English   /   Kannada   /   Nawayathi

انسانی جان کی حرمت اور عالم عرب

share with us

اخبارات بظاہر کاغذ کے ٹکڑے ہیں لیکن جب یہی اخبارات دل کے ٹکڑوں کی کہانی لے کر آپ کے ہاتھوں تک پہنچتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے ہاتھوں میں اخبار نہیں بلکہ خود ہماری وہ لاش ہے جو بغیر کفن دفن کے ہمارے گھر کے صحنوں میں پڑی ہماری درندگی کا فسانہ بیان کر رہی ہے اور اب تو فسانہ ہی نہیں بلکہ ایسا ناول ہے جس کے بہت سارے باب ہیں اور ہر باب انسانیت کے نام پر ایک بدنما داغ پیش کرتا نظر آرہا ہے۔ 
رونا تو اس بات کا ہے یہ سب کچھ وہاں اور وہ لوگ کر رہے ہیں جن کے یہاں کسی ایک جان کا خون بہانا ایسا ہے جیسے کسی نے پوری انسانیت کا خون کردیا ہو۔ مسلم ملکوں کے حالات پڑھنے کے بعد ہر شخص یہ محسوس کر رہا ہے کہ جو لوگ ایک دوسرے کی گردن اتار رہے ہیں شاید یہ مسلمان ہی نہیں ہیں یا پھر یہ لوگ اپنے دین سے اتنے دور ہوچکے ہیں کہ انہیں یہ احساس ہی نہیں رہا کہ وہ مسلمان ہیں اور اس دین کے پیروکار ہیں جسے دین رحمت کہتے ہیں۔ 
اسلان دین فطرت ہے اور فطرت انسانی کے تمام ضروری تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ اسی لیے انسانی زندگی کی بقا، انسان کی تمدنی ضروریات اور امن و سکون کے تمام ضروری تقاضوں کی تکمیل اس کے ذریعہ ہوتی ہے۔ اس لیے حیاتِ انسانی کی حفاظت جو کسی بھی معاشرے کے قیام کی بنیادی ضرورت ہے، اسلام نے اس کو بھی اولیت دیتے ہوئے ہر انسان کی جان کو محترم قرار دیا ہے۔ زندہ رہنا انسان کا حق ہے، دوسروں کو زندہ رہنے دینا اس کا فرض ہے، اسلام نے اس حق اور فرض کا پورے طور پر خیال رکھا ہے۔ تو یہ کون سا اسلام ہے جسے وہاں کے مسلمان اور ان کے حکمراں پیش کر رہے ہیں؟ اور جس کے نام پر قتل و خوں کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں! 
اسلام کی نظر میں کسی جان کا اتلاف اتنا بڑا جرم ہے کہ اسے سب سے بڑے جرائم کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ حدیث شریف میں ہے ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ شرک باللہ اور ماں باپ کی نافرمانی اور کسی جان کا قتل کرنا ہے۔‘‘ 
اس جرم کا اتنا بدترین جرم ہونا معقول بھی ہے۔ چونکہ اگر معاشرے میں انسانی جان کی حرمت کا تصور ختم ہوجائے تو نہ کوئی قانون ہی نافذ ہوسکتا ہے اور نہ کسی معاشرے میں امن و سلامتی قائم ہوسکتی ہے اور واقعہ یہ ہے کہ دنیا کا نظام ہی انسانی جان کی حرمت پر مبنی ہے۔ اگریہ نہ ہو تو کسی ضابطہ حیات یا معاشرے کا تصور ہی بے معنی ہوکر رہ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ کسی مسلمان کے قتل کے مقابلے میں پوری دنیا کا زوال خدا کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا ہے (مسلم)۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ ’’کسی کو قتل کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اگر ساری کائنات مل کر کسی ایک آدمی کو قتل کردے تو اللہ تعالیٰ پوری کائنات کو سزا دے گا‘‘ (طبرانی)۔ 
مومن کو قتل کرنے کے سلسلے میں جو وعید آئی ہے اتنی شاید کسی دوسرے جرم کے بارے میں نہیں آئی۔ قرآن پاک میں ہے ’’جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کی سزا جہنم ہے اس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے‘‘ (النساء)۔ قرآن میں یہ بھی فرمان ہے کہ ’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین پر فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی‘‘ (مائدہ)۔ 
تمام قرآنی آیات اور احادیث شریفہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں انسانی جان علی الاطلاق محترم ہے۔ صرف مسلمانوں کی تخصیص نہیں ہے (بلکہ ہر ذی روح کی جان کا احترام ضروری ہے، نہ تو کسی جاندار کو بلاوجہ مارنے کی اجازت ہے اور نہ ایذا رسانی کی) کوئی شخص کسی بھی مذہب یا ملت کا پیروکار ہو اس کی جان محترم ہے۔ چنانچہ ذمی جو یقیناًغیر مسلم ہی ہوگا، اس کے قتل کے سلسلے میں نسائی شریف میں ایک روایت ہے کہ جس نے ذمی کو قتل کیا اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی۔ بلکہ ذمی پر ہی کیا موقوف ہے حربی کافر کی حفاظت تو اسلامی اسٹیٹ کی ذمہ داری بھی نہیں ہوتی اگر وہ بھی معاہدہ ہو تو اس کو بھی قتل کرنا ناجائز اور سخت گناہ ہے۔ بخاری شریف میں ہے ایسا شخص جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکے گا۔ (محمد مشتاق تجاروی کے مضمون ’انسانی جان کی حرمت‘ سے اقتباس) 
انسانی جان کی حرمت کے سلسلے میں حجۃ الوداع کا خطبہ کلیدی نوعیت کا ہے جس میں آپؐ نے فرمایا تھا کہ لوگو! تمہارے خون، مال اور عزتیں ایک دوسرے پر قطعاً حرام کردی گئی ہیں، ہمیشہ کے لیے ان چیزوں کی حرمت ایسی ہے جیسے آج تمہارے اس دن کی اور اس مہینے کی اور اس شہر کی۔ خبردار ایسا نہ ہو کہ تم میرے بعد ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو اور کفار کے زمرے میں شامل ہوجاؤ (بخاری)۔ 
بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ ’’کسی ایسے مسلمان کا خون جو لا الٰہ الااللہ محمدالرسول اللہ کا قائل ہو حلال نہیں ہے مگر صرف ان تین صورتوں میں جان کے بدلے جان، شادی شدہ زانی اور تارک مذہب جماعت کو چھوڑنے والا۔‘‘ (بخاری و مسلم) اسی طرح ناگزیر جنگ میں صرف انہی لوگوں کو قتل کیا جائے جو محارب ہوں۔ جو لوگ محارب نہ ہوں انہیں قتل نہ کیا جائے اور عورتوں، بچوں، بوڑھوں، بیماروں وغیرہ کو بھی قتل نہ کیا جائے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ کس غزوہ میں کچھ بچے ہلاک ہوگئے، آپؐ کو اس پر بہت دکھ ہوا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ تو کفار کے بچے تھے؟ آپؐ نے فرمایا ’’وہ مشرک بچے بھی تم سے بہتر ہیں، خبردار بچوں کو قتل نہ کرو۔ ہر جان خدا کی طرف سے فطرت پر پیدا ہوتی ہے‘‘ (احمد)۔ اسی طرح ایک غزوہ میں ایک عورت ہلاک ہوگئی۔ آپؐ نے اس کی لاش دیکھ کر فرمایا۔ اوہ! یہ تم نے کیا کیا یہ تو جنگ میں شامل ہونے والوں میں سے تو نہ تھی۔ جاؤ خالد سے کہہ دو کہ ذریت عورتوں، بچوں اور معذوروں کو قتل نہ کرے۔ (کتاب الاموال، ابوعبید) 
اسلام کی نظر میں انسانی جان کے تحفظ اور احترام سے متعلق یہ چند باتیں ہیں ورنہ اسلام تو نازک ہی اس لیے ہوا ہے کہ ساری دنیا میں امن وسلامتی قائم ہو۔ کسی کمزور کو طاقتور کا، کسی غریب کو امیر کا کوئی خوف باقی نہ رہے اور ایک بڑھیا صنعا سے یمن تک سفر کرے اور اس کو سوائے خوف خدا کے دوسرا کوئی خوف نہ ہو۔ 
آج عالم اسلام میں اسلام کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ یقیناًاسلام کے خلاف ہو رہا ہے، لاکھوں لوگ تہہ تیغ ہو رہے ہیں اور لاکھوں اپنے گھر بار چھوڑ کر دوسری جگہوں یا ملکوں میں پناہ لے رہے ہیں۔ وہ دین جو دنیا کے لیے سلامتی تھا اسے اپنے ہی بدنامی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ مذکورہ بالا قرآنی آیات و احادیث کی روشنی میں اسلام کو سمجھنے اور جاننے کی کوشش کی جائے، عرب ملکوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نام نہاد مسلمانوں کے بدولت ہو رہا ہے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کے پیچھے وہی لوگ ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں۔ اسلام میں انسانی جان کی حرمت پر جو چند باتیں پیش کی گئی ہیں وہ دین اسلام کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں بشرطیکہ دلوں میں بخل و بغض نہ ہو۔ سچے اور صاف دل سے اسلام اور عرب کے موجودہ حالات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ آج کی صورتِ حال کو صبح کے اخباروں نے جس طور سے پیش کیا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ اسلام کے ازلی دشمنوں نے جس طرح خلافت کو ختم کرکے ترکی کے قبرستان میں اسلام کے دفن ہونے کا کتبہ آویزاں کردیا تھا اسی طرح ایک بار پھر عرب کے کسی اور قبرستان میں نئے کتبے کے ساتھ دفن کردینے کی تیاریاں کرچکے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو، لیکن ہر روز صبح کو نمودار ہونے والے اخبارات ہمیں خون کے آنسو رلا رہے ہیں کہ اہل اسلام کو کیا ہوگیا ہے؟ اور یہ کب تک اسلام دشمنوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر دین و ملت کو رسوا کرتے رہیں گے؟

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا