English   /   Kannada   /   Nawayathi

مولانا عبدالباری بھٹکلی ندوی ؒ ہمہ جہت شخصیت کے مالک اور علم وعمل کے پیکر تھے۔

share with us

لیکن یہ بھی ایک حقیت ہے کہ اگر انسان کا دماغ روشن ہو، اور انسانیت ، قوم وملت کی بقا، اور اسکی خوشحالی و ترقی کے لئے بیدار ہو، تو ایسا انسا ن فنا کی منزل پر پہونچ کر بھی فنا نہیں ہوتا.
علم وعمل کے پیکر مولانا عبدالباری ندوی صاحب انھیں میں سے ایک تھے،چند ماہ قبل ایک مہلک مرض نے خاموشی سے ان کے اندر اپنی جگہ بنالی، اسی وقت سے مولانا کے متعلقین، جامعہ اسلامیہ، و اکابرین ندوہ، اس کے فرزندوں،طلباء خاص طور سے نائب مہتمم جناب مولاناعبدالعزیز بھٹکلی ندوی صاحب وغیر ہ کافی فکر مند تھے، اور انکی صحت یابی کی دعاکرتے ،اوردوسروں سے بھی اسکی درخواست کرتے،لیکن خالق کائنات کا فیصلہ ہی کچھ اور تھا کہ مولانا، ۱۸؍فروی ۲۰۱۶ء بروز جمعرات، تقریباپانچ بجے موت کے دروازے سے ہمیشہ ہمیش کے لئے اپنے مالک حقیقی سے جاملے،اس خبر سے جامعہ اسلامیہ،پورا بھٹکل،غم واندوہ میں ڈوب گیا، جنوبی ہندکے ہرمکتبہ فکر، کرناٹک ،دارالعلوم ندوۃ العلماء ،ملک وبیروں ملک کے علمی ادبی، حلقوں سمیت ہر اس شخص کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا،جو مولانا کی شخصیت اور ان کے عظیم خدمات سے واقف تھا، آپ کی تجہیز وتدفین میں ملک وبیرون ملک سے انسانی سمندر کا سیلاب امنڈپڑا، جو مولانا کی مقبولیت، اور اللہ کے یہاں اجرعظیم ملنے کی واضح علامت ہے ،دعاؤں کے ساتھ ہرایک کی زبان پر بس یہی تھا، کہ علم وعمل کاگوہر نایاب،ایساپھول جسکا چمکنا اور آسمان کی بلندیوں کو جسکا چھونا ابھی باقی تھا، اللہ نے ان سے اس عمر(۵۵سال) میں وہ عظیم کام انجام دلائے جو دوسر ے اپنی عمر عزیز کاسارا حصہ صرف کرکے بھی کچھ نہ کرسکے۔یقیناً مولانا کی وفات کے سانحہ سے جہاں پسماندگان متعلقین، اساتذہ ، طلباء،شاگرد سبھی غمزدہ ہیں، وہیں دارالعلوم ندوۃ العلماء ، جامعہ اسلامیہ بھٹکل،جنوب ہند، عالم اسلام کے مسلمانوں کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔
ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اداس ہیں۔
جامعہ اسلامیہ بھٹکل نہ صرف ندوۃ العلماء کا عظیم ملحق ادارہ ہے، بلکہ یہ جنوبی ہندکا ایسامعروف دینی، تعلیمی ادارہ ہے، جسکے معیار اور وقار کے چرچے ہیں، یہاں سے ہرسال نکلنے والے طلباء کی کثیر تعداد اپنے آپ میں ایک مقام رکھتی ہیں،علمی صلاحیت ولیاقت کے ساتھ انکی و سیع فکر، حب الوطنی،اور مساوات کی مثالیں دی جاتی ہیں،ملک وبیرون ملک میں جس طرف نظر اٹھاکر دیکھیں گے ، خدمت کے جذبہ سے بھرپورہر ایک کی رہنمائی کے لئے اس ادارے کے سچے سپوت ملیں گے، اس عظیم ادارے کے اہتمام جیسے اہم منصب پر فائز ہوتے ہوئے مولانا نے آخر وقت تک دینی، تعلیمی، تعمیری اعتبار سے جامعہ کوخوب ترقی دی، اور جس اخلاص وخلوص، نیک نیتی کے ساتھ اپنے فرائض کو بحسن وخوبی انجام دیا،اور قوم وملت ، اور مدارس عربیہ کے فرزندوں کی فلاح وبہبود اور انکی خوشحالی وترقی کی جس طرح راہیں تلاش کیں، اوران کو بام عروج تک پہونچایا وہ بے مثال ہے، اس طرح مولاناجامعہ اسلامیہ اور بھٹکل کی عظیم تاریخ کاایک تابناک باب تھے۔
مولانا کے ہمہ جہت شخصیت کی کئی جہتیں،اور پرتیں تھیں،مولانا عظیم خطیب ومقرر ، آن لائن فکرو خبر کے صدر، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کے افکار وخیالات کے سچے داعی، فکرندوہ کے نہ صرف ترجمان ، بلکہ اکابرین ندوہ سے انتہائی درجہ کا ربط وتعلق رکھنے کے ساتھ ہرجہت سے مخلص اور فکر مند ی کے ساتھ ہر مذہب اور ہر مسلک کو لیکر ساتھ چلنے اور چراغ سے چراغ جلانے کا ان کوملکہ حاصل تھا۔بغیرکسی نام ونمود ،دنیا کے کسی جاہ واعزاز اور کسی لذت وراحت سے سروکار نہیں رکھاتھا۔
مولانا کے اندرانسانیت کا درد،ملک وعوام کی خوشحالی وترقی، اور دینی وسماجی کاموں میں حصہ لینے کا جذبہ انتہائی درجہ کا تھا، ان کے تمام نظریات انسانی ہمدردی پر مبنی تھے، بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ فاصلوں کو سمیٹا،دوریوں کو مٹایا،اور قر بتیں پیدا کیں، ا نکی بے نفسی، سادہ مزاجی، مقصد کی بلندی، اورانتہائی درجہ کی شفقت ومحبت نے ہر ایک کو متاثر کیا، دنیا ہی میں اللہ نے اعزاز واکرام کے ساتھ انھیں مختلف نعمتوں سے نوازا تھا، مولانا ممتاز خصوصیت کے ساتھ البیلی ذات اور علمی صلاحیت کے اعتبار سے ایک انجمن تھے۔
یک روشن چراغ تھا نہ رہا
شہر میں ایک دماغ تھانہ رہا
وہ ہمیشہ خاندانی وضع داری،تہذیب واخلاق کی پاسداری،اورایمان واخلاق کی بلندی کے ساتھ نظر آئے، مسلک ومشرب ، آپسی چپقلش ،ذات ،برادری،اورعلاقائیت سے اوپر اٹھ کر بھٹکل کی جامع مسجدکے ممبرومحراب سے اتحاد ویکجہتی، آپسی بھائی چارگی ،محبت وانسانیت ، درس وتدریس ،پر زور دینے ، اور’برادران وطن کوایک مہذب انسان اور ذمہ دار شہری بننے کے ساتھ وسعت قلبی پیداکرنے کا درس دیا، بچوں کی تعلیم و تربیت میں مذہبی عنصر کو مقدم رکھنے کو نہایت ضروری کہا، قوم کی تعلیمی بدحا لی کی فکر ہمیشہ دامن گیر رہی، آپ ﷺ کی سیرت کا پیغام کیا ہے؟زندگی کے مختلف شعبوں کے لئے آپ ﷺ کی رہنمائی کیا ہیں؟ دل کی گہرائیوں سے اسلام کا پیغام سنایا۔
ملک کے موجود حالات اوردیگر مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ: ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشیدمبیں ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیابات بنے۔
اور باطل وناپاک طاقتوں کو للکار کر کہاکہ اسلام بگڑتے حالات کو قابو میں کرنے ، سدھارنے، اور ہرزمانے کی سوالات کا جواب دینے ، ہرمشکلات کو حل و چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہردور میں قیادت کی صلاحیت رکھتا ہے،اور یہ ثابت کردیا کہ اسلام نے ہمیشہ انسانی معاشرہ کی قیادت کی ہے۔
مولاناکے اساتذہ میں ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید محمدرابع حسنی ندوی، معتمد تعلیم جناب مولانا سیدواضح رشید حسنی ندوی، نائب ناظم جناب مولانامفتی محمدظہور ندوی ،مہتمم جناب مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی، عمید کلہۃ الشریعہ جناب مولانا زکریاصاحب ندوی،عمید کلیۃ اللغۃ جناب مولانا نذرالحفیظ صاحب ندوی،نگران اعلی جناب مولانا خالدندوی غازی پوری صاھب وغیرہ ہیں ،مولانا نے ان اکابرین ندوہ سے خوب استفادہ کیا،اور کلیۃ الدعوہ والاعلام کے عمید جناب مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب کے خاص شاگرد اور ان ک تربیت یافتہ تھے، جناب مولانا عبدلعزیز بھٹکلی صاحب ندوی کے باقاعدہ شاگرد تو نہیں رہے،لیکن انکی ذہن و شخصیت سازی میں مولانا کا اہم حصہ ہے،صحیح مشورہ، مفید آراء مولانا عبدالباری صاحبؒ کیلئے سنگ میل ثابت ہوتے تھے، ہمعصروں میں مولانا محمدجعفر حسنی ندوی، مولانا آفتاب عالم ندوی،مولانااکرم ندوی(مقیم لندن) وغیرہ ہیں۔ 
مولانانے اپنے مشن کی تکمیل کے لئے، علمی، فکری، دعوتی سرمایہ کے ساتھ احبا ب وتلامذہ کی ایک بڑی جماعت اپنے پیچھے جو چھوڑی ہے جن میں مولانا سیدہاشم نظام بھٹکلی ندوی جو مولانا کے برادرنسبتی بھائی اور فکرو خبرکے بانی بھی ہیں،محمدنعمان اکرمی بھٹکلی ندوی،محمدالیاس بھٹکلی ندوی،عبدالسبحان ندوی ، مولانا عبیداللہ کندلوری ندوی وغیرہ جیسے بے شمارشاگر دہیں جو اپنی اپنی صلاحیت اور فکر وفن کے لحاظ سے ملک وبیرون ملک میں امن وامان قائم رہنے ،گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینے کے ساتھ دین اسلام کی تعلیم دے رہے ہیں،ان سب کے کار خیرکے اجر میں مولاناکی حصہ داری ہے، باوجود اسکے! تم جیسے گئے ویسے تو جاتا نہیں کوئی ۔ اور علامہ اقبال کا یہ شعر نگہ بلند ، سخن دلنواز، جاں پرسوز یہی ہے رخت سفر میرکارواں کے لئے۔ مولاناکی شخصیت کی مصداق ہے ۔
ہم اپنیمحسن ومخلص دوست، مولاناسید ہاشم نظام ندوی صاحب ، اور ’’حرف معبر ححمجموعہ کلام‘‘ کے مصف جناب مولانامحمدنعمان اکرمی ندوی صاحب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ اداکرتاہوں،کہ جس تعلق کے ساتھ مولانا سے ملاکر ناچیزکو سعادت و شرف بخشا، اسی طرح مولانانے عزت دی، چاہے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں مولانا کی آمد کا موقع ہو، یا ۱۹۹۴ء میں بھٹکل کے پہلے سفر پرمولانا کے یہاں قیام وطعام کا نظم،پھر۲۰۱۲ء میں جامعہ اسلامیہ کے صد سالہ جشن کے موقع پربھٹکل میں مولانا سے ملاقاتیں ، ہرموڑ پرہرجگہ مولانا کے اعزاز، انکی شان وشوکت، اور انکے اعلی اخلاق، بلندکردار سے حد درجہ نہ صرف ناچیز متاثرہوا، بلکہ مخلصا نہ فکرمندی، اسلامی احکام ودینی تعلیمات پر عمل کرکے ہر خاص وعام کے علاوہ دانشوروں و رہبروں کو متاثر کیا، اپنوں کے علاوہ غیروں کے دلوں میں بھی ایک مقام و جگہ بنائی ,کیونکہ شخصیتیں آسمان سے نہیں اترتیں،بلکہ وہ اپنی سیرت اپنے اخلاق، اپنے کردار،اور اپنے مثالی کارناموں سے بنتی ہیں،اور زمانہ کو یہ کہنے پر مجبور کردیتی ہیں کہ
ایساکہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
میں سمجھتا ہوں میرے مخلص دوست کوجوشرافت، لیاقت،انسانیت نوازی، ہرایک کے ساتھ مشفقانہ، وہمدردانہ برتاؤ،دینی ،علمی ، تصنیفی وغیرہ جیسی جو اہم خصوصیات حاصل ہیں ان سب میں مولاناکا بہت اہم کردار اور رول ہے۔ یقیناًمولانا اپنے علم وعمل کے وہ نشان چھوڑ گئے ہیں جو مدارس عربیہ و امت مسلمہ کے لئے مشعل راہ ہیں۔
زمیں کھاگئی آسما ں کیسے کیسے
مولانا اس حدیث کی سچی تصویر تھے ’’، آپ ﷺ نے ماں باپ کو حکم دیا کہ اولاد کو اچھا ادب سکھائیں ، اور اللہ کا حکم ہے کہ اے ایمان والو!’’خود کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ‘‘، چنانچہ تمام وسائل مہیا ہونے کے باوجوداپنے تینوں فرزندوں عبدالبدیع ندوی، عبدالاحد ندوی، عبدالنورندوی کی صحیح تربیت کے ساتھ دینی تعلیم دلاکر حسن اخلاق کے اعلی مقام پرفائز کیا،جس کا نتیجہ ہے کہ آج وہ بھی اپنے والدمحترم کے نقش قدم پرچلتے ہوئے دین کے کاموں میں مشغول ہیں،یقیناً بچوں کی خوشحالی وترقی میں والدین کی اچھی تربیت اور انکی دعاؤں کا بڑا اثڑہوتا ہے۔، اسلئے ان ہونہار بچوں سے پوری توقع ہے کہ اپنے والدمحترم کے عظیم سرمایہ اور جو قیمتی ورثہ ان کو ملا ہے نہ صر ف اسکو باقی رکھیں گے ،بلکہ قوم وملت کے استفادہ کے لئے اپنے نیک بخت مامو جان کی سرپرستی اور جامعہ کے فرزندوں کی رہنمائی میں والد محترم کے ادھورے کاموں کو پورا کرنے کے ساتھ اس میں اضافہ کریں گے، اس طرح مولانا ہمارے درمیان نہ ہونے کے باوجود ان کا مشن جاری رہے گا،اور اس میں حصہ لینے والو ں کے لئے ذخیرہ آخرت ، اور کامیابی وکامرانی کا ذریعہ ثابت ہوگا، انشاء اللہ تعالی۔ 
غر ضیکہ مولاناکے کس کس گوشۂ حیات، کمالات زندگی،اور، گوناگوں محاسن کو احاطۂ تحریر میں لایاجائے، یہ راقم السطور کے بس کے با ہرہونے کے ساتھکچھ لکھنا یا کہنا سورج کوچراغ دکھانے کے مصداق ہوگا، کیونکہ اس عظیم شخصیت کو ایک سمت یاایک پہلومیں محدود نہیں کیاجاسکتا ، لیکن اگر نئی نسل کے سامنے بطوراستفادہ کچھہ نہ لکھا جائے ، تویہ بھی بڑی ناانصافی ہوگی، یہی وجہ ہے کہ ملک وبیرون ملک ،دارالعلوم ندوۃ العلماء سمیت مدارس عربیہ ودیگر اداروں میں مولاناکی عظیم خدمات کے تعلق سے تعزیتی ودعائیہ جلسوں کا سلسلہ جاری ہے،اور جاری رہے گا۔
مدرسہ ریاض الجنۃ کا تعزیتی جلسہ اسی مقصد کی ایک کڑی ہے، جس میں مولانا عبدالعزیز بھٹکلی ندوی صاحب نے اپنے جامع پیغام میں انکی ممتاز خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے ملت کا عظیم خسارہ قرار دیا، اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے استاذ ڈاکٹر ہارون رشید ندوی،مولانا شیخ ابرار احمدندوی، اور صدر جلسہ مولاناعبدالسلام بھٹکلی ندوی نے مولاناکی حیات وخدمات پرتفصیل سے روشنی ڈالی،اور اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھاکرعاجزی وانکساری کے ساتھ جو دعاکی،جس پرنھنے منے بچوں ، اور علمائے کرام نے انتہائی جذبات کے ساتھ جو آمین کہا، یقینایہ صدا ا اللہ کے یہاں پہونچی ہوگی، اور اللہ اپنے رحم کرم کامعاملہ فرماکر جنت کے اعلی مقام پرمولاناکو جگہ دی ہوگی۔بس غالب کا یہ شعر!
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے سفینہ چاہئیے اس بحربیکراکے لئے
خدا سے دعا ہے کہ مولانا کو اعلی علیین میں جگہ عطافرمائے، پسماندگان و متعلقین کو صبر جمیل عطافرمائے، جامعہ اسلامیہ،بھٹکل کی عوام،اور جنوبی ہندکے ہرمکتبہ فکر ، اور تدریسی، علمی ،ادبی حلقوں میں جوخلا پیداہوا ہے، اسکا اچھا نعم البدل عطافرمائے۔( آمین)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا