English   /   Kannada   /   Nawayathi

ملک کس ڈگرپر ؟

share with us

سرزمین ہند پر رہنا ہے تو بس خاموش تماشائی کی طرح رہو، وہ مخصوص ذہنیت جو آج ملک میں کار فرما ہے اس کے تیور دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ منھ کو سی لیجئے، زبان کو دانتوں تلے دبالیجئے، ظلم و ستم کا ننگاناچ دیکھتے رہئے، آزادی اور اظہار رائے کا آپ کو کوئی حق نہیں، خاموشی ہی آپ کا مقدر ٹھہری، ہاں اب اگر اس ملک میں کوئی بولے گا تو برسراقتدار جماعت کے افراد، ان کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ ملک کی حمایت اور ملک کی ترقی کا راز گردانا جائے گا اگر اور کسی زبان نے حرکت کی جرأت کی وہی ہوگا جو ہورہا ہے۔ عامر خان نے اس ملک کے وزیر اعظم کو حق کا آئینہ دکھانے کی کوشش کو تو انہیں کروڑوں کا نقصان پہنچایا گیا اور آر ایس ایس کے کارکنان نے اس پر بھپتیاں کسیں اور طعنے دیئے، مذاق اڑایا کہ یہ ان کے لیے سبق ہے، آگے بڑھئے تو ایک دلدوز فسانہ ہے، ایک ایسی داستان جو ہندوستانی جمہوریت کو شرمندہ کررہی ہے، جو آمریت کی یادگار ہیں اور مثال ہے تانا شاہوں کے عمل کی، ایک طالب علم جس نے وہی راگ الاپا جو اس طبقے کو پسند نہیں، اس کے کان جس سے بیزار ہیں تو اسے ایسی سزادی گئی جو آگے نسلوں کے لیے عبرت ہوگئی، زندگی کے قیمتی ایام صرف کرتے رہے، جدو جہد کرنے کے بعد وہ جس مقام پر پہنچاتھا وہاں سے پل بھر میں اسے دھکا دے دیا گیا، جس سفر میں بے شمار فسانے پوشیدہ ہیں، ایثار و قربانی، محبت و محنت، جدو جہد کی داستانیں ہیں، اس سفر کا بھیانک اختتام ہندوستانی حالات کا عکاس و ترجمان ہے اور اس امر کا غماز ہے کہ آج ملک کا مزاج کیا ہے؟ اور روہت کا درد قلب سے دوربھی نہیں ہوا، ابھی اس کی یاد میں بہتے آنسو تھمے بھی نہیں، اس کی چتا کی آگ ابھی بجھی بھی نہیں کہ ایک نیا قصہ اور نیا فسانہ نگاہوں کے سامنے ہے، پھر سے وہی انداز، طور طرز، رویہ اور طریقہ ہندوستان کی عظیم یونیورسٹی جواہرلال نہرو میں دیکھنے کو ملا، ملک کا عظیم ادارہ ہند کی عزت و آبرو اس کی توقیر جو ہمیشہ سے اپنے موقف میں بے باک ہے وہاں کمزوروں اور ناتواں لاچاروں کی حمایت خون میں دوڑتی ہیں، جب جب ظلم بڑھا وہاں کے افراد نے اس کی پرزور مخالفت کی، روہت کے معاملے پر جب ملک میں کئی دنوں سناٹا پسراتھا تب بھی جے این یو نے لوگوں کی رہنمائی کی، وہاں کے طلبہ نے احتجاج کیا جس کی قیمت انہیں آر ایس ایس کے ڈنڈے کھاکر چکانی پڑی مگر یہ ادارہ ہمیشہ سے رواداری محبت کے خیالات کا حامی رہا ہے، ادارے میں قدم رکھتے ہی اس بات کا احساس ہوجاتا ہے ، مارکس کے نظریات وہاں ہمیشہ سے اہمیت کے حامل رہے، سرمایہ دارانہ نظام کو یہاں کے افراد نے پسند نہیں کیا، اس طریقے کو مسترد کر دیا جس میں کمزوروں کا خیال نہ ہو ان کا استحصال ہو، فرقہ پرست طاقتوں کی آنکھ میں یہ گہوارۂ علم کانٹے کی طرح چبھ رہا تھا انہیں تلاش تھی صرف ایک موقعہ کی اور موقعہ انہیں فراہم ہوا، ۹؍فروری کو جب طلبہ نے کشمیری مسائل پر پروگرام کرنے کا من بنایا، ان کے خلاف ہورہے ظلم و تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ساتھ افضل گرو کی برسی بھی منانے کا فیصلہ کیا، انتظامیہ سے اجازت لی گئی، سب کچھ طے ہوچکا اب مخالف جماعت نے اپنے انداز میں کارروائی کی، پروگرام کی اجازت منسوخ کرائی گئی، طے شدہ پروگرام سے دس منٹ پہلے خبر دی گئی کہ اجازت نہیں ہے طلبہ نہیں مانے پروگرام ہوا اس آواز میں شدت اور تلخی آگئی ، چونکہ مظلوموں کی آواز تھی ملک مخالف نعرے لگے جو ابھی تک ایک پہیلی ہیں کہ لگائے کس نے؟ بعض افراد دعویٰ کررہے ہیں ای بی وی پی کے افراد نے یہ نعرے لگائے، سوشل میڈیا میں بھی اس طرح کی آڈیو وائرل ہونے کے دعوے کئے مگر جو سختی پیدا ہوئی اور جو نعرے لگے وہ یقیناًغلط ہیں مگر اس کے بعد بھونچال آگیا اور دلی دہل گئی، طلبہ صدر کنہیا کمار کو گرفتار کیا گیا ان کے علاوہ ۱۳؍فروری کو سات طلبہ کو گرفتار کیا گیا، کنہیا کمار کا کہنا کہ اس نے نعرے بازی نہیں کی اور وہ ملک سے محبت کرتا ہے اس کا مقدر کیا ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر کیا یہ برسی پہلی بار منائی گئی؟ کیا جے این یونے اس سے پہلے اس طرح کے پروگرام کا انعقادنہیں کیا؟ پھر اس پر ای وی بی پی اتنی چراغ پاکیوں؟ کیا روہت کی حمایت کا بدلہ ہے؟ جب کہ دوسری طرف اس کا دوسرا پہلو دیکھئے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس سالوں گاندھی کے قاتل کی برسی مناتے آئے ہیں، ۱۵؍نومبر ۱۹۴۹ء ؁ کو ہندوستان کے ایک عظیم سیاست داں اور مجاہد آزادی کو قتل کرنے کے جرم میں سزادی گئی، آئین ہند کے مطابق وہ مجرم قرار پایا، آج تک اس کی برسی منائی جاتی ہے، ہتھیاروں کی پوجا ہوتی ہے کسی کو کوئی اعتراض نہیں نہ کوئی واویلا، نہ شور، نہ کوئی مخالفت، نہ جرم، اب تو بی جے پی کے بڑے بڑے نیتاؤں کی زبان آگ اگل رہی ہے مگر سالوں سے کئے جارہے اس عمل پر کوئی شکوہ نہیں، حال یہ ہوچکا ہے کہ جو بھی زبان سنگھ کی حمایت اور اس کے نظریے کی تائید میں کھلتی ہے قبول کرلی جاتی ہے، چاہے وہ دہشت گرد ہی کی زبان کیوں نہ ہو، خفیہ ایجنسیاں جو ہندوستان کی بڑی طاقت اور اس کا اہم جزہے ان کو نظر انداز دیا جاتا ہے، بے حیثیت اور بے وقعت قرار دے دیا جاتا ہے اور آڈیو یہ کہتے ہیں کہ وہ گجرات کے وزیر اعظم کو پھنسانے کے لئے جال بنایا گیا تھا حالانکہ ابھی عدالت نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا، کیا یہ الفاظ ہند کے لئے خطرناک نہیں؟ کیا یہ ایسا دروازہ نہیں جس کو ہر سیاسی جماعت اپنی مفاد کی خاطر کھٹکھٹائے گی، آئے دن تحقیقات کو اپنے مفاد کا نشانہ بنالیا جائے گا؛ لیکن یہ سب ملک کی حفاظت کی باتیں ہیں، ان کو بولنے والے ملک محب ، ہمدرد، غمخوار، وطن پرست ہیں؛ کیونکہ یہ سب سنگھ کے نظریے سے ملتی ہیں، ان کے خیالات کی تائید میں کہی گئی ہیں اس لیے ان کے حق ہونے میں کیسے شک ہوسکتا ہے اگر کوئی ان باتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو اس کے ساتھ وہی ہوگا جو جے این یو میں ہوا، ان نعروں کی مذمت کرنا ہرہندوستا نی کا فرض ہے اس طرح کے ملک دشمنی نعرے قطعی برداشت نہیں کیے جاسکتے ہیں اس سرزمین پر ایسے ملک دشمن خیالات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ہم اس کی دل کی گہرائیوں سے مذمت کرتے ہیں مگر اس گتھی کو بھی تو سلجھایا جائے کہ اتنی گندی زبان کا استعمال کرنے والے کون افراد تھے؟ یا وزیر داخلہ کے کہنے سے کہ اس معاملے میں سعید کا ہاتھ ہے سب کچھ عیاں ہوگیااور اب کسی تحقیق و تفتیش کی ضرورت نہیں، اور اس لہجے میں گفتگو کرنا ایک ملک کے وزیر داخلہ کے لئے کس حد تک درست ہے؟ ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد ہر شخص سمجھ جائے گا کہ ملک کس ڈگر پر رواں ہے، جس کے نتائج کتنے سنگین بھیانک اور دل دوز ہیں، مگر چند مفاد پرستوں کو کچھ بھی خبر نہیں اور ہر چیز کو مفاد کے نظریے سے دیکھا جارہا ہے اس پر بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ 
ساقیا تو نے میخانے کا کیا حال کیا؟
بادہ کش محتسب شہر کے گن گاتے ہیں 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا