English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہندوستان کی ترقی اور سیکولر اقدار کو بچانے کا واحد راستہ ۔۔۔ فرقہ واریت کا خاتمہ

share with us

بقائے باہمی اور مذہبی آہنگی کی ہماری تاریخ مذہب اور ثقافت کے نام سے جاری نفرت اور قتل غارتگری کی وجہ سے انتشار کا شکار ہوچکی ہے۔ فرقہ وارانہ عناصر اس قدر پھیل چکے ہیں کہ جس سے ہماری آزادی کے بنیادی حقوق، بولنے کی آزادی، کھانے کی آزادی اور یہاں تک کہ سوچنے کی آزادی بھی ختم ہونے لگی ہے۔ 
ذات پات اوراچھوت کے نام پر دلتوں اور آدی واسیوں کو زندہ جلائے جانے والے سلسلہ وار واقعات، مذہب اور ثقافت کی بنیاد پر مسلمانوں کا قتل، عدم رواداری کے نام پر ترقی پسند دانشوروں کا قتل ، آر ٹی آئی کارکنوں کا قتل ، گرجا گھروں پر حملے، مقدس گائے کے نام پر حملے اورتشدد، NGO'sپر جھوٹے مقدمات، لو جہاد ، مذہبی تبدیلی،آبادی میں اضافہ کا الزام ، اشتعال انگیز بیانات اور جھوٹے پرو پگینڈوں کی وجہ سے ہمارے ملک کے ہر شہری کے ذہنوں میں ایک غیر محفوظ ماحول پیدا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ دادری میں محمد اخلاق کا قتل، ہریانہ میں 2دلت بچوں کا زندہ جلایا جانا، اتر پردیش میں ایک عمر رسیدہ دلت کا زندہ جلایاجانا،نریندر دھابولکر ، گووند راؤ پنسارے اور ایم ایم کلبرگی کا قتل، دیماپور ( ناگا لینڈ) میں شہاب الدین کا قتل، حیدرآباد یونیورسٹی کےء روہت ویمولاسمیت دیگر طلباء کے ساتھ فسطائی طاقتوں کا ظلم اور ناانصافی وغیرہ ملک کے مختلف حصوں میں ہوئے متعدد فرقہ وارانہ فسادات اور فسطائی طاقتوں کی سرگرمیوں کی یہ مختصر فہرست ہے۔ 
تباہی کے اس صورتحال کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ دائیں بازو قوتوں کی جانب سے منتخب کی گئی حکومتیں ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے دفاع میں بیانات دیکر پوشیدہ طریقے سے ان کی حمایت اور حفاظت کررہی ہیں۔ بین الاقوامی برادری بھی ہمارے ملک میں موجودہ انتشار اور عدم تحفظ کے صورتحال پرگہرے صدمے کا اظہار کر رہی ہے، لیکن وزیر اعظم اس معاملہ میں قابل تشویش خاموشی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ موجودہ بھارتیہ وزیر اعظم ہر معاملہ میں کچھ نہ کچھ بولنے کے لیے تیار رہتے ہیں، لیکن فسطائی فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خلاف انہوں نے کھبی کچھ نہیں کہا۔ وزیر اعظم کے نام نہاد "اچھے دن آنے والے ہیں "صرف دائیں بازو ایجنڈے کے لیے اچھے دن ثابت ہورہے ہیں۔ لہذا خو د ساختہ دھرم رکھشک ہمارے جمہوری ملک کے لاء اینڈ آرڈر سے بلا خوف خطرملک میں تباہی مچارہے ہیں۔ 
آج ملک میں مذہب کے نام پر سیاست کی جارہی ہے۔ ہندو وں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر سیاسی پارٹیاں انتخابی میدان کو جنگ کا میدان بنارہی ہیں۔ لیکن یہ بات قابل ستائش ہے کہ ملک کے عوام ذات پات اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے سیاسی پارٹیوں کو سبق سکھانے کے لیے کمر بستہ ہوچکے ہیں۔ جس کی تازہ مثال بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج ہیں۔ حالیہ بہار انتخابات کا اگر ہم جائزہ لیں گے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ نہ صرف " مہا گھٹ بندھن"کامیاب رہی بلکہ بی جے پی کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔کل 243نشستوں میں "مہا گھٹ بندھن"جو JDU،BJD،INC،اتحاد پر مشتمل تھا،اس اتحاد نے 178نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور NDAجوBJP،RLSP،LJP،اور مانجھی کی پارٹی HAMپر مشتمل اتحاد اس اتحاد کو صرف 58نشستیں حاصل ہوئیں۔ بی جے پی کو بہار میں حکومت قائم کرنے کی بہت امید تھی بی جے پی کا منصوبہ تھا کہ وہ ایک ایک کرکے غیر بی جے پی ریاستوں میں اپنی حکومت قائم کرسکے۔ بہار میں ذات پات کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے کے لیے بی جے پی نے کئی چالیں چلیں۔اس نے دلتوں کی حمایت والی پارٹیاں جیسے HAM،LJP، RLSP،وغیرہ کی حمایت بھی حاصل کی، لیکن یہ پارٹیاں این ڈی اے اتحاد کو دلتوں کے ووٹ نہیں دلا سکی۔ وزیر اعظم نریندر مودی خود بہار میں کئی ریالی میں شریک رہے۔جس کے دوران انہوں نے بہار کو 1.25کروڑ روپئے کا پیکیج کا اعلان کیا۔ بی جے پی لیڈروں نے مقدس گائے اور پاکستان کا کارڈ کھیلا۔ لوک سبھا انتخابات کی طرح ان انتخابات میں بھی ووٹروں کو متاثر کرنے کے لیے میڈیا کا دریا دلی سے استعمال کیا گیا۔ تمام قسم کے چالوں،داؤ پیچ،ذات پات کی سیاست کرنے کے باوجود بہار اسمبلی انتخابات میں بی جے پی اور اس کے اتحادی پارٹیوں کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مودی لہر صر ف ایک مضحکہ خیز تصور ثابت ہوا۔ اس بات کا تذکرہ یہاں بے جا نہ ہوگا کہ حیران کن طور پرگجرات اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی بنیادیں کمزور ہورہی ہیں۔نومبر 2015کو گجرات پنچایت انتخابات میں بی جے پی نے اپنے 31ضلع پنچایت میں 21ضلع پنچایت کھودیا جبکہ کانگریس اکثرسیٹوں میں کامیاب رہی۔ مدھیہ پردیش جہاں بی جے پی کی حکومت قائم ہے وہاں بھی بی جے پی کانگریس سے ہار گئی۔ 8میونسپل کمیٹی انتخابات میں بی جے پی 5بلدیہ میں ناکام ہوگئی۔دسمبر کو ہوئے مدھیہ پردیش کے رتلام پارلیمانی حلقہ کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی اپنی ہی سیٹ ہار گئی۔ 
مرکز میں اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی اپنے آر ایس ایس نظریہ کے ساتھ ملک کے تمام ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت قائم کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔بہار انتخابی نتائج کے بعد یہ بات واضح طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ ملک کے عوام بی جے پی کے فرقہ وارانہ اور کارپوریٹ حمایت حکومت سے مایوس ہوچکے ہیں۔ بہار انتخابی نتائج نے یہ بات بھی ثابت کردیا ہے کہ اگر سیکولر پارٹیاں متحد ہو جائیں تو فرقہ وارانہ سیاسی پارٹیوں اور فرقہ وارانہ سیاست کا خاتمہ ممکن ہے۔ تاہم بہار انتخابی نتائج سے نتیجہ اخذ کرلینا درست نہیں ہے کہ JDU،RJDاور INCبہتر حکومت کررہے ہیں۔ بلکہ ایک مضبوط اور متبادل سیاسی پارٹی کی غیر موجودگی کی وجہ سے عوا م نے متحد ہوکر ان پارٹیوں کو ووٹ ڈالا ہے تاکہ فرقہ وارانہ بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھا جاسکے ۔ بی جے پی کی شکست کے بعد نریندر مودی کا سوپر مین کا لبادہ بھی تا ر تار ہوگیا ہے۔ بہار کے مہا گھٹ بندھن ماڈل کی کامیابی سے ملک بھر کے سیکولر پارٹیاں متاثر ہوئی ہیں اور یہ سیکولر پارٹیاں ملک بھر میں بی جے پی اتحاد مخالف تحریک تشکیل دینے کی کوشش کررہی ہیں۔ CONGRESS، JDU،JDS،RJD،NCPاور CPMجیسی سیکولر پارٹیاں جن کے نظریات سیکولرازم اور سوشیلزام ہیں وہ اپنے دور اقتدار میں اس پر کام کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ ہمارے سامنے ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے اقتدار اور طاقت حاصل کرنے کے لیے فرقہ وارانہ پارٹیوں سے تعلقات اور اتحاد قائم کرلیا تھا۔ وہ جو بولتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں۔ ان کے دور اقتدار میں دلتوں ، اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کو کئی مصائب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ آج ملک میں جو پسماندگی، غربت ، بھوک، خوف وغیرہ کا ماحول ہے وہ صرف ان پارٹیوں کی سرمایہ دارنواز اور جانبدارانہ حکمرانی کا نتیجہ ہے۔ لہذا ،ایس ڈی پی آئی جیسے متبادل سیکولر پارٹیوں کو مضبوط کرکے ہی عوام اقتدار میں اپنا حصہ حاصل کرسکتے ہیں۔ 
ووٹروں کو لبھانے کے لیے مندر کی سیاست 
رام جنم بھومی کو مدعا بنا کر بی جے پی نے ہندو ووٹوں کو تقسیم کرکے مرکز میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ رام جنم بھومی مسئلہ کو ہو ا دیکر بی جے پی نے 1989،1991،1996کے لوک سبھا انتخابات میں اپنی پارلیمانی سیٹوں کی تعداد میں اضافہ کیا تھا۔ جبکہ 1984کے انتخابات میں بی جے پی صرف 2پارلیمانی حلقے حاصل کرسکی تھی۔ خود ساختہ رام جنم بھومی مسئلہ کی وجہ سے ہندو برادری میں مذہبی جوش اور جذبہ پیدا ہوا اور ہندو برادری نے بابری مسجد کی جگہ میں رام مندر کی تعمیر کے لیے بی جے پی کی حمایت کی۔ رتھ یاترا، شیلا یاترا وغیرہ فطری طور پر عسکریت پسند اور مسلم مخالف تھے، بابری مسجد کا انہدام بلاشبہ ایک المناک واقعہ تھا اور جمہوری سیکولر ہندوستان کی تاریخ میں ایک سیاہ داغ تھا۔ اس خطرناک سازش اوروحشیانہ عمل کی وجہ سے ملک بھر میں ہندو ؤں اور مسلمانوں کے درمیان فسادات ہوئے جس میں 2ہزار سے زائد افراد مارے گئے اور دونوں فرقوں کے درمیان ایک واضح خلیج پیدا ہوگیا۔
اب وشوا ہندو پریشد (VHP)رام مندر کے اسی معاملے کو پھر دوبارہ ہوا دے رہی ہے۔ بابری مسجد احاطے میں پتھر جمع کررہی ہے اور پو جا پاٹ ہورہا ہے۔ رام مندر کی تعمیر کے لیے ایودھیا میں وی ایچ پی کے دفتر میں پتھروں کی نئی کھیپ پہنچ چکی ہے اور شیلا پوجن ( پتھروں کی پوجا)کیا گیا ہے۔ دریں اثناء مہنت نرتیا گوپال داس نے کہا کہ نریندر مودی حکومت نے اشارہ دے دیا ہے کہ "اب"مندر کی تعمیر ہوگی۔ اس کے علاوہ وی ایچ پی اور آر ایس ایس کے لیڈران رام مندر کے تعمیر کے موضوع پر بیانات جاری کرکے اس مسئلے کو عوام کے ذہنوں میں زندہ رکھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ 
بابری مسجد۔رام جنم بھومی معاملہ ابھی بھی سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے اور status quo کو برقرار رکھنے کا حکم نامہ موجودہے۔ تاہم 2017میں ہونے والے اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات کے تناظر میں وی ایچ پی ، نریندر مودی کی بی جے پی قیادت والی مرکزی حکومت کے حفاظتی دائرہ میں رہتے ہوئے اس طرح کی شرارتی کارروائیوں کے ذریعے ہندو برادری کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے میں لگی ہوئی ہے۔ ہمیں اس معاملے میں اپنا ردعمل کا اظہا ر کرنے میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے کیونکہ اس معاملہ میں فوری طور پر ناراضگی کا اظہار کرنے پر بی جے پی اور سنگھ گٹھ جوڑکی شہرت میں تیزی سے اضافہ ہوجائے گا۔ بی جے پی اور وی ایچ پی یہی چاہتی ہے کہ اس معاملہ میں مسلمانوں کو بھڑکا یا جائے تاکہ مسلمان غم و غصہ میں مبتلا ہوکر سڑکوں پر اتر آئیں اور یہ فرقہ وارانہ تنظیمیں چاہتی ہیں اسی بہانے ہندو مسلم فسادات کرواکر ووٹوں کو تقسیم کرسکیں۔بی جے پی یہی چاہتی ہے کہ کسی بھی قسم کے زہریلے سیاسی کھیل اور چالوں کے ذریعے کسی بھی طرح اتر پردیش اسمبلی میں اقتدار پر قبضہ جماسکے۔ 
اس بات کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ بی جے پی اور سنگھ پریوارگٹھ جوڑ نے اتر پردیش میں اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی کی 3سالہ حکمرانی کے دوران من گھڑت اور جھوٹے پروپگینڈوں کی بنیاد پر سینکڑوں فرقہ وارانہ فسادات کروایا ہے۔ سنگھ پریوار گٹھ بندھن ہندوؤ ں کے ذہنوں میں عدم تحفظ پیدا کرکے اور اپنے آپ کو سناتھن دھرم کا نجات دہندہ بتاکر 2017میں ہونے والے اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں فرقہ واریت پر مبنی خطرناک حکمت عملی کی بنیاد پر کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ملک کے امن پسند عوام کو چا ہئے کہ وہ فرقہ وارانہ عناصرکے جال میں نہ پھنسیں اور بابری مسجد ۔ رام مندر تنازعہ کی آڑ میں ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینے والے عناصر سے ہوشیار رہیں۔
کھلے عام بدعنوانیاں
دہلی وزیر اعلی اروند کجریوال اور بی جے پی رکن پارلیمان اور سابق کرکٹر کیرتی آزاد نے مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی پر DDCA(دہلی ڈسٹرکٹ کرکٹ اسوسی ایشن) اسکینڈل کے سلسلے میں سنگین الزام عائد کیا۔اس معاملہ میں بہت کچھ ڈرامہ کیا گیا۔وزیر اعلی اروند کجریوال کے دفتر پر بغیر کسی نوٹس اور حقیقی وجہ کے CBIچھاپے نے اپوزیشن پارٹیاں متعجب ہوگئیں۔ اروند کجریوال نے سی بی آئی پر الزام لگایا کہ وہ وزیراعظم نریندر مودی کے ذریعے بے وقوف بنائے جارہے ہیں۔ انہوں نے سی بی آئی وزیر اعظم پر یہ بھی الزام لگایا کہ یہ چھاپہ DDCAاسکینڈل سے تعلق رکھنے والی کچھ دستاویزات کا پتہ لگانے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ کسی مستند وجہ کے بغیر چھاپہ مارناجمہوری طور پر منتخب ایک حکومت کے اعلی دفتر کے وقار کا مذاق اڑانے کے مترادف تھا۔جس کی وجہ سے اروند کجریوال کو مجبورا وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک Psychopathکہنا پڑا۔
DDCAاسکینڈل میں ارون جیٹلی پر بی جے پی کے اپنی ہی رکن پارلیمان کی جانب سے ثبوت کے ساتھ الزام عائد کئے جانے اور دہلی حکومت کی جانب سے انکوائری کمیشن تقرری کرنے کے بعد بھی وزیر اعظم نریندر مودی نے ارون جیٹلی کو برخاست کرنے کی بجائے انہیں ایل کے اڈوانی کی طرح ایک صاف شخصیت قرار دیا ۔ بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ جانب دارانہ رویہ اور پالیسی جمہوریت کا مذاق ہے۔ داغدار ارون جیٹلی اب بھی اپنے عہدے پربے شرمی سے حاوی ہیں جبکہ بی جے پی رکن پارلیمان کیرتی آزادمضبوط اعتماد کے ساتھ ان پر اپنے الزامات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ بی جے پی نظریے کے حامی رام جیٹھ ملانی بھی کیرتی آزاد کی حمایت کررہے ہیں اور اس اسکینڈل پر ناراضگی کا اظہا ر کررہے ہیں۔ ایک اور واقعہ میں بی جے پی لیڈر سبرمنیم سوامی کی طر ف سے کانگریس صدر سونیا گاندھی اور کانگریس نائب صدر راہل گاندھی کے خلاف فوجداری شکایت کرنے پر فی الحال بند پڑے نیشنل ہیرالڈ روزنامہ اخبار کی ملکیت حاصل کرنے میں دھوکہ دہی کرنے اور فنڈز غبن کر نے کے الزام میں ان دونوں کو ایک مقامی عدالت نے طلب کیا تھا۔ سونیا اور راہل گاندھی،آل انڈیا کانگریس کمیٹی خازن موتی لال وہرا،جنرل سکریٹری آسکر فرنانڈیز، Young India Limited(YI)کے دیگر ڈائرکٹرسمن دوبے اورسام پٹرودا، نے سال2010 میں قائم کی گئی Associated Journals Ltd(AJL)جو نیشنل ہیرالڈکی پبلشر ہے اس کا قرضہ اپنے ذمہ لے لیا تھا۔ ان سبھی پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے دھوکہ دینے کی سازش کرتے ہوئے فنڈز غبن کرنے کی نیت سے Young Indiaکی طر ف سے صرف پچاس لاکھ روپئے دیکر 90.25کروڑ روپئے وصول کرنے کا حق حاصل کرلیا۔یہ رقم AJLکانگریس پارٹی کوبقایا تھا۔ 
سونیا گاندھی اور کانگریس لیڈران جذباتی ڈرامہ کررہے ہیں اور مرکزی حکومت پر الزام لگارہے ہیں کہ ان کے خلاف جو الزامات عائد کئے گئے ہیں وہ حقیقت میں سیاسی انتقام ہے۔ سونیا گاندھی کا یہ دعوی کہ "مجھے ڈر نہیں ہے"سے ملک کے عام آدمی کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ ان کے ساتھ سیاسی طاقت ہے تو وہ کیوں ڈریں گے ؟۔کانگریس پارٹی کابیان کہ سونیا گاندھی معصوم ہیں واقعی میں مضحکہ خیز ہے۔ اسی کانگریس کے حکومت کے دوران ہزاروں مسلم نوجوانوں،دلت اور آدی واسیوں کو بغیر کسی قصور کے انہیں UAPAجیسے کالے قوانین کے تحت جیلوں میں ٹھونس دیا گیا اور ملک بھر میں سینکڑوں فسادات ہوئے جس میں ہزاروں لوگوں کی زندگیاں تباہ ہوگئیں۔ اب کانگریس لیڈران کے قائدین کی قسمت پر آنسو بہارہے ہیں۔ ہر کوئی تصور کرسکتا ہے کہ کس طرح ان ہزاروں بے قصورنوجوانوں کے ماں باپ اوران کے خاندان والے جیل میں بند اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں کے لیے آنسو بہائے ہونگے۔
بال انصاف ایکٹ ( Juvenile Justice Act)
بال انصاف (بچوں کی دیکھ بھال اور انصاف)ایکٹ 2015ہندوستان کی پارلیمنٹ کا ایک مجوزہ ایکٹ ہے۔ یہ ایکٹ بال انصاف(بچوں کی دیکھ بھال اور انصاف) ایکٹ2000کی جگہ لایا گیا ہے۔ جس کے تحت16تا18سال کی عمر کے نا بالغ بچے جو گھناؤنے جرم میں ملوث ہوں ان کو بالغوں کے برابر سزادی جاسکتی ہے۔ اس ایکٹ کو 7مئی 2015کو لوک سبھا میں کئی اراکین کی طرف سے شدید احتجاج کے دوران منظور کیا گیا تھا۔ جس کے بعد اس ایکٹ کو 22دسمبر 2015کو راجیہ سبھا میں بھی منظور کیا گیا۔ایک اجتماعی عصمت دری معاملے میں موجودہ JJایکٹ کے تحت ایک ملزم کو رہا کرنے پر ملک بھر میں شور مچ گیا تھا۔ دسمبر 2012میں پیش آئے ایک المناک اجتماعی عصمت دری معاملے میں ان میں سے ایک مجرم کی عمر 18سال سے 6ماہ کم تھی۔ اس معاملے میں ایک نابالغ کو زیادہ سے زیادہ 3سال تک ایک نابالغ گھر ( Juvenile Home)میں قیدکی سزا دی جاسکتی ہے۔ نئے Juvenile Just Bill 2015 کے تحت عدلیہ 16تا18عمر کے سنگین جرائم میں ملوث مقدمات کے ملزموں کو تعزیرات ہند کے تحت سزا دے گا۔ان مقدمات اور معاملات کو بال انصاف بورڈ کے سامنے کیس در کیس کی بنیاد پر پیش کیا جائے گا۔جس کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ جس وقت جرم کا ارتکا ب ہوا تھا اس وقت بچے کی دماغی حالت جرم کرنے اور اس کے نتائج کو سمجھنے کی قابل تھی یا نہیں۔اس تشخیص کی بنیاد پر ان نابالغ مجرموں کو IPCیا JJایکٹ کے تحت سزا تجویرکیا جائے گا۔ اس ایکٹ کے ترمیم کرنے کے فیصلے کے خلاف کئی تنظیموں اور کارکنوں نے سخت مزاحمت کرتے ہوئے کہا کہ ایکٹ میں ترمیم کرنے کا فیصلہ جذباتی ، غیر معقول اور غیر سائنسی ہے۔ان سب کو اس جواز سے اتفاق نہیں تھا کہ ایک نابالغ کی عمر کو 18سے 16کرکے اسے جیل بھیج دیاجائے ۔ انہوں نے اس بات کی طرف زور دیا کہ اس عمر کے نوجوانوں کی نفسیات کو سمجھا جائے، ان کے ہارمون میں تبدیلی اور جذباتی تغیرات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے ، کیونکہ اس عمر کا ایک نوجوان نہ تو ایک نابالغ ہے اور نہ ہی بالغ ماناجاسکتا ہے۔ جو بھی JJایکٹ کی مخالفت کرتے ہیں ان کاماننا ہے کہ ایک نابالغ کو طبی علاج کی ضرورت ہے اس کے برعکس اگر اس کو قید میں رکھا جائے گا تو مجرموں کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات سے یہ خدشہ ہے کہ وہ ان مجرموں کو اپنا رول ماڈل کے طور پر اپنا لیں گے۔ اس بات کابھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ بچہ جس ماحول میں رہ رہا ہے۔ اسی ماحول سے بچے کی ذہنی حیثیت اور کردارکی تخلیق ہوتی ہے۔ غربت، استحصال،جرائم،لا قانونیت،فحاشی،تعلیم کی عدم فراہمی،خاندانی پس منظر،میڈیا کااثر،وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو بچے کے ذہن اور کردار پر اثر کرتے ہیں۔ رائے یہ ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے پالیسیوں اورمنصوبوں پر نظر ثانی کرے اور نابالغوں کے قانون میں سختی کرنے کی بجائے ان کے لیے ایسے قانون نافذ کرے جس سے ان بچوں کی حفاظت اور ذہنی ترقی ہوسکے۔ 
عالمی حدت ( گلوبل وارمنگ)
گلوبل وارمنگ ،گرین ہاؤزگیس کے اثرات سے زمین کے اوسط سطح کے درجہ حرارت میں اضافہ ہے۔ حیاتیاتی ایندھن جلانے یا جنگلات کی کٹائی سے کاربن ڈائی آکسائیڈکے اخرا ج سے گلوبل وارمنگ ہوتا ہے۔ یہ گرین ہاؤز اثر کی ایک قسم ہے۔ فضا میں بہت زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پھیلنے کی وجہ سے کرہ ارض گرم ہوکرگلوبل وارمنگ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ حیاتیاتی ایندھن جیسے کوئلہ،تیل، توانائی کے لیے قدرتی گیس، یا چراگاہوں اورباغات کے لیے جنگلات کو کاٹنے یا جلانے سے ہمارے ماحول میں کثیر مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جمع ہوجاتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی ہمارے لیے اس دور کا سب سے بڑا ماحولیاتی خطرہ ہے۔ جس سے ہماری صحت،معیشت اور قومی سلامتی خطرے میں ہے۔ شدید موسم، سطح سمندر میں اضافہ،ماحولیاتی نظام میں عدم توازن،سمندری سرگرمیوں میں اضافہ،درجہ حرارت اور بارش کے پیٹرن میں تبدیلی کی وجہ سے یا توہمارے برصغیر کو متاثر کررہے ہیں یا متاثر کرنے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ 
ہندوستان کے موسم پر گلو بل وارمنگ کے اثرات 
بعض ماہرین کے مطابق ہندوستان کے موسم میں گلو بل وارمنگ کے اثر سے موسمی آفات رونما ہورہے ہیں۔ ہندوستان ایک آفت زدہ علاقہ ہے، اعدادو شمار کے مطابق 35ریاستوں میں 27ریاستیں آفت زدہ ہیں۔ جس میں کھانے کے اشیاء اکثر آفت زدہ ہیں۔ گلوبل وارمنگ کے اس اثر سے موسمی آفات کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہواہے۔ سال 2007-2008کے ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں قابل ذکر آفات کی تعداد کے حوالے سے ہندوستان کا تیسرا مقام ہے۔ ہندوستان میں 1سال میں اس طرح کے 18واقعات پیش آئے ہیں۔ ان آفات کی وجہ سے 1103لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ برسات میں ممکنہ اضافہ،گلیشیر کا پگھلنا اور سمندروں کا پھیلنا ، ان سب کی وجہ سے ہندوستان کے موسم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے سیلاب، آندھی اور طوفان میں اضافہ ہورہا ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہندوستان میں غذائی سلامتی کی صورتحال پر اہم خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اندر ا گاندھی انسٹی ٹیوٹ آ ف ڈیولپمنٹ کے مطابق اگر گلوبل وارمنگ اسی رفتار سے بڑھتا رہا توموسمی آفات کے نتیجے میں ہندوستان کے مجموعی ملکی پیداوار(GDP)میں 9%فیصد اور اہم فصلوں کی پیداوار میں40%فیصد کمی آسکتی ہے۔ ہندوستان میں 2ڈگری سیلشیس درجہ حرارت میں اضافے سے ہندوستان کے ممبئی اور چنئی جیسے بڑے شہر ڈوب جانے اور 7لاکھ افرادبے گھر ہونے کے امکانات ہیں۔ 
ہندوستان میں سیلاب 
ہندوستان ، دنیا میں بنگلہ دیش کے بعد سب سے زیادہ سیلاب سے پریشان ملک ہے۔ سیلاب کی وجہ سے ہر سال عالمی سطح کی ہلاکتوں میں 1/5thہلاکتیں ہندوستان میں ہوتی ہیں اور سالانہ 30لاکھ افراد بے گھر ہوتے ہیں۔ ملک کے تقریبا 40ملین ہیکٹرسیلاب کے خطرے سے دوچار ہوتے ہیں اور8ملین ہیکٹر سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہر سال کسی نہ کسی جگہ غیر معمولی سیلاب آتے ہیں۔ ہندوستان میں سیلاب کے خطرے سے دوچار ہونے والے ریاستوں میں اتر پردیش،بہار، آسام،مغربی بنگال،گجرات، آندھرا پردیش،مدھیہ پردیش،مہاراشٹرا، پنجاب،اور جموں کشمیر کا نام سر فہرست ہے۔ ہندوستان کی موسمی تاریخ متعدد سیلابوں سے جڑی ہوئی ہے۔ان سیلابوں کی وجہ سے ملک کی معیشت کافی متاثر ہوئی ہے۔ 
ہندوستان میں دیگر موسمی آفات۔ خشک سالی
ہندوستان کے کل زرعی زمین کا تقریبا 68% حصہ فیصد خشک سالی کاشکار ہے۔ جس میں 33%فیصد حصہ شدید خشک سالی سے متاثر ہوتا ہے۔ ہندوستان کی چند ریاستوں میں سالانہ 750mmسے کم بارش ہوتی ہے۔ ان میں خاص طور پر مہاراشٹرا، گجرات،راجستھان،کرناٹک،آندھرا پردیش اور اڈیشہ شامل ہیں۔ خشک سالی کے لیے عالمی ریکارڈ کے طور پر سال 2000میں ہندوستان کے ریاست راجستھان کا نام درج ہوا تھا۔ محققین کے مطابق اگر گلوبل وارمنگ پر دھیان نہیں دیا گیا تو اس سے خشک سالی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ جس سے مدھیہ پردیش اور بہار کے میدانی علاقوں میں پانی کی دسیابی کم ہوجائے گی۔ اقوام متحدہ فریم ورک کنونشن (UNFCCC) کے لیے ہندوستان کی ابتدائی قومی مواصلات نے موسمی تبدیلی کے تعلق سے کہا ہے کہ لونی جو مغرب کی طرف بہنے والی کچھ (Kutcch)اور سوراشٹرا(Saurashtra)ندیاں ہیں ان میں شدید پانی کی کمی آسکتی ہے۔ Mahi ، Penar،Sabarmati اور Tapi دریائی طاس میں بھی مسلسل پانی کی کمی اور قلت پیدا ہوسکتی ہے۔ 
ہندوستانی معیشت کو سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی اہم معیشتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ تاہم ، ملک موسمی آفات سے گھرا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک کی معیشت تباہ وبرباد ہورہی ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک کے اکثریتی عوام میں غربت ، Malnutritionاوربیماریوں میں مبتلا ہیں۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک جامع تخفیف اور موافقت کی منصوبہ بندی کا مسودہ تیارکرکے لاگو کیا جانا چاہئے تاکہ گلوبل وارمنگ کے اثرات کی وجہ سے موسمی آفات سے بچا جاسکے۔ ہندوستان کو بین الاقوامی سطح کی اقدامات کے ذریعے گلوبل وارمنگ کو کنٹرول کرنے کے لیے کام کرنا چاہئے۔ آلودگی اور اخراج کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو چاہئے کہ وہ عوام کی فلاح وبہبودکی حفاظت کرے تاکہ ان اقدامات سے اقتصادی ترقی،غربت کا خاتمہ اور صنعتی پیداوار وغیرہ متاثر نہ ہوں۔ 
ہمارے ملک کی عوام فرقہ وارانہ بی جے پی حکومت میں جدوجہد کررہی ہے۔ ذات ، عقیدہ اور نظریات سے قطع نظرملک کے تمام لوگوں کی فلاح و بہبود ی کے لیے بہتر حکومت دینے کی بجائے بی جے پی حکومت صرف زعفرانی مفادات کے قیام اور کارپوریٹس کی فلاح و بہبود ی کے لیے کام کررہی ہے۔ بی جے پی حکومت خاص طور پر ویدک اور برہمن وادنظریات کو فروغ دینے میں فخر محسوس کررہی ہے۔ ایک طرف بی جے پی لیڈران ترقی کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف اقلیتوں اور دلتوں پر زہر اگلتے ہیں۔ بہار کے انتخابی نتائج سے سبق سیکھنے کے بعد بی جے پی ملک میں آنے والے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے نئی حکمت عملی کو اپنا سکتی ہے ظاہر بات ہے کہ آر ایس ایس کی طرف سے شروع کی گئی مسلم راشٹریہ منچ( MRM)کی کامیابی سے حوصلہ افزائی حاصل کرنے کے بعد اب آر ایس ایس عیسائیوں کے ساتھ دھوکہ کرنے اوران کااستحصال کرنے کے لیے عیسائی منچ(IM)تشکیل دینے کی تیاری کررہا ہے۔ ملک کے سیکولر رہنماؤں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام تک پہنچ کر ان میں بیداری پیدا کریں اور فرقہ پرست طاقتوں کے تقسیم کی سیاست اور ناپاک سازشوں کا پردہ فاش کریں۔ 
بدقسمتی کی بات ہے کہ کئی دہائی پرانی نام نہادپارٹیاں جیسے، CONGRESS،RJD،JDS،SP،BSP، JDU،وغیرہ ان فرقہ پرست طاقتوں اور فرقہ پرست پارٹیوں کے خلا ف لڑنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ان کی دبی دبی آواز اور کچھ معاملوں میں خاموشی اختیار کرنے کی وجہ سے فرقہ وارانہ پارٹیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ آج اس حد تک بڑھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔CPMسمیت مذکورہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے اپنے دور اقتدار میں عوام، کسانوں، مزدوروں، غریب اور دیہی علاقے کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔ بد عنوانی،اقربا پروری اور غنڈہ گردی ان پارٹیوں کی طاقت ہے۔ خاندانی سیاست، اونچی ذات کی بالادستی ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو کنٹرول کرتی ہیں جو کہ سراسر جمہوریت کا مذاق ہے۔ 
منفرد خصوصیات پر مبنی پارٹی ۔ہندو ستان کے مسائل کا حل 
ہمارے ملک کو مختلف ثقافت، مذہبی رواداری اور جمہوری روایات کی وجہ سے دنیا بھر میں احترام کیا جاتا ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پورے ملک میں خوف و ہراس کے کالے بادل چھا گئے ہیں۔ ملک میں افراتفری کا عالم ہے اور ملک ا نتشار اور عدم تحفظ کے لپیٹ میں ہے۔ جبکہ ملک کے شہری عدم رواداری کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں لیکن حکمران پارٹیاں بے حسی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ تعلیمی نظام میں سیکولر اقدار کو تباہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے۔ ذات پات کے نام پر دلتوں کا قتل، گائے کے نام پر مسلمانوں کا بہیمانہ قتل ، ثقافت کے نام پر اندھے عقائد پر تنقید کرنے والے ترقی پسند افراد کا قتل، تبدیلی مذہب کے نام پر عیسائیوں کا قتل، آر ٹی آئی کارکنوں کا قتل، سماجی اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کے خلاف جھوٹے مقدمات، بڑھتی ہوئی مہنگائی، کسانوں کی خودکشی، کسان مخالف اراضی تحویل بل، مزدور مخالف قوانین، بڑھتی ہوئی بدعنوانیاں، وغیرہ ملک میں عام بات ہوگئی ہے۔ حکمران پارٹیاں ان مسائل پر سنجیدہ نہیں ہیں اور صرف ذات کی بنیاد پر سیاست کرنے میں مصروف ہیں جو ہمارے ملک کی آئین اور جمہوریت کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔ زمینی حقائق یہی ہیں کہ بابری مسجد کے انہدام کے بعد مسلمانوں اور دلتوں نے طاقتور سیاسی پارٹیوں سے دوری اختیار کرلی اور علاقائی سیکولر سیاسی پارٹیاں جیسے ایس پی، بی ایس پی، آر جے ڈی، جے ڈی یو،این سی پی، جے ڈی ایس وغیرہ کو ووٹ دینا شروع کردیا۔ تاہم ان علاقائی سیکولر پارٹیوں نے غریب اور پسماندہ طبقات کو با اختیار بنانے کی بجائے اپنے مفاد کے خاطر عوام کا استحصال کر رہے ہیں۔
ایس ڈی پی آئی ملک کو ایک فلاحی ریاست میں بدلنے کے لیے مصروف عمل ہے اور پارٹی اس بات پر قوی یقین رکھتی ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود ہی میں ملک کی فلاح و بہبود ی مضمرہے۔اب وقت کا تقاضا ہے کہ تمام امن پسند ہندوستانی شہریوں کو چاہئے کہ وہ فرقہ وارانہ اورفسطائی طاقتوں کے چنگل سے ملک کو بچانے کے لیے متحد ہوجائیں۔ خوف اور لا پرواہی کی وجہ سے اگر ہم خاموش رہیں گے تو قصورواروں کے حوصلے مزید بلند ہوجائیں گے اور وہ ہمارے ملک کے سیکولر ڈھانچے کو تباہ برباد کردیں گے۔(یو این این)
( مضمون نگار ایس ڈی پی آئی کے قومی جنرل سکریٹری ہیں)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا