہونے سے اپنے آپ کو بچاو‘‘ خالص مودی جی کیلئے تھا۔ سی این آر راو کی نصیت بھی خاص طور وزیراعظم کے لئے تھی جب انہوں نے طلباء4 سے کہا ’’ امتحانات ہیجان پیدا کرتے ہیں لیکن پریشان نہ ہوں بلکہ جو کچھ بہترہوسکتا ہے کریں۔ملک میں بہت سارے 
مواقع اورامکانات ہیں‘‘۔ یعنی کل کو وزارت عظمیٰ کی کرسی چلی بھی جائے تو چائے کی دوکان تو موجود ہی ہے۔ راو نے یہ بھی کہا کہ’’ آپ زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہو یہ طے کرنے کے بعد اسے چھوڑو نہیں۔ میری نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں ‘‘۔ مودی جی تو پہلے ہی اس مشورے پر عمل کرچکے ہیں لیکن جب ملک کی عوام ان سے نجات حاصل کرنے پر تْل جائیں گے تو راؤ صاحب کی نیک خواہشات کسی کام نہیں آئیں گی۔ اس صورتحال میں تو میں مودی جی کومراری باپو کی پروچن کا پالن کرنا ہوگا جو من کی بات میں انہوں نے دیا۔ مراری باپو نے اپنے من کی بات ان الفاظ میں بتائی کہ ’’ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر کوئی کامیاب ہو اس لئے ناکامی کے ساتھ جینا سیکھو‘‘۔ مودی جی اگر باپو کی یہ نصیحت گرہ میں باندھ لیں تو وہ ا?گے چل کر وہ ان کے بہت کام آئیگی لیکن اڈوانی جی کو اس کی اتباع کرنی چاہئے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا