English   /   Kannada   /   Nawayathi

کمیونسٹوں کا افضل گرو سے کیا رشتہ تھا؟

share with us

اور ابھرتی ہوئی لیڈر ممتا بنرجی نے سمجھ لیا کہ اگر مسلمانوں کو ساتھ لے لیا جائے تو بن مانگی مراد مل سکتی ہے۔ اور وہ پانچ سال سے کمیونسٹوں کے سینہ پر مونگ دل رہی ہیں۔ 
اب جو حیدر آباد یونیورسٹی میں دلت طالب علم لیڈر روہت کی خودکشی پر یونیورسٹی میں بیف پارٹی اور ایک یعقوب کو پھانسی کے جواب میں گھر گھر میمن کے نعرے اور یعقوب میمن کی غائبانہ نماز جنازہ کا شرم ناک ناٹک اور مظفر نگر میں مسلمانوں کے غم کا ماتم یا اب جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں افضل گرو کی برسی پر ہنگامہ، اور بات کو پاکستان زندہ باد کے نعروں تک لے جانا، کہیں سے کہیں تک افضل گرو سے محبت یا تعلق کی بنا پر نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف بنگال کے الیکشن میں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کی اتنہائی گھٹیا حرکت ہے۔ یعقوب میمن کی نماز جنازہ صرف ایک ہوئی اس میں ہم نے نہیں سنا کہ کتنے کمیونسٹ تھے؟ اس کے بعد کہیں سے خبر نہیں آئی کہ ان کی غائبانہ نمازجنازہ پڑھی گئی ہو۔ اور افضل گرو کی پھانسی ہو یا تہاڑ جیل میں ہی انہیں دفن کرنا ہو۔ اس کی نماز جنازہ ہو سکتا ہے کہ کشمیر میں غائبانہ پڑھی گئی ہو کیونکہ اس کا جواز اس لئے تھا کہ راہل کی حکومت نے آخری درجہ کی مسلم دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کا مردہ جسم بھی خاندان کو نہیں دیا۔ 
آج جب مودی نے کانگرس مکت بھارت کا مشن چلا کر انہیں 44سیٹوں میں سمیٹ دیا ہے تو وہ حیدر آباد یورنیورسٹی میں بھی روہت کی محبت میں نظر آرہے ہیں اور کل جواہر لال نہرو یورنیورسٹی میں بھی پہنچ گئے جہاں سارا ہنگامہ افضل گرو کی برسی کی وجہ سے ہوا۔ اور انہیں یہ بھی یاد نہیں آیا کہ ان کا ہی وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے تھا جس نے انسانیت اور شرافت کو تار تار کردیا۔ درجنوں غیر مسلم قانون دانوں اور دانش وروں نے کہا کہ افضل گرو کواپنی صفائی کا موقع تو دینا چاہئے۔لیکن یہ ان ماں بیٹے کی بزدلی تھی کہ بی جے پی لیڈروں نے جب کہا کہ افضل کو کانگرس نے اپنا داماد بنا کر رکھا ہے اور اسے پھانسی دینے سے وہ ڈر رہی ہے۔ تو یہ کہنے کے بجائے کہ انصاف کا تقاضہ پورا کیا جارہا ہے، اسے پھانسی دے دی۔ اس وقت تو ہم نے سی پی ایم کے کسی لیڈر کو نہیں دیکھا کہ وہ پرکاش سنگھ بادل کی طرح وزیر اعظم کے پاس گئے ہوں۔ اور ان کی طرح کہا ہو کہ اگر افضل گرو کو پھانسی دی گئی تو کشمیر اور بنگال میں حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے۔ اس کی حمایت میں تو عمر عبداللہ کو بھی دولفظ بولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔کہ وہ اتنا ہی کہہ دیتے کہ اس کی صفائی میں جو کچھ اور کہا جانا ہے اسے تو سن لیا جائے؟ بات یہ تھی کہ اس وقت بنگال کے مسلمانوں کے ووٹ کامسئلہ نہیں تھا۔
مرکزی حکومت نے جو رویہ اپنایا ہے وہ اس کا حق ہے۔ حیرت اس پر ہے کہ وہاں راہل گاندھی آنند شرما اور دوسرے کانگریسی کیا کرنے گئے تھے؟ سنا ہے وہاں یونین میں بائیں بازو کی اکثریت ہے۔ اور گرفتار ہونے والے بھی ایک کے علاوہ سب ہندو دلڑ کے ہی ہیں۔ وہ اگر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ ان کے دل کی آواز نہیں ہے یہ صرف بی جے پی کی تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کو چڑھانا ہے۔ لیکن یہ مسلمانوں سے ہمدردی نہیں ان کے ساتھ دشمنی ہے۔ ہندوستان میں کوئی مسلمان پاکستان زندہ باد کا نعرہ نہیں لگاتاہے۔ ہندوستان میں جو مسلمان ہیں ان میں یا تو ہم جیسے ہیں جنہوں نے پاکستان بننے کی مخالفت بھی کی اور بریلی کو پاکستان بننے کی وجہ سے چھوڑا بھی ۔ لیکن پاکستان جانے کے بجائے لکھنؤ آگئے۔یا وہ ہیں جنہوں نے جانے کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔ اور ایسے بھی ہیں جن کے رشتہ دار پاکستان گئے اور جب ہندوستان سے وہ لوگ رشتہ داروں سے ملنے جاتے ہیں توہم سے تو جو بھی ملا اس نے ایک ہی بات کہی کہ پاکستان ہندوستان کے مقابلہ میں جہنم ہے۔ کسی کی نہ جان کی خیر ہے نہ مال کی۔ اور قانون تو وہاں شاید لوگ لے جانا ہی بھول گئے ۔
جواہر لال نہرو یورنیوسٹی کے بارے میں پہلے بھی سنا تھا کہ وہاں سیاست کم تعلیم زیادہ ہے اور دو روزسے ہر ٹی وی جو دکھا رہا ہے اس میں بھی بتایا گیا کہ لڑکوں میں سنجیدگی سے پڑھنے والے زیادہ ہیں اور انہیں اس ہنگامہ سے اس لئے تکلیف ہے کہ ان کی تعلیم کا نقصان ہو رہا ہے۔ بات جب لڑکوں لڑکیوں کی ہے، تو کانگرس کے لیڈر وں اور کمیونسٹ لیڈروں کا وہاں کیا کام ہے؟ راہل گاندھی جب گئے تو بی جے پی کے لڑکوں نے انہیں کالے جھنڈے بھی دکھائے اور واپس جاؤ کے نعرے بھی لگائے۔ اور انہوں نے اس کے بعد بھی انگریزی میں بولتے ہوئے وہی سب کہہ دیا جو وہ مرکزی حکومت، وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے لئے کہتے رہتے ہیں۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی میں ہے۔ دہلی حکومت کجریوال کے ہاتھ میں ہے اور پولیس راج ناتھ سنگھ کے ہاتھ میں۔ یونیئن کے لڑکوں کا کہنا یہ کہ پاکستان کے حق میں نعرے انہوں نے نہیں لگائے۔ یہ اس لئے سمجھ میں آتا ہے کہ وہ نہ مسلم یونیورسٹی ہے اور نہ جامعہ ملیہ اسلامیہ۔ مسلمان لڑکے ہندو یونیورسٹی میں بھی ہونگے لیکن پاکستان زندہ باد کے نعروں کے بارے میں تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ 
وزیر داخلہ اور نائب وزیر داخلہ کے سخت رویہ کو ہم جائز سمجھتے ہیں لیکن اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ اترپردیش کے ایک سینئر وزیر بھی اپنی معلومات کے بل پر ہی کہہ رہے ہونگے کہ پاکستان کے حق میں نعرے بی جے پی کے ایجنٹوں نے لگائے۔ اور یونیئن کے ذمہ دار بھی اسی بات پر اڑے ہیں کہ نعرے لگانے والے باہر کے تھے۔ اور وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کا کہنا ہے کہ پولیس کا غلط استعمال کیاجا رہاہے۔ ان سب باتوں میں فکر کی بات یہ ہے کہ لڑکوں کے تیور بھی تیکھے ہو رہے ہیں اور وہ گرفتار لڑکوں کی رہائی اور ایف آئی آر کی منسوخی کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ دھمکی بھی دے رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ ایک ایسی دانش گاہ جس کی شہرت یہ ہے کہ وہاں تعلیم کا معیار بہت بلند ہے اور وہاں کے اساتذہ پڑھانے میں دلچسپی لیتے ہیں اور طلبا پڑھنے میں اس کا وجود خطرہ میں پڑ جائیگا۔ 
بنیادی غلطی یہ ہوئی ہے کہ یونیورسٹی کو یہ سوچ کر جواہر لال کے نام سے منسوب کر دیا تھا کہ اب عمر بھر کانگرس کی ہی حکومت رہے گی۔ اور جس وزیر اعظم اورجس وزیر علیٰ نے کسی بھی ادارے کو اپنے کسی لیڈر کے نام سے منسوب کیا ہے اس نے غلطی کی ہے۔ کیوں کہ جو مخالف اسے ہراکر آئے گا وہ اسے کیوں برداشت کرے گا؟ جیسے جس نے اترپردیش میں مایاوتی صاحبہ کے بنائے ہوئے پارکوں کو اس وقت دیکھا ہو جب ان کی حکومت تھی اور پھر انہوں نے ہی انہیں اس وقت دیکھا ہو جب حکومت شری ملائم سنگھ کی تھی تو وہ بتا سکتے ہیں کہ کسی چیز کو بھی اپنے کسی بزرگ کے نام سے منسوب کرنا کتنی بڑی غلطی ہوتی ہے۔ بہر حال ایک تعلیمی ادارہ جب کشتی کا اکھاڑہ بن جائے تو اسے قوم کا المیہ کہا جائیگا۔ رہی بات افضل گرو کی تو وہ مسلمانوں کا نہ لیڈر تھا نہ مسلمانوں نے اس کا مقدمہ لڑا۔ اسے حکومت نے گرفتار کیا مقدمہ چلایا اور پھانسی دے دی۔ یہ ایک مسلمان کا معاملہ تھا جو اس کے ساتھ ختم ہو گیا۔ اب اس کی برسی منانا وہ بھی کمیونسٹوں کے ذریعہ صرف خود غرضی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا