English   /   Kannada   /   Nawayathi

وکالت کا محترم پیشہ کیا سے کیا ہوگیا

share with us

بعد میں معلوم ہوا کہ شہر کے وکیل جیسے پاگل ہوگئے تھے جو گاڑی سامنے آئی اس میں آگ لگادی، جو موٹر سائیکل یا اسکوٹر دیکھا اسے یا توڑ دیا یا جلا دیا اور پولیس کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ تماشہ دیکھتی رہی اور یہ بھی کہ وہ لاٹھیاں گھما رہی تھی اور آنسو گیس کے گولے داغ رہی تھی۔
یہ سب اس لئے تھا کہ شہرت کی حد تک ایک وکیل کو کسی نے قتل کردیا تھا لیکن یہ خبر تو کہیں نہیں پڑھی نہ کسی سے سنی کہ اس کا قتل ہائی کورٹ یا دوسری کسی عدالت میں ہوا۔ یا پولیس کے ہاتھوں اس کا قتل ہوا؟ قتل کا ہونا تو بیشک برا ہے وہ چاہے کسی کا بھی ہو لیکن اس کا یہ ردّعمل کہ سارے وکیل پاگل ہوجائیں اور جس کی دیکھیں اس کی گاڑی پھونک دیں یا توڑ دیں۔ ہائی کورٹ تو وہ جگہ ہے جہاں اونچی آواز میں بات کرنے کی بھی کوئی ہمت نہیں کرتا اور ہم جب کبھی گئے ہیں تو یہی دیکھا کہ ہر طرف قانون کی حکمرانی اور احترام ہے اور ہونا بھی چاہئے کہ یہی وہ عدالت ہے جہاں موت کی سزا کی تصدیق کی جاتی ہے یا موت کی سزا کو قید میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ اس عدالت کو بھی اگر کھاپ پنچایت بنا دیا جائے تو پھر وہ کون سا ادارہ ہوگا جس کے احترام میں سب کی گردنیں جھک جائیں؟
ہم نے ہوش سنبھالا تو بریلی کے ایک بڑے محلہ شاہ آباد کے ایک ضمنی بڑے احاطہ گھیر مولوی عبدالقیوم میں تھے اس گھیر میں شاید 25 کے قریب مکان تھے جن میں ہمارے خاندان کے علاوہ سب مولوی عبدالقیوم مرحوم کی نسل کے افراد تھے اور سب بہت زیادہ تعلیم یافتہ اور بڑے عہدوں پر یا کچھ کم تعلیم یافتہ چھوٹے عہدہ پر مگر سب تعلیم یافتہ۔ ان میں ممتاز وکیل بھی تھے جن کا سب احترام کرتے تھے۔ اس وقت سیاست میں دو نام سب سے اوپر تھے۔ گاندھی جی اور مسٹر جناح۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ دونوں وکیل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی زیادہ تر سیاست میں سرگرم جو بڑی شخصیتیں تھیں ان میں یا وکیل تھے یا ڈاکٹر۔
ہم جس گھیر کا ذکر کررہے ہیں اس خاندان میں بھی دو بہت ممتاز وکیل تھے اور دونوں سگے بھائی تھے لیکن معلوم نہیں کیوں دونوں کے تعلقات خراب تھے انتہا یہ تھی کہ ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی نہیں تھا۔ گھیر میں سب بچوں پر یہ پابندی تھی کہ باہر کے لڑکوں کے ساتھ نہ کھیلیں اور نہ کسی کو گھیر میں بلائیں۔ ایک مرتبہ چند بڑوں نے یہ فیصلہ کیا کہ عید میں بچوں کی خوشی کے لئے تفریحی پروگرام کرائے جائیں۔ بات سب کو اچھی لگی تو اس کے لئے چندہ کیا جانے کا فیصلہ ہوا۔ بڑے وکیل مولوی سمیع الدین صاحب کے پاس چندہ کے لئے گئے تو انہوں نے پانچ روپئے دیئے۔ چھوٹے بھائی مولوی معین الدین وکیل کے پاس گئے تو انہوں نے معلوم کیا کہ بھائی صاحب نے کیا دیا ہے؟ بتایا گیا کہ پانچ روپئے۔ انہوں نے جیب سے پانچ روپئے نکالے اور کہا کہ میرے نام کے آگے چار روپئے 15 آنے لکھئے گا۔ دونوں بڑے وکیل تھے تعلقات انتہائی خراب لیکن بڑے چھوٹے کے درمیان احترام ایسا تھا پھر جب 1946 ء میں ہمارا پورا گھر لکھنؤ آگیا تو یہاں بھی مسلم لیگ کے بڑے لیڈر بھی وکیل تھے کانگریس کے بڑے لیڈر بھی وکیل اور جمعیۃ علماء کے بھی سکریٹری وکیل۔
اور جب ہم نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو ہر مسئلہ میں وکیل ہی نظر آئے انتہا یہ ہے کہ تبلیغی جماعت میں بھی آگے آگے وکیل اور ڈاکٹر ہی تھے۔ 10 فروری کو جو کچھ ہوا یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھی وکیلوں اور پولیس کے درمیان ایسے لاٹھیاں چلیں اور پتھراؤ ہوا جیسے کبھی لکھنؤ یونیورسٹی کے لڑکوں اور پولیس میں ہوا کرتا تھا اور میدان جنگ منکی برج ہوا کرتا تھا اور ہر سڑک پر نعرے لگا کرتے تھے کہ یوپی میں تین چور منشی گپتا نول کشور یا گلی گلی میں شور ہے۔۔۔۔۔۔ چور ہے۔ وغیرہ لیکن وکیل تو ہر کسی کے لئے محترم ہوا کرتے تھے۔ انتہا یہ ہے کہ ہمارے والد ماجد ہر معاملہ میں اگر کسی سے مشورہ کرتے تھے تو وہ وکیل ہوتے تھے اور جب ہم نے ندائے ملت نکالنے کا فیصلہ کیا اور اس کا ٹرسٹ بنانے کا فیصلہ کیا تو کسی بھی وکیل کا صحافت سے تعلق نہ ہونے کے باوجود تین وکیلوں کو ٹرسٹ کا ممبر بنایا۔ آج جتنے چھوٹے وکیل ہیں انہوں نے بھی ہماری طرح دیکھا ہوگا کہ بہت بڑے اور نیک نام وکیلوں کا جج بھی کسی حد تک احترام کرتے ہیں غرض کہ وکیلوں کے لئے یہ شرم کی بات کہ ان کے بارے میں ایسی خبر چھپے کہ عدالت کے احاطہ میں ریوالور لہراتے اور فائرنگ کرنے والے وکیل کے دونوں لائسنس کینسل کردیئے گئے اور انہیں کسی بھی عدالت میں وکالت کرنے پر پابندی لگادی گئی۔ یا لکھنؤ میں ہنگامہ کرنے والے 29 وکیلوں کی شناخت کرلی گئی ہے اور عدالت نے عوام سے اپیل کی ہے کہ جس کسی نے وکیلوں کو غنڈہ گردی کرتے ہوئے فوٹو کھینچے ہوں وہ عدالت میں پیش کردے۔
کون وکیل ہے جس نے خود قتل کا مقدمہ نہ لڑا ہو یا وکیلوں کو لڑتے نہ دیکھا ہو؟ پھر یہ سب کس قانون کے تحت ہوا کہ اگر کوئی وکیل کو قتل کردے تو اسی دن اس کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے ورنہ سارے وکیل وہ بھی لکھنؤ کے ہی نہیں بارہ بنکی اور گونڈہ کے وکیل بھی وہ کریں گے جن کے خلاف مقدمہ لڑنا ان کے پیشہ کی پہچان ہے۔ بات صرف 29 یا سو دوسو کی نہیں ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ وہ کون سا قتل کا معاملہ ہے جسے حکومت ایک دن میں حل کردیتی ہے؟ اور جب پولیس کو کئی کئی دن بھی لگتے ہیں، ہفتے بھی لگتے ہیں اور مہینے بھی لگ جاتے ہیں تو وکیل میں کون سے سرخاب کے پر ہیں کہ اس کا اگر قتل ہوجائے تو اس دن قاتل گرفتار ہوجائے ورنہ ہر وکیل کو حق ہوگا کہ شہر کو جام کردے۔
یہ بات اطمینان کی ہے کہ ہائی کورٹ انتہائی سخت کارروائی کرنے کے حق میں ہے ججوں کی فل بنچ نے وزارت داخلہ سے بھی جواب طلب کیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ پولیس نے بھی اپنا فرض ادا کرنے میں کوتاہی برتی۔ جیسے وہ بھی وکیلوں سے ڈر رہی تھی کیونکہ جیسی غنڈہ گردی یہ محترم طبقہ کررہا تھا اور جس کی وجہ سے پھول کی طرح معصوم بچوں کا رونا پیٹنا مچا تھا صرف وہی ان کے ہاتھ پاؤں توڑنے کے لئے کافی تھا نہ کہ اسی جام میں ایمبولینس پھنسیں اور خبروں کی حد تک دو مریضوں نے راستہ میں ہی دم توڑ دیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ذراسے توازن کے بگڑنے کے بعد عدالتوں کی ہمدردی وکیلوں کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ بہرحال اب یہ ضروری ہے کہ ان کے جسم پر ہی صرف کالا کوٹ نہ رہے بلکہ ان کا منھ بھی کالا کردیا جائے۔ اس لئے کہ وہ چار دن ہونے کے بعد بھی شرمندہ ہونے کے بجائے جارحانہ تیور اپنائے ہوئے ہیں جو اس پیشہ کی توہین ہے۔ ہم نے برسوں ہر مسلمان وکیل کو مؤکل کی زبان سے مولوی صاحب اور ہر ہندو وکیل کو بابوجی کہتے ہوئے اپنے کانوں سے سنا ہے اور خود ہمارے اوپر وکیلوں کے کتنے احسان ہیں یہ ہمارا دل ہی جانتا ہے۔ لیکن وہ محترم رہے اور محترم ہی گئے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا