English   /   Kannada   /   Nawayathi

جہیز، غیر مسلم سماج کی دین، جسے مسلمانوں نے اپنا لیا ہے

share with us

جہیز کے نام پر کھلی سودے بازی یا اس سے کم ملنے پر بہو کی زندگی جہنم بنادینے کا رویہ دوسرے معاشروں کے مقابلہ میں مسلمانوں میں کافی کم ہے۔ پھر بھی یہ لعنت مسلمانوں میں اب سرایت کرتی جارہی ہے۔ گزشتہ دنوں بھوپال میں ایک واقعہ ایسا ہوا جس میں سسرال والوں نے بہو پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی اس سے پہلے بھی کچھ واقعات ایسے منظر عام پر آئے ہیں جن میں مسلم بہوؤں کو جہیز کے لئے اذیتوں کا شکار بنایا گیا جہیز کے لئے مظالم کا اثر مسلم معاشرہ پر کم نظر آتا ہے تو اس کا پہلا سبب اسلام کے عقیدۂ آخرت کے تحت سزا وجزاء کا تصور ہے ۔ دوسری طرف اہم وجہ وہ عائلی قوانین ہیں جن کو مسلم پرسنل لا سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان کے تحت طلاق اور خلع کی جو سہولت اسلام نے مسلمانوں کو فراہم کررکھی ہیں آج کا نام نہاد ماڈرن سماج اس کا کتنا ہی مذاق اڑائے لیکن جادو وہی ہے جو سر چڑھ کر بولے۔ سپریم کورٹ کے ایک سابق جج جسٹس ایچ آر کھنہ نے بھی مسلم پرسنل لا کے اس پہلو کا حوالہ دیئے بغیر حمایت کرتے ہوئے ایک مذاکرہ میں کہا کہ ’’اگر ازدواجی تعلقات ناقابل اصلاح حد تک خراب ہوجائیں تو اسے طلاق یا زوجین کی علاحدگی کے لئے ایک سبب تسلیم کیا جائے جبکہ مروجہ قوانین کی رو سے ازدواجی زندگی کے لئے انتہائی بگاڑ کو بھی شوہر اور بیوی کی علاحدگی یعنی طلاق کے لئے کافی وجہ تصور نہیں کیا جاتا۔ 
حیرت کی بات یہ ہے کہ اکثریت کے سماج میں جب کسی بہو کو زندہ جلایا جاتا یا سسرال میں اسے تنگ کرکے خودکشی پر مجبور کردیا جاتا ہے تو سماجی مصلحوں کی توجہ اس طرف مبذول نہیں ہوتی لیکن مسلم معاشرہ کے ایسے کسی بھی معمولی سے معمولی واقعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ایک معمول بن گیا ہے۔ حالانکہ ہندوستان کے سوا دنیا کے ہر ملک میں مسلمان جہیز کی لعنتوں سے پوری طرح محفوظ ہیں او ریہاں بھی یہ برائی ہندو سماج سے مسلم معاشرہ میں منتقل ہوئی ہے۔ 
اس نظریہ کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ ہندو مذہب میں کیونکہ لڑکیوں کو والدین کی جائداد سے کوئی حصہ نہیں ملتا لہذا وہ اپنی بیٹیوں کو شادی کے وقت خاصی رقم اور سامان دے کر اس طریقہ کو ’’کنیادان‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں مگر وقت کے ساتھ اس کی نوعیت تبدیل ہوگئی ہے۔ پہلے یہ فراخ دلی کی بات ہوتی تھی مگر اب یہ جبریہ وصولی اور عدم ادائیگی کی صورت میں ایذا رسانی اور دہن سوزی تک پہونچ گئی ہے۔ مگر مسلمانوں میں تو اسلامی قانون وراثت موجود ہے جس کے تحت والدین کی جائیداد سے بیٹیوں کو بھی حصہ ملتا ہے۔ لہذا شادی کے وقت جہیز کے نام پر مالی زیر باری کی چنداں ضرورت نہیں تھی مگر دوسروں کی اتباع میں مسلمان بھی اس برائی کو اپناتے جارہے ہیں۔ حالانکہ اسلامی شعائر سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور بلا خوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جہیز کا مطالبہ یا اس کا بیجا چلن غیر مسلم سماج کی دین ہے جس سے ہر مسلم خاندان کو بچنا چاہئے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا