English   /   Kannada   /   Nawayathi

محسن قوم وملت حکیم اجمل خاں

share with us

حکیم اجمل خاں کی پیدائش 12فروری 1868 ؁ء کو دہلی میں یونانی اطباء کے ایک ممتاز خانوادے میں ہوئی ۔ان کے والد کا نام حکیم غلام محمود خاں تھا ۔حکیم صادق علی کے منجھلے بیٹے تھے ، جو حکیم اجمل خاں کے والد اور حکیم شریف خاں کے پوتے تھے وہ بڑے شہرت یافتہ طبیب تھے ۔اور دلی وشمالی ہندوستان میں بے پناہ مقبول تھے ۔ان کے مطب میں ہندوستان اور مغربی ایشیا کے مختلف گوشوں سے آنے والے مریضوں کا ہجوم رہا کرتا تھا ۔جو ان سے علاج کرانے کے خواہاں ہوتے تھے۔ حکیم اجمل خاں نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر سے ہی شروع کی ،قرآن حفظ کیا ان کا قوت حافظہ زبردست تھا ۔ایک بار اگر کسی عبارت کو پڑھ لیتے تو ان کو یاد ہو جاتی تھی۔ انہوں نے فارسی ، عربی قواعد منطق ،طبیعات ،ادب ،نجوم ،ریاضی اور فلسفہ کی تعلیم بھی حاصل کی۔جن پر انہیں مہارت حاصل تھی ،انہوں نے عربی ادب کے مطالعہ کو نامور عربی داں مولوی طیب کی نگرانی میں اس دوران بھی جاری رکھا جب وہ رام میں مقیم تھے ۔انگریزی زبان اس دور کے مسلمانوں میں نہ تو عام تھی اور نہ ہی مقبول اس لئے اجمل خاں نے بھی اس کے حصول پراپنے ذہن کو مرکوز نہیں کیا ، تاہم بعد کے ادوار میں یورپ کے سفر پرروانہ ہونے سے پیشتر انہوں نے کرنل زیڈ احمد سے باقاعدہ انگریزی پڑھی۔
اگرچہ طب کی تعلیم کا حصول اجمل خاں نے اپنے والد حکیم غلام محمود خاں اور حکیم غلام رضا خاں کی نگرانی میں کیا لیکن اس فن میں مہارت انہیں اپنے بھائی حکیم عبدالمجید خاں اور حکیم واصل خاں کی تربیت سے اصل ہوء، انتہائی کامیاب مطبکا قیام انہیں کا مرہون منت تھا ۔1884 ؁ء میں حکیم اجمل خاں کی شادی اپنے چچا حکیم غلام اللہ کی بیٹی کے ساتھ ہوگئی جن کے بطن سے ان کی دو بیٹیوں اور ایک بیٹا کی ولادت ہوئی ،ان کے فرزند حکیم جمیل خاں نے اپنے جدی پیشے کو نہ صرف اپنایا بلکہ اس میں اہم اضافے بھی کئے ، اپنے والد اور باکمال پیش رو حکیم محمود خاں اور بھائی حکیم عبدالمجید خاں کے نقش قدم پرگامزن ہو کرحکیم اجمل خاں نے بھی دربار رام پور سے نہ صرف اپنے تعلقات استوار رکھے بلکہ 1892 ؁ ء میں وہ رام پور نواب حامد علی خاں کے طبیب خاص مقرر ہوئے اوراس منصب پرایک دہائی سے ذرا کم مدت تک فائز رہے ،رام پور میں اپنے قیام کے دوران انہیں بہت سے قومی رہنماؤں سے روابط قائم کرنے کے مواقع فراہم ہوئے ، جو مختلف امور کے لئے نواب صاحب سے مالی امداد کے حصول کی خاطررام پور کا رخ کیا کرتے تھے ۔
حکیم صاحب دیسی طریقہ طب کو اس مقصد سے بھی جدید بنانا چاہتے تھے کہ لوگوں کو ان کی بیماریوں کے لئے علاج کا ماڈرن طریقہ فراہم کیا جا سکے اس مقصد کی تکمیل کے پیش نظر حکیم صاحب نے 1911 ؁ء میں یورپ کا دورہ کیا اور میڈیسین اورسرجری کے میدان میں ہونے والی تازہ ترین تحقیقات کا مطالعہ کیا ،اگرچہ یورپ کے دورے کے مقصد میں ان کا اصل مقصد یہی تھا کہ وہ فن طب کے جدید بنانے کے اس عمل کا مشاہدہ اور مطالعہ کریں جس کے ذریعہ تحقیقات کو عملی جامہ پہنایا جا سکے ۔انہوں نے مغرب کے سبھی اہم طبی مراکز اور اسپتالوں کا معائنہ کیا اور وہاں کے نامور معالجوں سے ملاقات کر کے ان کے ساتھ تبادلہ خیال کیا ۔لندن میں ہی پہلی مرتبہ ان کی ملاقات ڈاکٹر مختار احمد انصاری سے ہوئی جو بعد میں زندگی بھر کی رفاقت میں ڈھل گئی ان دنوں ڈاکٹر انصاری ڈاکٹر اٹینلے بائڈکی ما تحتی میں چیئر نگ کراس ہسپتال میں ہاؤس سرجن کے عہدے پر فائز تھے ، ڈاکٹر بائڈ انگلینڈ کے ممتاز سرجنوں میں شمار کئے جاتے تھے ،اور شاہ انگلستان کے اعزازی سرجن بھی تھے ،ایک صبح ڈاکٹر انصاری نے حکیم صاحب کی ملاقات ڈاکٹر بائڈ سے کرائی جو اس وقت ایک مریض کا طبی معائنہ کررہے تھے ، ڈاکٹر بائڈ نے حکیم صاحب سے درخواست کی کہ وہ بھی اس مریض کا معائنہ کریں حکیم صاحب نے مریض کی نبض پرہاتھ رکھ کر یہ تشخیص کی کہ وہ آنتوں کے اوپری حصے میں کسی پرانے زخم کی تکلیف میں مبتلا ہے مگر ڈاکٹر بائڈ کو حکیم صاحب کی تشخیص سے اختلاف تھا اس لئے انہوں نے اگلے روز حکیم صاحب مریض کے آپریشن کے دوران آپریشن تھیٹر میں موجود رہنے کی دعوت دی ،ڈاکٹر انصاری کے الفاظ میں در اصل یہ یونانی طب اور انگریزی طریقہ علاج کے درمیان مقابلہ تھا کیونکہ آپریشن ہی کے ذریعہ اس حقیقت کا انکشاف ممکن تھا کہ ان دونوں میں سے کون صحیح ہیں ۔ڈاکٹر انصاری بہت فکر مند تھے کہ اگر ڈاکٹر بائڈ کی تشخیص صحیح ثابت ہوگئی تو انگریزوں کی نگاہ میں یونانی طب کے وقار کو سخت صدمہ پہنچے گا تاہم اگلے روز جب آپریشن کے لئے مریض کا شکم چاک کیا گیا تو ثابت ہوا کہ حکیم صاحب کی تشخیص صحیح تھی ڈاکٹر بائڈ اس سے بہت متاثر ہوئے انہوں نے حکیم صاحب کی خدمت میں ان کی تشخیص پرمبارکباد پیش کی ان کے اعزاز میں ایک خصوصی ضیافت کا اہتمام کیا اور مسٹربائڈ ان کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے مجھے جراحی کے میدان میں شکست دی ہے ۔
ہندوستان واپس آنے کے بعد حکیم صاحب نے اپنی تمام ترتوجہ طبیہ اسکول کو ایک کالج میں تبدیل کردینے میں صرف کردی، کیونکہ یورپ کے سفر کے دوران انہوں نے جن جن اداروں کا معائنہ کیا تھا ان سے متاثر ہوکروہ اس نتیجہ پرپہنچے تھے کہ ان طبی اداروں کی نہج پرہی انہیں اپنے اسکول کو بھی فروغ دینا چاہئے ، اس مقصد کی تکمیل کے لئے انہوں نے رام پور ،ٹونک، بھوپال ،پٹیالہ ،گوالیار،اندور، الورجیسے شہروں کا دورہ کیا اور ملک کے مختلف دیسی والیان ریاست سے روپیہ جمع کرنے کی مہم شروع کردی،1915 ؁ ء میں ان کی طبی خدمات کے پیش نظر حکومت نے انہیں قیصر ہند کے تمغے سے نوازا ،اسی زمانے میں انہوں نے دلی کے قرول باغ نامی علاقہ میں معمولی سی قیمت کے عوض ایک قطعہ زمین خریدلیا اگرچہ دلی کے چیف کمشنر سرمالکوم ہیلی زمین کے حصول میں رخنہ اندازی کررہے تھے ، مگر حکیم صاحب نے وائس رائے لارڈ ہاڈنگ کی مدد سے زمین کے حصول میں کامیابی حاصل کر لی،جن سے ان کے بہترین ذاتی مراسم تھے بعد ازاں خود وائس رائے لارڈ ہاڈنگ نے مجوزہ طبیہ کالج کا سنگ بنیاد 29جنوری1914 ؁ء کو اپنے ہاتھ سے رکھا ابتدا ء میں تو دوسرے انگریزوں کی طرح خود وائسرائے بھی دیسی طریقہ علاج کی افادیت کے بارے میں مشکوک تھے اور کالج کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کرنے کے سلسلے میں تذبذب میں تھے لیکن حکیم صاحب کے دلائل نے اس فن سے متعلق ان کے سارے شبہات رفع کردیئے اور انہیں سنگ بنیاد رکھنے پررضا مند کرلیا تاہم وائسرائے نے حکیم صاحب کو یہ مشورہ دیا کہ وہ اس طریقہ علاج کے معیار میں اضافہ کریں اسے جدید بنائیں ، اور مجوزہ طبیہ کالج میں سرجری اورانا ٹومی کی تعلیم کو مغربی خطوط پرلازمی کردیں ، حکیم صاحب نے وائسرائے کے اس مشورے کو بسرو چشم قبول کیا ۔کیونکہ وہ تو خود ہی فن طب کو ان چیزوں سے روشناس کرانے کے سلسلے میں پہلے ہی سے کوشاں تھے ۔اس تقریب میں تقریر کرتے ہوئے حکیم صاحب نے فرمایا آیوروید اور یونانی طب کا شمار علاج کے بڑے قدیم طریقوں میں ہوتا ہے زمانہ قدیم سے ہندوستان کے لوگ خواہ امیر ہوں یا غریب ،خواندہ ہوں یا ناخواندہ ،شہری ہوں یا دیہاتی سبھی ان طریقوں سے مستفیض ہوتے ہیں۔
ملک کی آزادی میں حکیم اجمل صاحب نے غیر معمولی رول ادا کیا۔ ہندو اور مسلمان اتحاد قائم کرنے کی آپ نے بھرپور کوشش کی جو کہ برطانوی حکومت کو کبھی گوارہ نہ تھی۔ جنگ آزادی کی لڑائی میں مہاتما گاندھی،موتی لال نہرو وغیرہ کا کھل کر ساتھ نبھایا۔ انڈین نیشنل کانگریس جوائن کیا۔ برطانوی حکومت نے جو خطابات دیئے اسے واپس کر دیا۔ اس سے بڑا حب الوطنی کا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے۔ آپ جب سیاست کی طرف رجوع ہوئے تو اس زور و شور سے رجوع ہوئے کہ صر ف دس سال کی مدت میں اس کا بلند منزل پر پہنچا دیا۔ آپ کی شرکت اور رہنمائی نے کانگریس کو نمائندہ عوام ملکی کانگریس بنایا۔یہ ساری خدمات چیخ چیخ کرپکاررہی ہیں کہ اس درویش صفت محسن قوم نے وطن کی آزادی کیلئے کتنا سارا کام کیا تھا۔ حکیم اجمل خاں نے آزادی حاصل کرنے کے لئے دو باتوں پر خصوصی زور دیا۔ اول تعلیم کا فروغ اور دوم ہندو مسلم اتحاد۔
آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے موسسین میں سے ہیں۔آپ نے ذاتی سرمایہ اور عمر کے گرانقدر آخری ایام جامعہ کی توسیع و ترقی میں صرف کیا ۔آپ جامعہ کے فروغ میں تامرگ کوشاں رہے ۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں حکیم اجمل خاں صرف ایک طبیب ہی نہیں بلکہ کئی خوبیوں کے مالک تھے۔ ایسی شخصیتیں اس سرزمین پر بہت کم آیا کرتی ہیں جسے لو گ لمبے عرصے تک یاد کرنے کے لئے مجبور ہوتے ہیں۔ ان کے کارناموں سے استفادہ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہ بیک وقت ایک طبیب، مجاہد آزادی ، سیاست کے سرگرم سپاہی اور ایک مخلص اور قوم پرست انسان تھے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا