English   /   Kannada   /   Nawayathi

جے این میں ہنگامہ ’کس بات کی پردہ داری ہے‘

share with us

پارلیمنٹ پر حملے کے لیے قصور وار قرار دیے جانے والے کشمیری شہری افضل گرو کو نو فروری 2013 کو دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی۔یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس نے اس احتجاجی مارچ کو منظوری نہیں دی تھی۔ لیکن مظاہرہ کرنے والے طلبا کا دعوی ہے کہ انھوں نے احتجاجی مارچ نکالا اور افضل گرو کی پھانسی کو عدالتی تحویل میں قتل قرار دیا۔بہرحال افضل گرو کی برسی پر مظاہرہ اوراحتجاج سے قوم ووطن کا کیا بھلا ہونے والاہے ،جب اس کی تہوں میں جائیں تو یہ بات بخوبی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ جس ملک میں آج بھی 42فیصدشہریوں کو صرف ایک وقت کی روٹی نصیب ہوتی ہے ،جس ملک کے 47فیصد نوجوان بے روزگاری کے عذاب میں مبتلاء ہیں،جس ملک کی 99فیصد معیشت پر صرف 60لوگ قابض ہوں ،جہاں آج بھی صحت کے شعبے میں بجٹ کا محض 4فیصد ہی مختص کیا جاتاہے۔وہاں اس قسم کے انتہائی حساس مسائل سے عوام کی توجہات ہٹاکر غریبوں کے خلاف خطرنا ک منصوبے تیار کرنا اسی سچائی کی جانب اشارہ کرتاہے کہ عشرت جہاں سمیت ہیڈلی کی ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ گواہی دلانے کا سارامعا ملہ کسی غریب مخالف سرمایہ دار طاقت کے ناپاک ذہن کی پیداوار ہے۔اس وقت ملک میں مہنگائی کااژدہا بازاروں میں سرعام دندنا رہا ہے ،پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے چند نوالے بھی عام ہندوستا نیوں کے منہ سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔اس صورت حال میں اگر ایسے مسائل کواٹھا یاجاتاہے ،جس سے حکومت کی غریب مخا لف پالیسیوں سے توجہ ہٹنے کاا مکا ن پیدا ہوتاہے تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ اس سارے معاملے کے پیچھے بھگوا بریگیڈ کی عوام دشمن ذہنیت کام کررہی ہے۔ یہاں مجھے سماجوادی پارٹی کے قدآورلیڈر اعظم خان کے دعوے میں بڑی حد تک صداقت نظرآتی ہے ۔انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں ملک مخالف نعرے بازی کرانے میں خود بی جے پی شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ جے این یو کیمپس میں افضل گرو اور پاکستان کے حق میں نعرے لگانے والے بی جے پی کے ایجنٹ ہیں۔ ان ایجنٹوں نے پہلے کیمپس میں نعرے بازی کی اور اب الزام دوسروں پر لگا رہے ہیں۔محمد علی جوہر یونیورسٹی میں ہفتہ کو صحافیوں سے بات چیت کے دوران اعظم خاں نے کہا کہ جے این یو ایک سیکولر تعلیمی ادارہ ہے،جس کی تعلیمی معتبریت ساری دنیا میں عزت واحترام کی نگاہوں سے دیکھی جاتی ہے۔اعظم خان کا کہنا ہے کہ بی جے پی جو بات کہہ رہی ہے اس کی جانچ ہونی چاہئے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی زبان جے این یومیں نہیں چلے گی۔ بی جے پی جے این یو کو بند کروانا چاہتی ہے۔برسر اقتدار بی جے پی پر اسی قسم کاالزام بایاں محاذ کی جماعتیں بھی لگا چکی ہیں۔دراصل اس وقت ملک کی وہ تمام دانش گاہیں بی جے پی کی زد پر ہیں، جنہوں نے اپنے احاطے میں آر ایس ایس کے نظریات کو نافذ کرنے سے انکار کردیاہے۔اعظم خان نے کہا ہے کہ جیسا اے ایم یو کے ساتھ ہوا، جامعہ کے ساتھ ہوا، وہی جے این یو کے ساتھ ہونے جا رہا ہے۔ بی جے پی کا منصوبہ ایجوکیشن پیٹرن کو تبدیل کرنے کا ہے۔ بی جے پی ملک میں تعلیم کا بھگواکرن کرنا چاہتی ہے۔اگر ہم اعظم خان کے اس دعوی اور ملک میں بجٹ کیلئے ہونے والی تیاریوں پرغور کریں تو مطلب صاف ہوجاتا ہے کہ ہمارے تعلیمی مراکز میں ہونے والے لایعنی ہنگاموں کا مقصد کیا ہوسکتاہے اور اس کے پس پردہ کون سے عوامل کارفرماں ہوسکتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ 9 فروری کو جے این یو کے کچھ طالب علموں نے افضل گرو کی پھانسی کی برسی پر احتجاجی مارچ نکالا تھا۔اس کے بعد سے سوشل میڈیا پر جے این یو کے خلاف تبصروں کا سیلاب سا امڈ پڑا ہے۔جے این یو کے حالیہ تنازع پرپر تقریبًا ایک لاکھ ٹویٹس آ چکی ہیں۔ایک محترمہ نے ٹوئٹر پر لکھاہے یہ المیہ ہے کہ دہلی کا یہ تعلیمی ادارہ جے این یو کچھ سیاسی جماعتوں کی شہہ پر ملک دشمن اور نکسل حامیوں کا اڈہ بن چکا ہے،لیکن پراتیک علی فیس بک پر لکھتے ہیں ’مجھے فخر ہے کہ میں جے این یو کا حصہ رہا جب بھی میں نیوز چینلز پر جھوٹی قوم پرستی کا دفاع کرتے ہوئے گندی زبان میں چیختے چلّاتے صحافیوں اور ماہرین کو دیکھتا ہوں تو مجھے جے این یو پر فخر ہوتا ہے۔ افضل گرو جیسوں کو پھانسی پر لٹکانا خالصتًا عدالتی قتل ہے اور کچھ نہیں۔ خود عدالت نے تسلیم کیا تھا کہ افضل گرو کے خلاف ظاہری ثبوت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ گرو جیسوں کو ان کے جرائم کے لیے نہیں بلکہ سیاستدانوں کی چمڑی بچانے کے لیے پھانسی پر لٹکایا گیا۔دریں اثنا دہلی پولیس نے جے این یو تنازعہ میں 7 اور طالب علموں کو حراست میں لے لیا ہے۔ انہیں پارلیمنٹ اسٹریٹ تھانہ لایا گیا ہے۔ یہ طلبہ کنہیا کمار کی گرفتاری کی مخالفت کرتے ہوئے اندرا گاندھی بین الاقوامی سینٹر فار آرٹس پر مظاہرہ کر رہے تھے۔ادھر، دہلی پولیس نے آج جے این یو کے وائس چانسلر کو خط لکھا ہے۔ خط میں دہلی پولیس نے وائس چانسلر کو ملک مخالف نعرے لگانے کے الزام میں 6 طالب علموں کی مکمل معلومات مانگی ہے۔ ساتھ ہی 5 طالب علموں کو پوچھ گچھ کے لئے پیش کرنے کو کہا ہے۔طلبہ یونین صدر کنہیا کمار کو پولیس پہلے ہی گرفتار کر چکی ہے۔ملک مخالف نعرے لگانے کے الزام میں پولیس نے 5 طالب علموں کو سمن بھی بھیجا ہے۔ سمن جاری کئے گئے طالب علموں میں عمر خالد، آشوتوش کمار، ارنبن بھٹاچاریہ، رام ناگا اور اننت پرکاش کے نام شامل ہیں۔بتا دیں کہ جب سے مقدمہ درج ہوا ہے اس کے بعد سے ہی جن طالب علموں کی پولیس نے نشاندہی کی تھی، وہ طالب علم فرار ہیں۔ لہذا دہلی پولیس نے جے این یو کے وائس چانسلر کو خط لکھا ہے۔ دہلی پولیس نے خط میں کنہیا سمیت 6 طالب علموں کا نام لکھا ہے اور ان کی مکمل معلومات، نام، فون نمبر، مستقل پتہ پولیس کو مہیا کرانے کو کہا ہے۔
یہ بات بھی بڑی عجیب ہے کہ ہروقت حب الوطنی کی دہائی دینے والے اورسنگھ کوہی وطن عزیز کی سچی محب وطن تنظیم کا سرٹیفکیٹ دینے والے وزیر اعظم اس معاملے میں بالکل خاموش ہیں ،جبکہ سارا بھگوابریگیڈ جے این یو کیمپس کوتین دنوں سے سیاسی اکھاڑہ بنائے ہوئے ہے۔کل بی جے پی کی سینہ زوری پر راہل گاندھی نے بجا کہا ہے کہ آج ہندوستان بھرمیں بی جے پی اور سنگھ کیخلاف بولنے والوں اوران کے نظریات سے اختلاف رکھنے والوں کووطن کا غدار کہا جا رہا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ طلبا کی زبان پر تالے ڈالنے والے خود غداروطن ہیں۔ جے این یو طلبہ یونین کے صدر کنہیا کمار کی گرفتاری کی مخالفت میں بائیں بازو کے لیڈر سیتارام یچوری، ڈی راجہ اور جے ڈی یو لیڈر کے سی تیاگی نے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کی ہے۔
ملاقات کے بعد سی پی ایم کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے دہلی پولیس اور مرکزی حکومت پر جم کر نشانہ سادھا۔ یچوری نے کہاہے کہ پولیس کی کارروائی ایمرجنسی سے بھی بدتر تھی۔ یہی بات دوروزقبل جے این یو ٹیچرس یونین کے لیڈربھی کہ چکے ہیں،انہوں نے کہاکہ جے این یو میں ایک بار پھرایمرجینسی جیسے حالات پیداکردیے گئے ہیں۔یچوری نے الزام لگایاہے کہ ہر جگہ آر ایس ایس کے نظریات کو لاگو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور معروف اداروں پر حملے کئے جا رہے ہیں۔ یچوری نے جے این یو طلبہ یونین کے صدر کنہیا کمار کی جلد رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔یچوری نے کہا کہ یہ کہتے ہیں کہ جے این یو کے طالب علم غدار ہیں ، اسے آج کوئی قبول کرنے والا نہیں ہے، جتنے آئی ایس آفیسر ہیں سب جے این یو سے ہیں، سب پر سوال کھڑا کر رہے ہیں۔ پولیس اور حکومت نے 20 افراد کی فہرست جاری کی جن پر بغاوت کا الزام لگا ہے، یہ 20 افراد طلبہ یونین کے عہدیدار ہیں،حالاں کہ سچائی یہ ہے کہ کنہیا کمار کی مکمل تقریر فیس بک پر اپلوڈ کردی گئی ہے ،جس میں کنہیا نے آر ایس ایس اوربھگواٹولہ کی سازشی ذہنیت پر حملے ضرور کئے ہیں۔مگراس میں ایسا کوئی بھی لفظ سنائی نہیں دیتا جس سے آئین ہند کی روشنی میں وطن سے بغاوت کے زمرے میں آتا ہو۔مگرجب ملک کی موجودہ معاشی پالیسی ،مہنگائی ،بے روزگاری اور تعلیم کے بھگواکرن جیسے عوامل کی جانب دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ان سارے ہنگاموں کامقصد عوامی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔جس میں این ڈی اے سرکار کٹہرے میں کھڑی نظرآتی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا