English   /   Kannada   /   Nawayathi

کیا کسی بھی خبر سے آنکھ نہیں کھلتی

share with us

’’اس دفعہ اپنی کتاب (محفل قرآن جلد پنجم) کے کام سے جلد فراغت ہوگئی تو سوچا کہ پاکستان کا سفر جو مدتوں سے ڈیو چل رہا ہے اسے اس فرصت سے فائدہ اٹھاکر نپٹا دیا جائے۔ لیکن یہ سفر لندن دہلی کا سفر نہ تھا کہ اس عمر میں بھی اکیلے کرلیا جائے۔ اس کی تو عادت ہوگئی ہے اور راستہ کی ہر چیز جانی بوجھی۔ پس سوچا تھا کہ پاکستان کا سفر میاں اسید سلمہٗ کے ساتھ کیا جائے جو لکھنؤ میں بھی میرے ساتھ تھے اور ساتھ ہی سنبھل آئے ہیں۔ ارادے کے بعد اب مسئلہ ویزے کا۔ برادرم عبدالمومن میاں ماشاء اللہ باہر کے سفر کرتے رہتے ہیں ان سے رہنمائی چاہی کہ کیا کیا کرنا ہے؟ انہوں نے کہا۔ بھائی صاحب اسید میاں کو ساتھ لے جانے کا سوچ رہے ہیں؟ ارے غضب ہوجائے گا۔ ہمارے ہاں تو ایجنسیاں نوجوانوں کو پھنسانے پر لگی ہیں۔ ایک عذاب آیا ہوا ہے۔ محض بہانوں پر لڑکے اٹھائے جارہے ہیں اور کسی نوجوان کا پاکستان کا سفر اُن کے یہاں کوئی معنیٰ ہی بجز اس کے نہیں رکھتا کہ وہاں سے افغانستان گیا اور دہشت گردی کی ٹریننگ لے کر لوٹا ہے۔
لیجئے صاحب ہمارا سفر ایجنسیوں کی دہشت گردی کی نذر ہوگیا۔ اور اس پر خیال آیا کہ ابھی چند دن پہلے وزیر داخلہ شری راج ناتھ سنگھ نے کچھ مسلم نمائندوں سے ملاقات کرکے فرمائش کی تھی کہ اپنے نوجوانوں کو داعش کی طرف راغب ہونے سے روکیں۔ اس پر اخباری خبر کے مطابق اپنی حتی المقدور کوشش کا اطمینان دلایا گیا۔ آج 07 فروری کے تمہارے کالم میں بھی اس کا حوالہ ہے۔ لیکن اگر یہ واقعہ ہے کہ کچھ نوجوان داعش کی طرف راغب ہورہے ہیں تو بات اس پر ہونا چاہئے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس لئے کہ اس سب کا اگر پتہ نہ لگایا جائے جس کے باعث بعض مسلم نوجوان مبینہ طور پر داعش کی طرف راغب ہورہے ہیں تو اُن کو باز رکھنے کی کوشش اندھیرے میں تیر چلانے کا مصداق ہوگی۔ دوسرے یہ کہ اگر یہ واقعہ ہے کہ کچھ جوان داعش کی طرف راغب ہورہے ہیں تو اس میں حکومت کے لئے پریشانی اور فکرمندی کا پہلو کیا ہے؟ آیا ان کا باہر جاکر داعش کے لشکر میں شامل ہونا فکرمندی کا باعث ہے یا یہ ڈر ہے کہ اس سے داعش کے لئے ہمارے ملک میں نفوذ کی راہ ہموار ہوسکتی ہے؟ مسلم نمائندوں کو مدعو کرکے مسلم نوجوانوں کے اس مبینہ رجحان کے خلاف ان سے مدد طلب کرنا اس بات کا غماز ہے کہ حکومت بظاہر دوسرے پہلو سے فکرمند ہے۔ پس معلوم ہونا چاہئے کہ حکومت اور اس کے وزیر داخلہ اگر ایسا اندیشہ کرتے ہیں تو وہ کیوں کر اور کس وجہ سے؟ کیوں مسلمان نوجوانوں کو اس سے دلچسپی ہوسکتی ہے کہ وہ داعش کی قوتِ باز بنیں اور اپنے ملک میں اس کے لئے راہ ہموار کریں؟ کوئی ہنسی مذاق تو نہیں، یہ موت اور زندگی کا کھیل ہے اور کوئی بھی نوجوان یوں ہی بیٹھے بٹھائے تو اپنی زندگی کو داؤ پر نہیں لگا سکتا۔ کوئی بات ہونا چاہے جس نے اسے زندگی سے اتنا بے زار کر دیا ہو کہ اسے بدلنے کی راہ میں وہ موت تک کو گلے لگانے کو تیار ہے۔ پس وزیر داخلہ کے بہترین ذرائع اطلاعات انہیں اگر بتارہے ہیں کہ مسلم نوجوانوں میں داعش سے رشتہ جوڑنے (بہ الفاظ دیگر زندگی کو داؤ پر لگانے) کا قابل فکر رجحان رونما ہوچکا ہے تو اس مرض کا علاج مسلم نمائندوں کے پاس نہیں ہے، خود حکومت کے پاس ہے۔ اور وہ ہے دہشت گردی کے نام پر ایسی بے بنیاد گرفتاریوں کا سلسلہ بند کردینا جن کے نتیجے میں گرفتار لوگ دس دس بارہ بارہ سال جیل کی مشقتوں اور اذیتوں کا تختۂ مشق بن کر بے قصور قرار پاتے ہیں۔ یہ اندھیر نگری ٹائپ گرفتاریاں ہیں جن کا نشانہ خاص طور پر مسلم نوجوان بن رہے ہیں۔ یہ صورت حال ملک کے مسلم نوجوانوں میں سخت عدم تحفظ کا احساس پیدا کئے بغیر نہیں رہ سکتی تھی پس ہم نے داعش جیسی تنظیموں کا ان کو خود نرم چارہ بنا دیا ہے۔ وہ انٹرنیٹ کے ذریعہ ان کے رابطے میں آتے ہیں تو بڑی آسانی سے ان کا دکھایا ہوا خواب دیکھتے ہیں کہ وہ اس تنظیم سے منسلک ہوکر اپنے درد کی دوا پانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔‘‘
بات وزیر داخلہ اور مسلم نمائندوں کی ہے۔ ہم نے یہ جاننے کی ضرورت بھی نہیں سمجھی کہ کون کون تھا اور کس کس مسلک کا تھا؟ لیکن 08 فروری کو میرے پاس ایک فون آیا کہ ٹی وی کھولئے اور فلاں چینل دیکھئے۔ دہلی میں آل انڈیا تنظیم علماء اسلام کے زیراہتمام تال کٹورہ اسٹیڈیم میں ایک کانفرنس ہورہی ہے جس میں سنی عالم دانشور خانقاہوں کے نمائندے اور صوفیاء کرام شرکت کررہے ہیں اور نشانہ دیوبند کے علماء ہیں جن کا تعلق داعش سے بتایا جارہا ہے۔ اپنی آنکھ کی تکلیف کی وجہ سے میں دیکھ تو نہ سکا جو کچھ سنا اس کا حاصل وہی تھا جو ہر موقع پر کہا جاتا ہے کہ تعداد ہم سنیوں کی زیادہ ہے اور حکومت ہمیشہ مسلمانوں کے معاملے میں دیوبند کے لوگوں سے بات کرتی ہے۔ ’’ہر ریاستی حکومت نے وقف بورڈ دیوبندیوں کے ہاتھ میں دے رکھے ہیں جو سعودی حکومت کے اشاروں پر مساجد کے اماموں کے ذریعہ ایک مخصوص فرقہ کے فروغ کے لئے کام کررہے ہیں۔‘‘
ایک اجمیر کے گدی نشین نے فرمایا کہ ہندوستان کے سلطان اجمیر کے خواجہ غریب نواز ہیں آج ملک کو ان کی زندگی سے سبق لینا چاہئے۔ کچھوچھہ کی درگاہ کے سجادہ نشین نے کہا کہ یہ ملک صوفیوں کا ہے۔ بریلی کے مولانا منان رضا خاں نے کہا کہ ہندوستان کو صوفی تعلیم کا پیغام بریلی سے ملتا ہے۔ ہندوستان میں دہشت گردی کے خلاف پہلی لڑائی امام احمد رضا خاں صاحب نے بریلی سے لڑی۔ ایک صاحب نے پوری تقریر اس پر کی، ملک کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسلامی تعلیمی نصاب میں صوفیوں کی زندگی اور ان کی تعلیمات کا حصہ زائد رکھا جائے۔
حیرت ہوتی ہے کہ حکومت کے سامنے مسئلہ کیا ہے اور علاج اس کا آستانوں، مقبروں اور مزارات پر قوالی اور ڈھولک بتایا جارہا ہے اور وہ لوگ جنہوں نے نماز روزہ سب چھوڑ چھاڑ کر صرف میاں کا دامن پکڑلیا ہے وہ ایسی صوفیانہ تعلیم نصاب میں داخل کرانا چاہ رہے ہیں جس میں ہندوستان کے سلطان کے مزار پر فلمی ہیرو اور ہیروئنیں اپنی کامیابی مانگنے آتی ہیں اور گدی نشین نوٹوں کی گڈی کی چھین جھپٹ میں لگ جاتے ہیں۔ ہم نے اور نہ جانے کس کس نے لکھا ہے کہ گولی مارنے یا گرفتار کرنے سے پہلے کوئی معلوم نہیں کرتا کہ تم بریلوی ہو یا دیوبندی۔ دادری کے اقبال مرحوم سے کیا کسی نے معلوم کیا تھا؟ جبکہ ان کے پڑوس میں رہنے والے ہندوؤں نے ہی انہیں پیٹ پیٹ کر ماردیا اور مندر سے جو اعلان ہوا وہ بھی یہ نہیں تھا کہ وہابی اخلاق کے گھر میں گائے کا گوشت رکھا ہے۔۔۔ بات صرف اتنی ہے کہ سرکار کے دربار میں ہمیں نہیں بلایا۔ یہی تکلیف جامع مسجد دہلی کے امام مولوی احمد بخاری کو ہوئی۔ انہیں جب کسی نے ساتھ نہیں لیا تو وہ اکیلے ہی ملائم سنگھ کی چوکھٹ پر بھی جارہے ہیں اور وزیر اعظم کے درپر بھی۔ جبکہ یہ وقت اتنا نازک ہے کہ جو تفریق کی بات کرتا ہے وہ خود اپنے بچوں کا دشمن ہے اور ناقابل معافی ہے۔
جن ایجنسیوں کے ذمہ دار گرفتاریاں کررہے ہیں وہ ہندی جانتے ہیں یا انگریزی۔ اگر وہ سنتے ہیں کہ کسی عالم نے تقریر میں اپنے نفس سے جہاد کرنے پر زور دیا تو وہ اسے بھی ہندو کو مارنے والا جہاد کہیں گے۔ اب تو جو حالت ہے اسے کیا کہیں 50 برس پہلے جب ہمیں گرفتار کرنے کے لئے پندرہ سی آئی ڈی اور پولیس کے افسر اور 250 سپاہی آئے تو ان میں کوئی ایک بھی اردو جاننے والا نہیں تھا اور جب دوسرے تھانے سے ایک مسلمان سپاہی بلایا تو اس نے اخبار میں ایک نظم پڑھی جس میں ایک لفظ رقیب تھا۔ افسروں نے جب اس کے معنیٰ پوچھے تو اس نے کہا ’’دسمن‘‘ اور بغیر نقطے والے ش سے ہی کام بن گیا اور کہا کہ ہم نے حکومت کو دشمن کہا ہے اس لئے گرفتار کرلیا۔ جبکہ ہم وہ تھے جس نے 60 برس پہلے امین آباد سینٹرل بینک کے سامنے یکہ تانگہ یونین کے ایک صدر کو تقریر کرتے ہوئے سنا تھا۔ انہوں نے تانگہ اسٹینڈ کو ہٹانے کی مخالفت میں جوشیلی تقریر کرتے ہوئے کہا تھا: ’’یہ حکومت نہیں چونتیا کھاتہ ہے‘‘ جس پر دس منٹ تک زندہ باد کے نعرے لگے اور وہ ایک تانگہ میں بیٹھ کر اپنے گھر چلے گئے۔ اس لئے کہ اس کے معنیٰ سب سمجھتے تھے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا