English   /   Kannada   /   Nawayathi

کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

share with us

افسوسناک خبر یہ ہے کہ دلّی کے تال کٹورہ اسٹیڈیم میں ہمارے دینی بھائیوں کا ایک اجلاس ہوا، جس کے شرکاء نے ہندوستان کے تحقیقاتی ایجنسیوں کی مشکلیں یہ کہہ کر آسان کردی کہ دہشت گردی سے وابستہ لوگ دیو بندی اور اہل حدیث مکتب فکر کے افراد ہیں۔ مذکورہ اجلاس میں اگر یہ قرار داد منظور کی جاتی کہ یہ اجلاس ہر قسم کی دہشت گردی کی شدید مذمت کر تا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے چاہے ان کا تعلق کسی مذہب ، مسلک اور مکتب فکر سے ہو تو بات زیادہ پُر اثر بھی ہوتی اور دلوں کا عناد بھی منظر عام پر نہ آتا۔ لیکن ایک مخصوص طبقہ فکر کا نام لیکر مشائخ علماء نے یہ ثابت کردیا کہ ان کے دلوں میں اپنے ہی ہم کلمہ بھائیوں کے لئے کتنی نفرت پائی جاتی ہے۔ ہر مذہب کے ماننے والوں میں نظریاتی اختلافات پائے جاتے ہیں، ہندوؤں میں کئی فرقہ پائے جاتے ہیں، عیسائیوں میں بھی فرقہ بندی ہے، سکھوں میں بھی نظریاتی اختلافات ہیں، جینیوں میں دو متضاد فرقہ موجود ہیں، لیکن ان تمام مذاہب کے آپسی اختلافات عوامی سطح پر کہیں نظر نہیں آتے۔ نہ ان میں مناظرے ہوتے ہیں نہ دشنام طرازی اور نہ ہی اتہام بازی۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی الگ ہے، ایک خدا، ایک رسولؐ، ایک قرآن کے حامل ایک ہی کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہونے والے فروعی مسائل میں ایسے الجھے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ ایک دوسرے کو کافر اور خارج از اسلام قرار دیتے ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے علاوہ کسی بشر کو چاہے اس کا مقام کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو، وہ مفتی اعظم ہو یا شیخ اعظم، امیر جماعت ہو یا امیر شریعت، سلطان الہند ہو یا خادم رسول، سجادہ نشین ہو کہ کسی خانقاہ کا درویش، مقلد ہو کہ غیر مقلد، حنفی ہو یاشافعی، شیعہ ہو کہ سُنّی، اسے قطعی یہ حق حاصل نہیں کے وہ کسی کلمہ گو فرد کو کافر یا خارج از اسلام قرار دیں۔پھر ہمیں یہ حق کس نے دیا کہ کسی کے کفر کا فتویٰ جاری کریں اگرچہ کہ وہ کلمہ طیبہ کا اقرار کررہاہو۔ اسوہ حسنہ سے تو یہ بات بھی ملتی ہے کہ اگر محاذ جنگ پر دشمن کی گردن تمہاری تلوار کی زد پر ہو اور وہ موت کے خوف سے ہی لاالہ اللہ محمدؐ رسول اللہ کا اقرار کر لیتا ہے تو اب بحیثیت مسلمان اس کا قتل تم پر جائز نہیں۔اب اس کا ایمان کتنا قابل قبول ہے وہ اللہ اور اس بندے کا معاملہ ہے تو پھر ہمیں کیا حق پہنچتا ہے کہ ہم کسی پر کفر و الحاد کا فقرہ کسیں۔کیا کسی ملّا اور مولوی نے کسی شرابی، جواری، زانی اور سود خور کو کبھی کافر قراردیا؟ لیکن ایک صوم و صلواۃ کے پابند غیر مسلکی یا غیر مقلد کو کافر اور ملحد قرار دینے میں اُسے کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی۔ کسی کے ایمان اور عقیدے کے بارے میں ہم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ واللہُ عالم با الصوب۔ مگر نہیں ہم تو بس یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ اصل مسلمان تو ہم ہی ہیں، عقیدہ تو صرف ہمارا صحیح ہے، راہ راست پر تو صرف ہم ہی ہیں، باقی جتنے ہیں سب گمراہ ہیں۔ یہ مسلکی عصبیت کی بد ترین مثال ہے، یہ کسی عالم دین کی سوچ نہیں ہوسکتی، خشیعت الٰہی سے کانپنے والے دل کی آواز نہیں ہو سکتی ، یہ صرف اس شخص کی سوچ ہوسکتی ہے جس پر شیطان غالب ہو، جس کی آنکھوں پر اللہ نے غفلت کے پردے ڈال رکھے ہوں، جو اپنے انجام سے بے پرواہ ، دنیاوی جاہ و عزت، علم و ادراک، مرتبہ و مقام پر اتنا مغرور ہو کہ کسی کو خاطر میں ہی نہ لائے۔ یا پھرنفسانی خواہشات کی تکمیل اور دنیا کا حصول اس پر اس قدر غالب ہو کہ آخرت کا خیال ہی محو ہوجائے۔ساری دنیا کو انسانیت کا درس دینے والے ، آدم اورحوّا کے حوالے سے ہر انسان کو اپنا بھائی بتانے والے ، اپنے ہم وطنوں کو برادران وطن کہنے والے ہم کیسے مسلمان ہیں کہ اپنے ہم کلمہ بھائیوں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں؟ ہماری اس تہمت اور الزام تراشی سے کیا یہ ممکن ہے کہ وطن عزیز سے تمام دیوبندیوں اور اہل حدیث کا خاتمہ ہو جائے، تمام وہابیوں اور سلفیوں کو دہشت گردی کے الزام میں پابند سلاسل کردیا جائے؟ایسا کچھ نہیں ہونے والا سوائے اس کے کہ دلوں میں نفرتیں اور بڑھ جائے۔ اور ایسا بھی نہیں کہ اس کی وجہہ سے فرقہ پرست آپ پر مہربان ہوجائیں گے۔ کیا ماضی میں کوئی ایک مثال ایسی پیش کی جاسکتی ہے کہ ظالموں نے تلوار اور نیزہ چلاتے وقت کسی سے یہ پوچھا ہو کہ بتا تو شیعہ ہے یا سنّی، وہابی ہے یا بریلوی، دیوبندی ہے یا اسمعٰیلی؟’زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا ۔ ۔ ۔ ۔اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں‘
یقین مانیے اغیار کی نظروں میں سب مسلمان برابر ہیں، وہ جب منصوبہ بندی کرتے ہیں تو کسی ایک فرقہ کے لئے نہیں بلکہ بحیثیت امّت مسلمہ تمام مسلمان ان کا ہدف ہوتے ہیں۔آخر یہ بات ہماری سمجھ میں کیوں نہیں آرہی ہے۔ علا ان اولیاء ولا خوفُُ علیہم ولا ہم یحزنون کا ورد کرنے والوں ہمارے بزرگان دین کو تو کوئی خوف تھا نہ حزن،انہوں نے ہمیشہ حق بات کہی ،حق کا ساتھ دیا، اور حق کی تبلیغ کی۔ انہوں نے کبھی اتہام بازی اور الزام تراشی کا قبیح کام نہیں کیا، انسانیت کا پیغام دیا، محبت اور بھائی چارگی کا پیغام دیا اسی لئے سلطان الہند اور سلطان الاولیاء کہلائے۔ ان ہی کا فیض ہے جس کے طفیل میں آج ہم مسلمان ہیں۔ہمیں کم سے کم اپنے اُن بزرگوں کی تعلیمات کا تو ادراک ہونا چاہیے۔اگر ہم واقعی اپنے بزرگان دین سے محبت کرتے ہوتے، ہم سچّے عاشق رسول ؐ ہوتے، رحمت الالعالمین کے شیدائی ہوتے، آقائے نامدار حضرت محمد ﷺ کے غلام ہوتے تو ساری انسانیت کو شرم سار کرنے والی وہ خبر کبھی شائع نہیں ہوتی کہ ایک ۸۵ سالہ ضعیف مسلمان کی لاش کو محض اس لئے قبر کھود کر باہر پھینک دیا گیا کہ وہ ہمارا ہم مسلک نہیں تھا۔ اللہ کی زمین میں اللہ کے کسی بندے کو دفن ہونے سے روکنے کا اختیار ہمیں کس نے دیا۔ اللہ کی زمین(قبرستان) ہماری ذاتی ملکیت کب سے بن گئی؟ اللہ کے گھر میں اللہ کے بندوں کو اللہ کی عبادت سے روکنے کا کسی کو کیا اختیار ہے؟ غیر مسلموں کے ساتھ تو ہم یہ کہہ کر رعایت کرتے ہیں کہ لکم دینکم ولی یدین لیکن غیر مسلک کے شخص کو ہم انسانی درجہ میں بھی قبول کرنے تیار نہیں ہیں۔پھر یہ دعویٰ کہ ہم دین انسانیت کے پیروکار ہیں۔ یہ کیسا تضاد ہے؟ کیسی دو رخی ہے؟ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ہم اپنے ہم وطنوں کو؟ کہا جارہا ہے کہ یہ آر ایس ایس اور حکومت کی سازش ہے، وہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں مسلکی اختلاف کی تاریخ صدیوں پرانی ہے جو محض ایک علمی اختلاف ہے، لیکن فی زمانہ علماء اور شیوخ نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنادیا اور عوام نے اسے ایمان اور عقیدے کا مسئلہ سمجھ لیا۔بالفرض محال اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ اغیار کی سازش ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ اس سازش کے آلہ کار بن رہے ہیں کیا اُن میں خوف خدا بالکل نہیں رہا؟ کیا انہیں مرنا نہیں ہے ؟ اور مرنے کے بعد آخرت میں جواب دینا نہیں ہے؟ ہم کوئی نا سمجھ ، نادان بچے تو نہیں کہ اِن سازشوں کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ ہمیں کس حکومت نے روکا ہے کہ ہم آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہیں؟ بنیان مرصوص بن کر رہنے میں سوائے ہماری انا اور ذاتی مفادات اور چند روزہ زندگی کی آسائش کے کون سی چیز مانع آرہی ہے؟ آخر ہمارے علماء دین کیوں خاموش ہیں؟ ہمارے دینی ادارے کیوں تماشائی بنے ہوئے ہیں؟ مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمیعت علمائے ہند، مسلم مجلس مشاورت، مسلم علماء کونسل، وغیر وغیرہ کس وقت کا انتظار کر رہے ہیں؟کہیں ایسا تو نہیں کہ عافیت پسندی اور لذت کوشی نے ہمیں واذا خاطبہم الجٰھلون قالو سلٰما کہہ کر مصلحت کا غلاف اوڑھنے پر مجبور کردیا؟ ہمیں اس حصار کو توڑنا ہوگا۔ بحیثیت قوم ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کے پیش نظر ملّی جماعتوں ، تنظیموں ، سجادہ نشینوں اور خانقاہوں کے سربراہوں کو بین الفرقہ اور بین المسالک مذاکرت کے ذریعہ کامن مینیمم پروگرام ( اقل ترین مشترکہ منصوبہ) بنانا ہوگا۔اللہ، رسولؐ، قرآن اور کلمہ طیبہ کی صورت میں مسلمانوں میں اتحاد کے لئے بہت ہی ٹھوس بنیادیں موجود ہیں جب کہ اختلافات کی تاویلیں نہایت کمزور ہیں۔ہمیں اپنے اپنے مسلک پر قائم رہتے ہوئے مشترکہ غیر متنازعہ عقائد پر یکجا ہونے کی سبیل ڈھونڈنی ہوگی۔ آپسی رنجشوں ، کدورتوں کو ختم کرکے اللہ کی رسی کو تھامنے کی کوئی صورت پیدا کرنا ہوگی۔ ورنہ خدا نخواستہ ساری دنیا میں مسلمان جیسے رسواء ہو رہے ہیں وہی ہمارا بھی مقدر نہ بن جائے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا