English   /   Kannada   /   Nawayathi

غالب کی قیام گاہ آج بھی برباد و بدحال ہے

share with us

تعلیمی تنظیم ’’فرینڈز فار ایجوکیشن‘‘ کی کاوشوں کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ سرکار نے یہاں پر غالب کی حویلی کو محفوظ ہی نہیں کیا بلکہ ایک یادگار بھی بنائی۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ یہ یادگار کچھ ایسی ثابت ہوئی کہ شاید اسے غالب کا کوئی بھی دیوانا یاد رکھنا نہ چاہے۔ اس تنظیم نے خوابوں خیال میں یہ نہ سوچا تھا کہ حکومت اور اس کی ایجنسیاں وعلاقہ کے سیاست داں اس میموریل کے ساتھ ایسی نا انصافی برتیں گے۔میموریل بنانے کا مقصد یہ نہیں ہوتاکہ چند اینٹوں کی دیواریں کھڑی کر دی جائیں اور اس جگہ کی ویرانی کو مزید ترتشویش ناک بنا دیا جائے۔ ہر میموریل کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ تنظیم نے اس میموریل کے سلسلہ میں دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر جناب وجے کپور صاحب کو یہ تجاویز پیش کی تھیں کہ اس کے اندر اُردو کی خدمات کر رہی تنظیموں کے ذریعہ کچھ کاؤنٹر ایسے لگائے جائیں جن میں غالب کی زندگی سے متعلق کتب و تصاویر وغیرہ دستیاب ہوں۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی تلقین کی گئی تھی کہ یہاں ایک چھوٹی سی ہی صحیح، ایک غالب لائبریری یا ریڈنگ روم ضرور ہونا چاہئے تھا۔
مگر ہوا یہ کہ یہ معاملہ سیاست دانوں کے ہاتھوں چلا گیا اور انہوں نے جوق در جوق اس میموریل کی بنیاد ۱۵؍فروری ۲۰۰۰ ؁ء کو رکھوا دی۔ گلی قاسم جان میں اس دن ایک بڑے اجتماع کے سامنے غالب کے ان نئے چاہنے والوں نے بہت بڑا جلسہ کیا اور بڑے بڑے واعدے کئے کہ یہاں غالب اور اُردو کی خدمت کے لئے بہت سے کام کئے جائیں گے۔ جس تنظیم نے غالب کی یادگار کو محفوظ کئے جانے کا مقدمہ دائر کیا تھا، اس کو پوچھا بھی نہیں اور جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا۔ یعنی بنیاد ڈالنے کے بعد مہینوں ایک اینٹ بھی نہیں سرکی۔ پھر حکومتِ دہلی کو یاد آیا کہ۲۷؍دسمبر ۲۰۰۰ ؁ء کو تو غالب کی ۲۰۳ویں سالگرہ ہے اور کچھ کرنا چاہئے۔ لہٰذا اکتوبر نومبر میں دن اور رات کام ہوا اور قوم کو غالب کی ’’امانت‘‘ سونپ دی گئی۔جس طرح کی ناانصافی اور بے نیازی غالب جیسے شاعر کے ساتھ برتی گئی ہے، شاید آج تک کسی کے ساتھ نہیں برتی گئی۔ اس موقع پر بھی سیاسی رہنماؤں نے اپنی دکانیں چمکائیں۔ دہلی کی وزیر اعلیٰ شیلا دیکشت صاحبہ نے یہ بات بلند بانگ کہی کہ غالب کی حویلی کو محفوظ کرانے میں کانگریس پارٹی و اس کے لیڈران کا کلیدی رول رہا ہے۔
اسی قسم کی مضحکہ خیز باتیں دہلی کے ایل۔جی۔ سے بھی سننے کو ملیں۔راقم کو اس بات کا اُس وقت بھی خوب اندازہ تھا کہ اس قسم کی اول جلول اور لاابالی باتوں کا مقصد صرف اپنی اپنی سیاسی گاڑیوں میں پہئے لگانا تھا۔محکمہ آثار قدیمہ، دہلی کی بے توجہی اور غالب میموریل کمیٹی کے ممبران کی بے حسی کی وجہ سے آج شاہجہاں آبادی دہلی کے تاریخی بازار بلّی ماران کی گلی قاسم جان میں واقع غالب میموریل آج بدحالی کا شکار ہے۔ اس حویلی کواس وجہ سے میموریل کی شکل دی گئی تھی کہ شاید اس کے بعد اس کا تعلّق مرزا غالب کے ذریع کئے گئے عظیم کارناموں سے جڑا رہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ یہاں پر آج کل جو گارڈ تعینات ہیں انہوں نے اس میموریل کو اپنی قماش گاہ بنا رکھا ہے۔ یہاں کے گارڈ علاقے سے باہر کے کچھ لوگوں کے ساتھ اس قسم کی حرکتیں کر رہے ہیں کہ جس سے تمام علاقے کے باشندگان کو بڑی تشویش ہے۔
علاقہ کے لوگوں نے بتایا کہ یہ گارڈغالب میموریل کے اندر بیٹھ کر شراب نوشی کرتے ہیں و دیگر نشہ آور اشیاء کا کھلّم کھلّا استعمال کرتے ہیں۔ فرینڈس فار ایجوکیشن کی جانب سے ایک وفد جب حال ہی میں اس غالب میموریل حویلی کا معائینہ کرنے گیاتو پتہ چلا کہ پانچ بجے کے بعد جب کہ میموریل بند ہو جانا چاہئے، اس کے اندر حویلی پر تعینات گارڈ اور اس کے ساتھیوں کا دن شروع ہوتا ہے۔ مگر باوجود اس کے کہ دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کو ان حالات کی اطلاع کر دی گئی ہے، کوئی اقدام ان کی جانب سے نہیں اٹھایا گیا۔
جب گارڈ سے یہ دریافت کیا گیاکہ اُس نے اپنے نام کی تختی کیوں نہیں لگا رکھی اور یہ کہ پانچ بجے کے بعد یہ میموریل اندر سے کیوں کھلا ہے، اس کا جواب اس نے بدکلامی کے ساتھ دیا۔ علاقہ کے لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ دن میں جو لوگ اس میموریل کو دیکھنے آتے ہیں اُن کے ساتھ بھی یہاں کے گارڈ نہ صرف بدکلامی کرتے ہیں ۔بہتر یہ ہو گا کہ اس میموریل کو اس طرح سے خالی نہ چھوڑا جائے بلکہ اس کو اُردو کی خدمت کر رہی تنظیموں کی سرپرستی کے حوالے کر دیا جائے جن میں خاص ہیں : اُردواکیڈمی، غالب اکیڈمی، غالب انسٹی ٹیوٹ، ترقی انجمن اُردو وغیرہ۔
بہتر یہ ہوگا کہ یہاں پر ان سبھی اُردو تنظیموں کے ذریعہ سے کم سے کم ایک کاؤنٹر کھول دیا جائے جس پر غالب سے متعلق ان کی کتابیں، فوٹو، ترجمہ شدہ دیوان وغیرہ لوگوں کو فروخت کئے جائیں۔ اس میموریل کے اندر روز شام کے پانچ بجے کے بعد تالہ لگ جانا چاہئے اور اس کے اندر رکھے گارڈوں کے سامان کو باہر کر دینا چاہئے۔ساتھ ہی اُن گارڈوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی ہونی چاہئے جنہوں نے اس میموریل کو اس مقام پر لا کھڑا کیا۔ فرینڈس فار ایجوکیشن نے یہ میموریل اس وجہ سے نہیں بنوایا کہ یہاں پر بدکاری کا اڈہ قائم ہو بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ غالب اور اُردو کے چاہنے والے یہاں آئیں اور اس سے فیضیاب ہوں۔ تنظیم نے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر سے بھی اس جانب توجہ دینے کی درخواست کی خاص درخواست کی ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ غالب کے چاہنے والے کمر کس لیں اور اگر سرکار غالب میموریل کو صحیح طریقے سے نہیں چلانا چاہتی یا اس کی دیکھ بھال نہیں رکھنا چاہتی تو یہ کام وہ لوگ خود کریں۔ ویسے سب سے بہتر تو یہی رہے گا کہ اُردو کی ذمّہ دار تنظیمیں جیسے اُردو اکیڈمی، غالب اکیڈمی، طرقی اُردو بیورو، اُردو گھر یا غالب انسٹی ٹیوٹ کو غالب میموریل کمیٹی اس بات کی اجازت دے کہ یہ لوگ ایک صحیح طریقہ سے غالب کی اس ٹوٹی پھوٹی یادگار کو استعمال میں لائیں اور اُردو اور غالب کی خدمت کریں۔
اگر ایسا ہو گیا تو یہی اُردو کی اصل خدمت ہوگی اور غالب کی تڑپتی روح کے لئے یہی سب سے بہتر خراجِ تحسین ہوگا۔ غالب میموریل کمیٹی کو اب بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ کو حل کرنا ہوگا ورنہ ذہن کو یہی بات کچوکے لگاتی رہے گی کہ اس قسم کا میموریل بنانا کہاں تک مناسب بات تھی۔ اس سے قبل کہ علاقہ کے لوگ اس سنگین اور تشویش ناک معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لیں، حالات بگڑیں، بہتر یہی ہوگا کہ سرکارغالب یادگار کے معاملات کو صحیح راستہ پر لے آئے۔ دہلی سرکار کو یہ جان لینا چاہئے کہ علاقہ بلّی ماران میں باشندگان اس بات کو بالکل برداشت نہیں کریں گے کہ غالب میموریل کے اندر کچھ لوگ اس قسم کا ماحول پیدا کریں کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی فسادات کی جگہ نہ لے لے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا