English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہم کب تک ’’دہشت گردی ‘‘ کی صفائی دیتے رہیں گے۔۔۔؟

share with us

مگر اس ملک میں آباد وہ مسلمان جن کے آباء واجداد نے ملک کی آزادی کے لئے اپنا خون بہایا تھا وہ اس ملک کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے اس لیے وہ یہیں آباد رہے تاکہ ملک کے وقار وعظمت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی مساجد، خانقاہوں اور بزرگان دین کے آستانوں کی حفاظت کی جاتی رہے، لیکن آزادی کے بعد سے ہی وہی فاشسٹ اور فرقہ پرست طاقتوں نے فسادات کے ذریعے مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا۔ بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو جانی ومالی نقصانات سے دوچار ہونا پڑا، اس کے باوجود مسلمانوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ اور ملک کی عزت وعظمت کی خاطر اپنا سینہ پیش کرتے رہے۔ 
1965، 1970اور کارگل کی جنگ میں یہ ثابت بھی ہوا کہ سرحد پر پاکستان کے خلاف لڑنے والوں میں مسلمان سب سے زیادہ پیش پیش تھے، بریگیڈیئر محمد عثمان، ویر عبدالحمید اور کیپٹن لطیف الدین کی شہادت یہ ثابت کررہی ہے کہ ملک کی آزادی کے لئے مسلمانوں نے قربانیاں دیں اور آزادی کے بعد ملک کے وقار وعظمت و تحفظ کے لئے بھی وہ اپنی جان دینے کو تیار ہیں۔ فرقہ پرست جب فسادات کے ذریعے مسلمانوں کے حوصلوں کو پست کرنے میں ناکام رہے تو مسلمانوں کو معاشی بدحالی کا شکار بنانے کے لئے ان کی صنعتوں کو تباہ وبرباد کرنا شروع کیا اس کے باوجود بھی جب مسلمان نہیں ٹوٹا تو ملک بھر میں بم دھماکے کرکے اس کا پورا الزام مسلمانوں کے سر تھونپا جانے لگا۔ اے ٹی ایس کے چیف آنجہانی ہیمنت کرے کرے نے جب بم دھماکوں کی تحقیقات کو دوسرے رخ سے دیکھا تو حیرت انگیز طو رپر بھگوا دہشت گردوں کا چہرہ بے نقاب ہوا تب ملک کے انصاف پسند سیکولر مزاج لوگوں کو احساس ہوا کہ شاید مسلمان بے قصور ہیں۔ مگر ان طاقتوں نے مسلمانوں کو ہی دہشت گرد ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور یہ دلیل دیتے رہے کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہے۔ مگر دہشت گردی کے الزام میں پکڑاجانے والا ہر شخص مسلمان ہی ہوتا ہے۔ اس کے جواب مسلم تنظیمیں میدان میں اتر پڑیں اور جلسے جلوس کے ذریعہ یہ باور کراناشروع کیا کہ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں مسلمان دہشت گرد نہیں ہوسکتا مگر جتنی شدت سے ہم دہشت گردی کے تعلق سے صفائی دیتے رہے اتنے ہی منظم سازش کے تحت مسلمانوں کو پھنسایاجاتا رہا۔ آخر دہشت گردی کی صفائی ہم ہی کیوں بار بار دے رہے ہیں جب کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہے۔ اب بین الاقوامی سطح پر ملک کے مسلمانو ں کو مزید مشکوک کرنے کے لئے داعش اور القاعدہ کے نام پر گرفتار کیاجارہا ہے اس کے لئے پولس یہ جواز پیش کرتی ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعہ کچھ مسلم نوجوان داعش کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں اور مسلم نوجوانوں کو اس میں شامل ہونے کے لیے اُکساتے ہیں۔ یہ الزام بہرحال برقرار ہے اور زیادہ تر ایسے سرگرم مسلم نوجوان بشمول علمائے کرام کو گرفتار کیاجارہا ہے جو مسلمانوں میں جدید تعلیم کو عام کرنے کی تلقین کرتے رہے ہیں۔ خیر جن شکوک وشبہات کی بنیاد پر گرفتاریاں ہورہی ہیں ہمیں یقین ہے کہ عدالت میں یہ سارے ان کے خلاف بنائے گئے ثبوت حسب سابق بے بنیاد ثابت ہوں گے۔ 
ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے اب جلسے جلوس کرکے یہ ثابت کرنے کی ہر گز ضرورت نہیں ہے کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہے یا اسلا م دہشت گردی کا شدید مخالف ہے وغیرہ ۔ اس کے بجائے اب مسلمانوں کو قانون کے ماہرین کی ٹیم تیار کرنے کی ضرورت ہے اور جن بے گناہوں کو داعش اورالقاعدہ کے نام پر پابند سلاسل کیا گیا ہے ان کی مضبوط قانونی پیروی کرکے رہائی دلائی جائے۔ اصل لڑائی یہی ہے اور اسی کے ذریعہ انصاف مل سکتا ہے اور ان طاقتوں کے حوصلے بھی پست ہوں گے جو اس طریقے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ اب تک تو ہر گرفتاری کے بعد مسلمان زبردست احتجاج پر آمادہ رہا ہے ، احتجاجی جلسے کئے گئے ، تحقیقاتی ایجنسیوں کو برا بھلا کہاگیا، حکومت وقت کو لعن طعن کیاگیا جس کا نتیجہ ہمیشہ صفر رہا۔ صرف سڑکوں پر چلانے سے ، اور اخبار میں بیان بازی سے نہ کبھی انصاف ملا ہے اور نہ ملے گا۔ انصاف کے لئے قانونی لڑائی بے حد ضروری ہے جس میں مسلمان بہت پیچھے ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے ہائی کورٹوں میں مسلم جج کی تعداد ڈیڑھ فیصد سے بھی کم ہے۔ اس لیے جب تک مسلمان اپنے آپ کو عدلیہ سے نہیں جوڑے گا جب تک وہ ماہر قانون نہیں بنے گا ، جب تک وہ جج کی کرسی تک نہیں پہنچے گا، اس وقت تک وہ انصاف سے محروم ہی رہے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ جہاں مسلمان اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر ، ٹیچر، پروفیسر بنارہے ہیں وہیں اس سے ضروری ہے کہ اپنے بچوں کو وکالت کی طرف بھی آمادہ کریں۔ عام رجحان یہ رہا ہے کہ وکالت کے پیشے میں جھوٹ بولا جاتا ہے اس کی آمدنی جائز نہیں ہے یہ محض فرسودہ رجحان ہے ، یا اسلام دشمن طاقتوں کا یہ سوشہ ہے۔ مسلمان اس سوشے میں نہ الجھے اور اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ وکالت کے پیشے کی طرف راغب کریں۔ نمائش اور جذبات سے پرے ہٹ کر ٹھوس عملی اقدام کی طرف بڑھیں اسی میں قوم مسلم کی عافیت ہے۔(

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا