English   /   Kannada   /   Nawayathi

’ہم کو جو ملا ہے،وہ تم ہی سے تو ملا ہے‘

share with us

مشہور صحافی کامران غنی صبا صاحب کی ایک پوسٹ تھی’’معروف شاعر ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب ہزاریباغ میں انتقال فرما گئے ‘‘مجھے لگا یہ میری ا?نکھوں کی خطا ہے اور مسلسل تین چار دفعہ وہ پوسٹ پڑھتا رہا اچانک بدن پر لرزہ طاری ہو گیا ،آنکھیں نم ہو گئیں ،حواس باختہ ہو گیا ،اور جب دل کو سمجھایا تو مرحوم و مغفور کا یہ شعر ذہن و دل میں گردش کرنے لگا، یادوں کا جھونکا آتے ہی آنسو پاؤں بڑھائے۔۔۔جیسے ایک مسافر آئے ایک مسافر جائے۔پھر سوشل میڈیا سے لے کر الیکٹرونک میڈیا پر یہ اندوہناک خبر آگ کر طرح پھیل گئی ،ہر شخص اپنے اپنے طریقے سے خراج عقیدت پیش کرنے لگالیکن سبھوں کے خراج عقیدت میں ایک بات نمایاں طور پر نظر آئی کہ کلیم عاجز ہمارے شاعر تھے ،ہمارے دل کا ترجمان تھے،ہمارے غمگسار تھے ،ہمارے زخم دل کے طبیب تھے اور ان کے اشعار ہمارے درد کے درماں تھے۔آج جبکہ ان کی پہلی سالگرہ ہے تو انہیں سلام محبت اور خراج عقیدت کرنے کے لئے تھر تھراتے ہاتھوں کو جنبش دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔
بات ان دنوں کی ہے جب میں المعہد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء امارت شرعیہ کا طالب علم تھا ،شعر وشاعری کا شوق لئے پھرتا تھا ،کبھی کچھ لکھتا کبھی کچھ کہتا مگر کسی کی شاگردیت حاصل نہ تھی،فن عروض سے ناقص واقفیت شعراء اور ادباء سے قریب تر کھینچ لاتی تھی ،کلیم عاجز صاحب کے سینکڑوں اشعار زباں زد تھے، ا ان کی آمد پرامارت شرعیہ کے مہمان خانہ میں شعری نششت کا انعقاد ضرور ہوتا تھا جس میں خود امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی موجود ہوتے تھے اورخود بھی اپنا کلام سناتے تھے۔اس درمیان متعدد دفعہ کلیم عاجزصاحب ؒ سے ملنے کا شرف حاصل ہوا مگر یہ جرأت گفتار نہ ہوئی کہ ہم بھی ذوق سخن رکھتے ہیں ذرا آپ بھی سن لیں مجھ سے ؟خواہشیں مستقل انگڑائیاں لیتی رہیں مگر اپنی بات کہنے کی ہمت نہیں جٹا پا رہا تھا۔اسی بیچ امارت شرعیہ کے روح رواں،اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے بانی اور فقیہ النفس حضرت قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمیؒ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدربنا دیے گئے ،اس خبر سے اراکین امارت شرعیہ اور معتقدین قاضی صاحب خوشیاں منانے لگے ،۵؍جولائی 2000 کو قاضی صاحب صدر منتخب ہونے کے بعد پہلی مرتبہ امارت تشریف لانے والے تھے ،ذمہ داران امارت نے صدر منتخب ہونے پر ایک استقبالیہ پروگرام منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اسی پروگرام میں بندہ ناچیز نے قاضی صاحب کی شان میں ایک قصیدہ ’’گلہائے عقیدت ‘‘کے نام سے پیش کیا۔قاضی صاحب کی موجودگی میں شعر گوئی دل گردہ کی بات ہے ،میں ڈر بھی رہا تھا اور اپنا کلام بھی سنائے بھی جا رہا تھا ،وہ مجھے مسلسل تاکے جا رہے تھے جب قصیدہ ختم ہوا تو قاضی صاحب نے فرمایا:ماشاء اللہ بیٹا تمہاری آوازخوبصورت ہے کیا یہ تمہاری تخلیق ہے ؟میں نینہایت ہی ادب سے کہا :جی حضرت ،انہوں نے کہا :بعد میں مجھ سے ملو اور یہ نظم لے کر آنا۔میں سوچتا رہا کہ نہ جانے کون کون سے سوالات ہوں گے ،جب اللہ اللہ کر کے دوسرے دن قاضی صاحب کے پاس گیا تو ان کا پہلا سوال تھا ،کسی اچھے شاعر سے تم نے اپنے کلام کی اصلاح کرائی ہے ؟میں نے نفی میں جواب دیا ،پھر پوچھا :تم کلیم عاجز کو جانتے ہو ؟میں نے کہا: بچپن سے اور کلیم صاحب کی مشہور نعت پاک انگوٹھی دل ہے اور اس کا نگینہ مدینہ ہے مدینہ ہے مدینہ سفر ہو تابہ خم پھر تابہ مینا یہاں سے کعبہ کعبہ سے مدینہ۔۔اورمعروف غزل میرے ہی لہو پر گزراوقات کرو ہو مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔۔سنائی۔بس یہی وہ وقت تھا جب میری مراد بر آئی اور شعر وسخن کو پر لگا۔اسی وقت حضرت قاضی مجاہد الاسلام صاحب نے ایک خط ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب کے نام لکھا جس میں لکھا ہوا تھا ’’یہ ہمارا طالب علم ہے ،شعر وشاعری کا شوق رکھتا ہے ،آپ اپنی شاگردیت کا شرف بخشیں ،میرے استقبالیہ پر پیش کی گئی اس کی نظم سر دست دیکھ لیں ، بندہ ممنون ہوگا ‘‘۔
میرے بہت ہی محترم انگریزی کے استاذقدردان ادب مرحوم ضمان اللہ ندیم صاحب نے بتایا کہ کلیم صاحب ابھی سمن پورہ کے گھر میں ہیں آپ وہاں چلے جائیں ،ہمیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میرے خوابوں کی تعبیر مل گئی ہو اور واقعی ’’رکھنا ہے کہیں پاؤ ں تورکھو ہو کہیں اور‘‘ کے مصداق ہانپتیکانپتے ان کا گھر پہنچا۔ڈور بیل بجائی تو ایک نحیف سا نو خیز لڑکا نے خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہا ،ہم نے عاجز صاحب کو پوچھا اور اندر آنے کی اجازت چاہی ،اس نے اجازت دی ،ہم جب اندر خانہ داخل ہوئے تو دیکھا کلیم عاجز صاحب تکیہ پر ٹیک لگا ئے ،سر جھکا ئے ، کچھ تحریر فرما رہے ہیں ،اس ضعف العمر ی میں بھی ذوق وشوق عنفوان شباب پر تھا ،علیک سلیک ہوا اور اپنا تعارف کرایا،جب میں نے کہا کہ میرا تعلق دھنباد سے ہے وہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا :دھنباد میں میرے خویش واقارب ہیں میں وہاں اکثر جاتا ہوں ،اور معتبر ذرائع کے مطابق اس دفعہ بھی ہزاریباغ سے دھنباد ہی جانے والے تھے لیکن منظور خداوندی نہ تھااور ہزاریباغ ہی سے رب نیاپنے پاس بلا لیا ،قاضی صاحب کا خط دیا ،آپ بہت خوش ہوئے اور بار بار ان کی طبیعت کا پوچھے جا رہے تھے ،امارت کے احوال پوچھے جا رہے تھے ،پھر میری نظم مانگی ،چند ہی منٹ کے بعد انہوں نے نظم واپس کردی ،میں یہ دیکھ کرحیران ہو گیاکہ جس نظم کو لکھنے میں کئے دن میں نے برباد کئے تھے اسے کلیم صاحب نے چند منٹ میں اصلاح فرما دی۔ انہیں ایام میں قومی تنظیم پٹنہ میں فیض احمد فیض کے کلام پر بحث چھڑی ہوئی تھی ،کلیم صاحب ان کے کچھ اشعار پر تنقید کر رہے تھے اور علامہ اقبال کو فیض سے بڑے شاعر شمار کر رہے تھے ،توقیر عالم نام کا کوئی شخص کلیم صاحب کی تنقید پر تنقید کر رہے تھے اور کلیم صاحب کو نیچا دکھانے کی ناجائز کوشش کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا :حضرت یہ توقیر عالم کون ہے؟جو آپ کے خلاف لکھنے پر اترآیا ہے بلکہ انداز تحریر سے لگتا ہے کوئی ذاتی دشمنی نکالنے پر اترآیا ہے ،فرمایا:یہ فرضی نام ہے ،مخالفین کو میں جانتا ہوں لیکن اس میں اتنی جرئت نہیں ہے کہ اصل نام اور چہرہ کے ساتھ گفتگو کرے اور یہ دیکھو ابھی میں اسی کا جواب لکھ رہا ہوں۔پھرمیں نے رخصتی کی اجازت چاہی آپ نے اجازت دی، خوددروازے تک چھوڑنے آئے اور فرمایا :’’ملتے رہا کرو آپ دھنباد کے ہو اور دھنباد سے میری نسبت ہے ‘‘میں خوشی سے جھومے جا رہا تھا کہ جس عظیم شخصیت کو بچپن سے سن رہا تھا ،گا رہا تھا ،پڑھ رہا تھا آج ان سے میری بھی نسبت ہو گئی اوراب یہ کہہ سکتا ہوں 
ہم کو جو ملا ہے تم ہی سے تو ملا ہے ہم اوربھلا دیں تمہیں کیا بات کرو ہو
ابھی چند ہی ماہ گزرے تھے کہ میری تعلیم مکمل ہو گئی ،قاضی القضاۃ حضرت قاضی مجاہد الاسلام صاحب ؒ نے مجھے دار القضاء امارت شرعیہ کلکتہ کا قاضی بنا کر کلکتہ روانہ کر دیا تا ہم جب جب بھی میں پٹنہ آتا کلیم عاجزؒ سے ملنے اور اصلاح کلام کے لئے ضرور جاتا ،لیکن 2008میں جب سعودی عرب آگیا تو ان سے بالمشافہ ملاقات بہت کم ہو گئی تھی ،اور اب جبکہ وہ محبوب حقیقی سے جا ملے ہیں تو ان کے لئے میں یہی کہوں گا 
تارے بجھے بجھے ہیں فضا بھی خموش ہے *آتی نہیں کہیں سے نوائے سروش ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا