English   /   Kannada   /   Nawayathi

تجھ سا نہیں دیکھا...!

share with us

پھر غوثیہ مسجد میں اس وقت شبینہ مکتب کی بنیادی سہولیات کے نہ ہونے سے ہم بچوں کا جامع مسجد قرآن سیکھنے کے لئے جانا اور اکثر مغرب نماز میں انکی دلنشیں آواز کا ننھے کانوں سے ٹکرانا، تب احساس ہوا کہ اس کو چاہنے والے سینکڑوں میں ہے، نہ جانے کب جامعہ اسلامیہ سے محبت ہوئی کہ داخلہ کی ضد کرنے لگا، چوتھی کلاس کے امتحانی نتائج کو کیسے بھولوں جب دوم نمبر آنے پر غالبا پہلی بار ان سے بلا واسطہ ملاقات اور دس روپیئے انعامی لفافہ کے طور پر ملے، خوشی سے دل پھولے نہ سمایا، سچ کہوں تو انعام ملنے کی اصل وجہ اس وقت کے دس روپئے تھے جس سے چوک بازار کی مشہور دکان سے کافی ساری چاکلیٹ خریدی جا سکتی تھی، گھر پہنچ کر والدہ کا تاکیدا اس انعامی لفافہ کو یادگار کے طور پر رکھنے کا حکم کافی ناگوار گذرا، لیکن امی کا اپنے بیٹے کو اس عالم دین کے ہاتھوں انعام کے ملنے پر خوش ہونا میرے لیے سب کچھ تھا، اس وقت گھر میں تنگی نہ ہوتی تو وہ ضرور دعوت کا اہتمام کرتی. 
پھر اک سنہرے دور کا آغاز ہوا، جامعہ آباد میں داخلہ ان سے ملنے اور شاگرد بننے کا خواب پورا ہوا، سچ کہوں تو ان سے زیادہ لگاؤ اور محبت کے باوجود بھی ان سے زیادہ نہیں ملتا تھا، لیکن جب بهی ملاقات ہوتی تو ایسا احساس ہوتا کہ میں ہی انکے سب سے قریب ہوں، وہ اسی شفقت اور محبت سے وہ دوسرے طالب علموں سے بهی ملتے تھے، اک دن نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا تذکرہ اپنے استاد محترم سے کیا، تو انہوں نے بڑے پیار سے کہا، کہ ہم سب کو چاہتے ہیں اور ہم سب کے خاص ہیں، تم بهی ہمارے خاص ہی ہو، 
رہ رہ کر اک واقعہ بہت ہی یاد آتا ہے، انکے سمجھانے کا انداز بھی کچھ نرالا ہی تها، راقم الحروف ششم عربی میں تها، عید الاضحٰی کی چهٹیاں چل رہی تھی، کهیل کے دوران ساتھی سے لڑائی اس حد تک پہنچی کہ نوبت ہاتھاپائی تک آئی اور انجانے میں مد مقابل کو کافی گہری مار لگی، جو اس وقت پورے شہر میں آگ کی طرح پهیل گئی، اس کی شکایت یقیناً کسی نے مرحوم مہتمم کو کی ہوگی، عيد کی چھٹیوں کے بعد جامعہ واپسی ہوئی، دو دن گزر گئے مجھے لگا اس کا علم کسی کو نہ ہوگا، تیسرے دن نماز عصر استاد مشفق کے قریب ہوئی، مولانا نے پیار سے اپنے پاس بلایا، جس کا ڈر تھا وہی ہوا، کچھ منٹ تک پڑھائی کی بات کی، پھر غالبا یہ الفاظ کہے '' مجھے چھٹیوں میں جو ہوا سب پتہ ہے'' میں اپنی صفائی دینے لگا، تو اپنا شفقت بهرا ہاتھ میرے سر پر مسکرا کر رکها کہ مجھے کچھ بولنے کی ہمت نہیں ہوئی، انکے اس پیار بهرے انداز نے کئی ہفتوں تک ان سے ملنے کی ہمت نہ ہوئی، اس واقعہ کے بعد انکے
سامنے شرم سے سر اکثر جهکا رہتا. یوں تو کچھ ساتھی ان سے بہت ہی خاص تهے، عصر بعد یا پھر جامع مسجد میں جاکر ان سے استفادہ بهی کرتے، لیکن جب بھی کوئی ساتھی ان سے ملتا تو وہ اپنے آپ کو ان سے سب سے قریب تر پاتا، اسی لیے انکی محبت ہر دل میں سما جاتی. پل بھر میں 9 سال مادر علمی میں گزر گئے، کسی نے ان سے بہت کچھ اور مجھ جیسے نے شاید تهوڑا بہت سیکها.
فراغت کے بعد ہر کوئی الگ ہوگیا، مادر علمی اور اساتذہ کی محبت دل کے کونے میں بند رہ گئی، ہم میں سےکوئی انکے پڑهائے سبق کو دوسروں تک پہنچانے میں لگ گیا اور مجھ جیسے کئی اور ساتهی درہم و دینار بٹورنے میں لگ گئے، کچھ عرصہ پہلے انکا دبئی کا سفر ہوا، ابناء جامعہ کے پلیٹ فارم پر ان سے ملنے اور محبت کا اظہار کرنے ہر کوئی دوڑا آیا، انہوں نے واپس اسی سبق کو دوہرایا، وہی انداز بیاں، دنیا دھوکے کا سامان ہے اس سے دھوکہ نہ کھانے کی تاکید اور سچ کہوں تو دنیا سے متاثر نہ ہونے والی زندہ مثال۔ کچھ مہینے پہلےنئے گھر کی تعمیر کیتکمیل پر مولانا کو دعوت دینے گیا، تو انجان بن کر نام پوچھا، لیکن جب راقم السطور نے شکایتا اپنا نام بھولنے پر افسوس کیا تو مسکرا کر کہا "اکیری ہونا تم" اسی نام سے وہ شفیق مجھے پکارتے تھے، اور اپنی مصروفیات کے باوجود بندہ کی دعوت پر لبیک کہا ۔ 
خالق کائنات کو ان سے اتنی محبت ہوگی کہ انکے درجات کی بلندی یا انکی ممکنہ لغزشوں کی معافی کیلئے انکو بیماری میں مبتلا کیا، پھر جب انکے صبر و تحمل کا امتحان ختم ہوا تو زمین میں انکے چاہنے والوں کو اسی مسجد میں جمع کیا جس کی ممبر و محراب تین دہائیوں تک انکے ولی اللہ ہونے کی گواہی دے رہی تھی، مولانا کا ہر اک سے محبت سے پیش آنا، ہر اک کو اپنا خاص سمجھ کر محبت سے پیش آنا ، انکی انکساری شاید رب کائنات کو اتنی پسند آگئی ہوگی کہ انکی وفات پر اہل بھٹکل اور اطراف نے انکی نماز جنازہ کا وہ منظر دیکھا جو شایدہی
آنے والے سالوں میں نظر آئے، اللہ انکی قبر کو نور سے بھر دے اور جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے آمین ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا