English   /   Kannada   /   Nawayathi

الاماں از روح جعفر الاماں

share with us

سندھ کے ظلمت کدے میں نور افشاں ہے کو ئی
ابر کے دامن میں جیسے برق لہرائی ہو ئی
’’ ایک مورخ کے الفاظ ہیں سند ھ کی فتوحات میں ایک طر ف محمد بن قاسم نے اپنے آپ کو رستم واسکندر سے زیادہ بڑا بہادر ثابت کیا تو دوسری طرف نوشیروان سے بڑھ کر عادل ا وررعا یا پر ور ظاہر ہوا ،یہ نوجوان فتح مند سردار سندھ و پنجاب میں اتنی تیز ی سے گھس رہا تھا اور بستیوں کی بستیا ں اس کے اثر سے اس طرح دائر ہ اسلام مین داخل ہوتی چلی جا رہی تھی، ایسا معلوم ہو تا تھا کہ عنقریب سارا علاقہ ایک اسلامی علاقہ بن جا ئیگا؛ لیکن تاریخ کی ستم ظریفی نے اس کمسن نوجوان کے ساتھ کیا برا سلوک کیا ، کیسے اس جواں سال سپہ سالار کو موت کی نیند سلایا گیا ، الامان والحفیظ! بنو اامیہ کے فرماں روا عبدالملک بن مروان نے اپنے دو بیٹوں کو ولی عہد مقرر کیا ، حسب دستور بڑا بیٹا ولید تخت پر بیٹھا تو اس نے ا پنے نے بھا ئی سلیمان کو ولی عہدی سے دستبر دار کر کے اپنے بیٹے کو جا نشین مقرر کردیا؛لیکن اچانک اس کی اس تمام تکمیل سے پہلے ہی اسکا انتقال ہو گیا ،اور بھا ئی سلیمان تخت پر براجمان ہو گیا ،اب سلیمان نے اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد ان تمام لوگوں سے انتقام لینا شروع کیا جو ولید کی حمایت میں پیش پیش تھے ،ان میں پہلا نام حجاج بن یوسف کا تھا ،لیکن سلیمان کی تخت نشینی سے پہلے ہی حجاج کا انتقال ہو گیا تھا اب سلیمان نے اپنی انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کر نے کے لیے حجاج کے داماد اور چچا زاد بھائی محمد بن قاسم کو اپنی ہوس کا نشا نہ بنایا،اور فر ط غضب میں ان کو سندھ کی ولایت سے معزول کر کے دمشق کے جیل خانے میں ڈلوادیا جہاں ان پر طرح طرح کے ظلم روا رکھے جا تے تھے بالآخر یہ نو جوان جیل کی مشقتیں برداشت کر تے ہوے دنیا سے رخصت ہو گیا‘‘ ۔(تاریخ کا سبق ص ۲۸) 
محمد بن قاسم نے، اپنی اس شہادت سے پوری دنیا ئے اسلام کو یہ پیغام د یا کہ امیر کی اطاعت ، اتحاد امت اور امن و شانتی میری جان اور اقتدار سے زیادہ عزیز تر ہے ،ورنہ محمد بن قاسم کے پاس اتنی بڑی طاقت اور حوصلہ تھا کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ سکتے تھے سلیمان کی طاقت تو کجا ۔ یہ محمد بن قاسم کی سعادت مندی اور وفاداری کی واضح دلیل تھی جو بیڑ یوں اور آہنی زنجیروں میں جکڑے ہوے زنداں کی نذر ہو گئے۔
محمد بن قاسم کا یہ ذکر ضمناً نہیں بلکہ ان کے اس ذکر کے ساتھ بہت سے اہم تاریخی حقا ئق وا بستہ ہیں،جو موجودہ عالم اسلام کے بحرانی حالات کو وا کر سکتے ہیں،پہلی اور اہم حقیقت یہ ہے کہ محمد بن قاسم نے اپنی دور اندیشی اور فہم و فراست سے عا لم اسلام کو ایک بڑی خانہ جنگی سی بچایا؛کیو نکہ محمد بن قاسم اگر دفا عی صورت اختیار کرتے تو لا محالہ اس کے منفی اثرات عالم اسلام کے اوپر پڑتے، دو بڑی طاقتیں آپس میں ٹکراتی ،جس کے سبب عالم اسلام کا اتحاد منتشر ہوتا ،دشمن جو پہلے سے آستینوں میں چھپے بیٹھے تھے،وہ اس موقع سے فا ئدہ اٹھاکر عالم اسلام پر مسلط ہو جا تے یا اس کو کو تقسیم کر دیتے ،واقعہ یہ ہے محمد بن قاسم نے تحمل سے کام لیتے ہوے بے نفسی کی وہ مثال قا ئم کی جس نے ہا بیل اور حضرت عثمان غنیؓ کی سنت کو زندہ کر دیا ۔
در اصل ا سلام کی تاریخ میں ایسا کئی مرتبہ ہوا جب اسلامی غیرت و حمیت کے یہ گہر ہائے گرنمایہ ہم سے چھینے گئے اور ہمارے سینوں کو زخمی کیا گیاہمیں خون کے آنسو رلایا گیا حد تو یہ ہے کہ ابھی بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے کوئی ایسی آواز جو اسلامی غیرت سے بھری ہوئی ہو یا خلافت الٰہی کے حوالے سے کوئی کوشش کسی آواز میں شامل ہو گئی ہو تو یہ نشہ اقتدار کے متوالے اس کو چیل کوؤں کی طرح نو چ لیتے ہیں،اس میں کو ئی شک نہیں اسلام کو جتنا نقصان ہر دور میں ان میر صادق اور میر جعفروں سے پہنچا ہے اتنا شاید غیروں سے بھی نہ پہنچا ہو؛کیونکہ دشمن جب آستینو ں میں چھپ کر آتا ہے تو اس میں عقلوں کا بڑا امتحان ہو تا ہے، آج یہی میر و صادق کا کردا ر عا لم اسلام میں ایران ادا کر رہا ہے، کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے؛ لیکن ان تمام معرو ضا ت کی روشنی میں موجودہ دنیا اور خاص طورعالم اسلام کے حالات اور ان بحرانوں کا جا ئزہ لیا جائے جن سے یہ گذر رہا ہے تو ان تمام بحرانوں کے عقب میں حب جا ہ ، ملک گیری اور دوسری اہم بلکہ حقیقی وجہ یہ ہے کہ کچھ قومیں خصوصاً اہل ایران اور یہودی اپنے آپ کو مظلوم سمجھتی ہیں،جہاں تک بات یہود یوں کی ہے تو اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ آج دنیا میں مظلومیت کے نام پر وہ انسانوں کا خون صبح و شام پی رہے ہیں؛لیکن ان کی تشنگی ابھی نہیں بجھی خدا خیر کرے! البتہ اہل ایران کے حوالے سے تمام تر اختلاف کے با وجود ہم یہی کہیں گے کہ عالم اسلام میں آج جو کچھ ہو رہا ہے پا کستان، افغانستا ن، شام ،عراق اور سعو دی عر بیہ وغیرہ اس کے پیچھے یقیناًاہل ایران کی سازش صاف نظر آتی ہے، چو نکہ ان کے اوپر اس وقت ملک گیری کا جو عفریت سوار ہے ، اس کی وجہ سے ہر طرف ایک افرا تفری کا ما حول ہے جبکہ اس کشمکش سے ہر طرف ایک عجیب سی پریشانی اور بے چینی کا ماحول ہے ،بے گناہوں کی جا نیں جا رہی ہیں، آگ اور خون کے خوف ناک منظردیکھتے دیکھتے کلیجہ منہ کو آگیا غر ض داستان غم بڑی ہی عبرت ناک ہے ،ہر دن کی نئی صبح ہما رے لیے بدشگونی لیکر نمودار ہوتی ہے آخر کب تمام اسلامی ملک اس آ پسی چشمک سے ، اوپر اٹھ کر سر سے سر جو ڑ کربیٹھیں گے کب یہ رنجشیں ختم ہو ں گی، دنیا کہاں سے کہا ں ترقی کر کے پہنچ گئی،ہم جہاں سے چلے تھے آج بھی وہیں کھڑے ہیں بس زبانی اعتبار سے ہم کچھ ہی کہہ لیں اور خود ہی خوش ہو جا ئیں لیکن حقیقت وہی ہے جس کا ذکر ابھی ہوا،یہ ہمارے کھوکھلے دعوے ہیں جو ہر پسماندہ قو موں کی علامت ہیں خدارا ہم تمام اسلامی ملکو ں کے سر براہوں سے یہ درخواست کریں گے کہ وہ ملک گیر ی کی ہوس کو اپنے دل نکال سے دیں،یہ زمین اللہ کی ہے،اس کا مالک حقیقی وہی ، جب وہ چاہے گا تمہیں اپنی زمین سے نکالدیگا دنیا کے دوسرے بڑے ظالم اور جابر حکمراں ،فر عون ،ہا مان نمرود شداد سب ملک گیری کا مزہ ذلت و رسوائی کے ساتھ چکھ چکے ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا