English   /   Kannada   /   Nawayathi

تحریک آزادی میں علمائے کرام کا کردار

share with us

تاریخ شاہد ہے کہ جہاں ملک کی آزادی کا بنیادی تصور مدارس نے پیش کیا، وہیں ا نگریزی تسلط کے خاتمہ کی قیادت علمائے کرام نے کی، جن میں جنگ آزادی کے بانی شاہ ولی اللہ دہلوی، بدرالدین طیب جی، علمائے صادق پور، مولانا ضامن علی شہید،مولانا قاسم نانتویؒ ،شاہ عبدالغنی،مولوی احمداللہ مدراسی، مہندر پرتاب سنگھ ، حکیم اجمل خاں،مولانا برکت اللہ بھوپالی،بھگت سنگھ ، مولانا محمد علی جوہر، اشفاق اللہ خاں،بسمل، مولانا شوکت علی، سروجنی ئائیڈو، مولانا عبیداللہ سندھی، قاری عقیل الرحمن، مولانا ولایت علی، مولانا یحی عظیم آبادی، مولاناوحید احمدمدنی،مولانا عزیر گل پیشاوری،حکیم نصرت حسین،مفتی کفایت اللہ دہلوی،مولانا عبدالباری بدایونی، مولانا لیاقت علی،بیگم حضرت محل، سبھا س چندر بوس، مہاتما گاندھی،جواہر لال نہرو، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خاں، مولانا سید حسین احمد مدنی،مولانا رشید احمدگنگوہی، نشاط النساء بیگم ،سردار بلبھ بھائی پٹیل،راج گوپال اچاریہ،رفیع احمد قدوئی،جے پرکاش نرائن،خان عبدالغفار خاں(سرحدی گاندھی) وغیرہ نہ ہوتے تو جنگ آزادی کی صبح ہونے میں تاخیر ہوتی،اور جنگ آزادی کی تاریخ نامکمل رہ جاتی۔
تاریخ کے اوراق پلٹ یئے تو مرد مجاہد،شیر میسورسلطان ٹیپو ملیں گے، جن کا یہ قول آج بھی چار دانگ عالم میں مشہورہے،،’’ کہ گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے،ایک ورق اور پلٹئے تو مالٹا کی جیل میں تحریک ریشمی رومال کے بانی شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی(شیخ الھند ہی نے موہن داس کرم چند گاندھی کو مہاتما کا لقب دیا)ؒ نظر آئیں گے، انگریزوں نے ہرطرح کی سہولت پہونچانے کی لالچ دے کرجب اپنے حق میں ان سے فتوی چاہا، تو مولانا نے ان کی پیشکش ٹھکرانے کے ساتھ کہاکہ’’جوسر خداکے حضور میں جھکتا ہے وہ سر دنیا کے ذلیل کتوں کے سامنے کبھی نہیں جھک سکتا‘‘ایک صفحہ اور پلٹ یئے تو ۱۷۶۷ء میں شاہ ولی اللہ کے بڑے بیٹے شاہ عبدالعزیز نے انگریزی حکومت کے خلاف جہا د کا بیج ہی نہیں بویا بلکہ۱۷۷۲ء میں جہاد کا فتوی بھی دیا،ایک قدم اور آگے بڑھئے ، توجانباز، شہید وطن اشفاق اللہ خاں پھانسی کے پھندوں کو بخوشی چومتے ہوئے نظر آتے ہیں ، اس وقت موجود ہ لوگوں سے خدا حافظ کہتے ہوئے کہا کہ!
شہیدوں کی مزاروں پر لگے گے ہر برس میلے۔ وطن پر مٹنے والوں کایہی باقی نشاں ہوگا
بہت ہی جلد لوٹے گی غلامی کی یہ زنجیریں کسی دن دیکھنا یہ آزاد ہندوستاں ہوگا 
قائد انقلاب علامہ فضل حق خیرآبادی نے دہلی کی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد انگریز مظالم کے خلاف ایسی جامع تقریر کی جس سے جذبہ حریت کے ساتھ جذبات تازہ ہوگئے،اور نوے ہزار مسلمانوں کی سپاہ دہلی میں جمع ہوگئی، اور ہندی فوج نے آزادی کا نقارہ بجا دیا جس سے آگرہ ،دہلی،میرٹھ،شاہجہاں پور،اور لکھنؤ میدان جنگ میں بدل گئے، انگریزی حکومت بوکھلااٹھی، اور سامراجیت کے ایوانوں میں زلزلہ پیدا ہوگیا، اورانگریز دنگ رہ گیا کہ مسلمان سویا تھا کیسے جگ گیا، ملک کے اندر ہندو مسلم اتحاد ، اور عوامی بیداری کا جیسا شاندار نظارہ تحریک خلافت کے دوران ہوا ، اس کی کوئی دوسری مثال ہماری تاریخ میں نہیں ملتی،پھرسید احمد شہید رائے بریلوی کا جہاد، حسین احمد مدنی کا فتوی، کہ انگریزوں کی فوج میں بھرتی ہونا حرام، ۱۸۷۸ء میں انجمن ثمرۃ الترتیب،۱۹۰۹ ء میں جمعیۃ الانصار، ۱۹۱۳ء میں نظارۃ المعارف،۱۹۱۹ء میں جمعیۃ علماء ہند، ان سب تحریکوں کے نما یارول ، اور ان کی سرگرمیوں کو کو ن فراموش کرسکتا ہے،یہ سب انگریزی حکومت کے خلاف ایٹم بم کا کام ہی نہیں کیا،بلکہ برطاطوی اقتدار کو ہلا کر رکھ دیا،یہ سب بنیاد ہیں ہندوستان کی جنگ آزادی کا۔
تحریک آزادی مختلف مراحل سے گذری ،اور ہر موڑ پر ہر طرح سے ہم نے مادر وطن کے لئے قربانی پیش کی ہیں، اس آزاد ملک کے جس چپہ پردیکھیں گے، اور جس اینٹ کو اٹھائیں گے، وہاں ہمارے خون کی مہک ہمارے بزرگوں کے گرم گرم آنسوؤ ں کی نمی اور ہمارے جیالوں کے ولولے اور عزم و حوصلے ملیں گے۔
آخر وہ کون سی قربانی ہے جو ہمارے علمائے کرام نے نہیں دی،جب بھی مادر وطن کو ضرورت پڑی توہم شاملی کے میدان سے جزیرہ انڈمان میں نظر آئے،کبھی ہم ریشمی رومال کی شکل میں نظر آئے،کبھی ہم زندوں کے اندر رہ کرپوری قوم کو انگریزوں کے خلاف برسر پیکار کیا،کبھی ہم مادر وطن کی آزادی کے لئے لندن اور امریکہ کا سفر کیا،کبھی ہم نے خون کا دریا بہایا،کبھی ہم مشرق ومغرب میں مادر وطن کی وکالت کی،کبھی بالا کوٹ کی پہاڑی پر چڑھ کرانگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا،آزادی کی اس طویل ترین تاریخ میں ہماری بہنوں وعورتوں کو بے حرمت کیاگیا،املاک پر ڈاکہ زنی کی گئی، لاتعداد بچے یتیم ہوئے،بے شمار سہاگنوں کے سہاگ اجڑے، بستیاں ویران اور گاؤں بے چراغ ہوگئے،لاکھوں جانیں تلف ہوئیں،مالٹا کے زنداں خانوں میں بھی ہمارے صبر وضبط کا امتحان لیاگیا، پانی پت وشاملی کے میدانوں کو بھی ہم نے اپنے خون سے سیراب کیا، احمد نگر کے قید خانوں کو بھی ہم ہی نے اپنے عزم و حوصلوں کا نظارہ کرایا، بدنام زمانہ جیل ’’کالے پانی‘‘میں بھی ہم ہی نے سزائے قید کاٹی، جیل خانوں کے مصائب جھیلے،جلیانوالہ باغ کے خونی منظر سے بھی ہم گزرے ہیں،لاہور کی شاہی مسجد بھی ہماری قربانیوں کی شاہد ہے ،ایک ایک دن میں اسیّ اسیّ علمائے کرام کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکایاگیا،دہلی کے چاندنی چوک سے لیکرلاہور تک کھڑا کوئی ایسادرخت نہں تھا جس پر کسی نہ کسی عالم کی لاش لٹکی نہ ہو، ایک ہندو مصنف نے لکھا ہے کہ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں تقریباً پانچ لاکھ مسلمانوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایاگیا، گویاعلمائے کرام کی قربانیوں کو جتنا ذکر کیاجائے وہ کم ہے،برسوں کے خونی معرکوں،چمن کے سارے پھول وطن عزیز پر قربان ہو نے اور اور ا ن کے قائدانہ کردارکے نتیجہ میں فرنگی بھیڑیوں کے چنگل سے ملک آزاد ہوا۔ 
ایسے میں اردو کے بے باک اور فکر وفن کے صحافی کیسے پیچھے رہ سکتے تھے انھوں نے تحریک آزادی کی جدو جہد بڑھانے اور شمع آزادی کی لو کو تیزکرنے کے لئے اپنے ا خبارات وقف کردیئے،اور عوام کے دلوں میں زندگی کی ایسی شمعیں روشن کردی جو ظلم وستم کی تیز آندھیاں بھی اسے بجھانہ سکیں، ’’انقلاب زندہ باد‘‘،’’انگریز حکومت مردہ باد‘‘، جیسا نعرہ عوام کو دیا،’’ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے، ‘‘جیسا پرجوش نغمہ، اور’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ جیسا وطن کی محبت میں ڈوباہوا ترانہ سنایا، جس سے ملک کے درو دیوار گونج اٹھے، اور اتحاد یکجہتی کی ایسی مثال پیش کی جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔ اور بقول علامہ اقبال یہی اس ملک کی طاقت کا راز ہے! 
یونان ومصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزانے(جنکا دہلی میں واقع سرکاری مکان جوجنگ آزادی کا ہیڈ کوارٹر بھی تھا)کہاتھا کہ’’ یہ ملک ہمارا ہے، ہم اسی کے لئے ہیں،اور اس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے، مونا آزاد نے دہلی کی جامع مسجد سے قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ:اپنے اندر ایک بنیادی تدیلی پیدا کرو،اور تبدیلیوں کے ساتھ چلو،ستارے تو ٹوٹ گئے،لیکن سورج تو چمک رہا ہے،اس سے کرنیں مانگ لو،اور ان اندھیری راہوں میں بچھادو،جہاں اجالے کی سخت ضرور رت ہے۔
مولانا آزاد ہمیشہ ملک کی مستحکم تعمیر کے لئے قومی یکجہتی کی دعوت دیتے رہے، ان کا واضح موقف یہ تھا کہ’’ اگر آزادی نہ ملی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا،لیکن ہندومسلم اتحاد نہ رہا، تو یہ انسانیت کا نقصان ہوگا‘‘ مولانا کا معروف قول ہے کہ’’کہ اگر آج ایک فرشتہ قطب مینار پر اترکر یہ اعلان کرے کہ ہندوستان کو آزادی مل سکتی ہے، بشرطیکہ ہندوستان ہندومسلم اتحاد سے دست بردار ہوجائے،تو میں آزادی کے مقابلہ میں ہندومسلم اتحاد کو ترجیح دونگا،‘‘ 
ہندو مسلم اتحاد کے علمبرداربقول سرسیداحمد خاں کہ’’ ہندوستان ایک دلہن کی مانند ہے،ہندو اور مسلمان دونوں اس کی دو آنکھیں ہیں،ان میں سے اگر ایک آنکھ بھی خراب ہوجائے تو دلہن کی خوبصورتی غارت ہوجائے گی‘‘۔
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی (رحمۃاللہ علیہ) نے ایک موقع پر،قدآورشخصیتوں، اور ٹھاٹھیں مارتاہوا انسانی سمندر کومخاطب کرتے ہوئے اپنے ولولہ انگٰیز خطاب میں فرمایاتھاکہ ’’ہم اس ملک کے مالی اور چمن آرا ہیں، اس ملک کو سنوار نے میں اپنی پوری توانائی اور بہترین صلاحیتیں صرف کی ہیں،اسی صورت میں فطرت کا تقاضہ ہے کہ ہم اس ملک کو تاراج ہوتے، اس کا نقشہ بگڑتے،یا اس کاکوئی نقصان ہوتے گوارہ نہیں کرسکتے، خاک وطن کا ہر ذرہ ہم کو عزیز ہے، اس کی پوری تاریخ، اور یہاں کے آثار ومشاہدہماری عظمت پارینہ کاشاہد عدل ہیں،تاج محل کاحسن،قطب مینار کی بلندی،جامع مسجد شاہجہانی کا شکوہ وجلال،اور لال قلعہ کی سطوت وعظمت اس حقیقت کی شہادت دیتی ہیں کہ! ابھی اس راہ سے گذرا ہے کوئی کہے دیتی ہے شوخی نقش پاکی۔
حوالدار عبدالحمید کی حوصلہ مندی، انکی وفاداری نے دشمنوں کے ٹینکوں کے پراخچے اڑاکرجہاں نوجوانوں کوایک حوصلہ دیا وہیں ۱۰؍ ستمبر۱۹۶۵ء کی قربانی اور انکی شہادت نے یہ پیغام بھی دیا کہ’’جنگ ہتھیاروں سے نہیں بلکہ حوصلہ سے لڑی جاتی ہے،اور کارگل میں مادر وطن کے قومی پرچم کو لہراکروقار کو برقرار رکھنے والے کیپٹن حنیف الدین، ملک کو نیو کلیائی طاقت بنانے، وسائنسی پیش رفت کے ساتھ صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر اے ، پی جے عبدالکلام (مرحوم) کعبہ مقدس کا دروازہ کھول کر عالم اسلامیں ہندوستان کا سر فخرسے اونچاکرنے والے مفکر اسلام حضرت مولاناسید ابوالحسن علی حسنی ندوی(علی میاں) رحمۃ اللہ علیہ نظر آتے ہیں ،ان سچے محب وطن کی قربانیوں کو کو ن بھلاسکتا ہے؟تاریخ گواہ ہے کہ جس طرف جس طرح نظر اٹھاکر دیکھیں گے، ہر موڑ پر، ہرطرح ہم نے مادر وطن کی حفاظت اور قربانی پیش کرکے اس کی شان وشوکت میں اضافہ کیا ہے،کیا تاریخ ان عظیم کارناموں کو فراموش کرسکتی ہے۔
آزادی سے پہلے مجاہدین آزادی نے ایک سنہرا خواب دیکھاتھا، حب الوطنی کے جذبہ کو فروغ دینے کے ساتھ مساوات و خوشحالی پر مبنی ایسا سماج تعمیر ہوگا جہاں کسی کا استحصال نہ ہو گا،اقلیتوں کا ملی تشخص اور دستور حق محفوظ رہے گا،اور تعلیمی ، اقتصادی معاشی میدان میں کسی کے محتاج نہ ہوں گے، سلامتی وخوشحالی کی گنگا بہے گی، اور ہم اپنے ملک کے دستور اور قانو ن کی روشنی میں وطن عزیز کو آگے بڑھائیں گے۔
لیکن افسوس ہے کہ آج ہمارا ملک مختلف مسائل میں گھر ا ہوا ہے، ،قومی مسائل بے ثمار ہیں،تھمنے کے بجائے اس میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، عدم رواداری کی وجہ سے عوام میں بے چینی پائی جارہی ہے، ہرطرف بدامنی، خوف وہراس جیسا ماحول ہے،لوگ علاقائیت ،مذہب،مختلف ذاتوں، طبقوں، فرقوں میں تقسیم ہوتے جارہے ہیں۔ کسی شاعر نے سچ کہا ہے کہ!
اب کہیں بھی وفا نہیں باقی سچ ہے کہ سچی ادا نہیں باقی۔
خاص کر مسلمان جس نازک ترین دور سے گذر رہیں،جن خطرات وچیلنجوں سے نبرد آزما ہیں، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے، اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہرطرف کی فضامسلمانوں کی مخالف ہوگئی ہے، اور بے چارہ مسلمان اپنی بے بسی وبے گناہی کی دہائی دے رہا ہے، اوراپنے مذہب ، رواداری،حب الوطنی کا واسطہ دے رہا ہے،اور ایک چٹیل میدان میں بے بس ولاچارکھڑا ہوا ہے، اور چیخ رہا ہے کہ جینے کے لئے مجھے دوسرے کا رحم وکرم چاہئیے،اور زبان حال سے پکار رہاہے کہ کوئی ہے میرا ہاتھ تھامنے والا ہے جومجھے میری منزل تک پہونچادے۔
ہوئے شہید لہوکو لٹادیا ہم نے وطن کی خاک کو دلہن بنادیا ہم نے
ہرایک گل میں ہمارے لہو کی خوشبو ہے ابھی بھی پوچھ رہے ہیں کیادیا ہم نے
لیکن اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ خامیوں کی نشاندہی اور بے دلی وبے اطمینانی کے اظہار کا موقع بھی جمہوریت ہی عطاکرتی ہے،جمہوریت نہ ہوتی تو زبانیں مقفل ہوتیں اور دلوں میں آرزؤں اور تمناؤں کاشہر خموشاں دھڑکنوں کے سرتال کو بے توقیر بنادیتا،یہاں لسانی،ثقافتی اور تہذیبی کثرت کے باوجود ایک خوشنما وحدت نطر آتی ہے، ہمارا ملک نہ صرف گنگاجمنی تہذیب کا گہوارہ ہے ،بلکہ اس میں عوام کو برتری حاصل ہے،جس کے ذریعہ غلط وصحیح کی تمیز اور تمام فیصلے طے کئے جاتے ہیں، ہمارے ملک کا جمہوری قانون،امن وآشتی، پیار ومحبت ، گنگا جمنی تہذیب کا ضامن اورمساوات وسکولرزم کی حقیقی مثال ہے، جودیگر ملکوں کے جمہوری قوانین میں ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے ،یہ بھی جمہوریت کا فضل ہے کہ عوام کا کوئی طبقہ چاہے جتنا مختصرہواسے فریاد کرنے، اپنی بات کہنے اور اپنا حق لینے کے ساتھ ہی ہر ایک اپنے اپنے مذہب میں پوری طرح آزاد ہے،ہے،اور یہی آئین آزادی کا احساس ہر شخص کو ملک سے انتہائی وابستگی سے ہمکنار کرتا ہے۔
لہذا ہرقائدین ملک کی ذمہ داری ہے کہ بگڑے ہوئے حالات کو بہتربنانے کی طرف توجہ دلائیں،اور ایسی زندگی استوار کرنے کی طرف توجہ کریں، جس میں امن ہو، آپسی رواداری ، پیار ومحبت ہو،تاکہ صحیح انسانی معاشرہ قائم ہو،نفرت وکدورت کی خلیج کو پیار ومحبت سے بدلنے میں ہی ملک کی ترقی کاراز مضمر ہے۔ 
ہمیں سنجیدگی سے سوچناہوگا کہ جن مقاصد کے لئے برادران وطن، علماء کرام نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے آزادی حاصل کی تھی،انھیں حاصل کرنے کی سمت میں ہم اب تک کتنا کامیاب ہوئے ہیں، جس اتحاد اور قومی یکجہتی کے سہارے مجاہدین آزادی نے جنگ جیتی تھی، آج اسی اتحاد اور قومی یکجہتی کی ضرورت ہے، ایکتا کے بندھن کو مضبوط کرنے اور نفرت کی ہر کھائی کوپاٹنے کے ساتھ مساوات وخوشحالی پر مبنی ایسا سماج تعمیر ہو گا، جہاں کسی کا استحصال نہ ہو، قانون کی بالادستی قائم کرکے فرقہ پرستی کی بنیادوں کو ختم کرناہوگا،ترقی کی راہ میں رکاوٹ کی وجوہات کو معلوم کرناہوگا، عوام کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرناہوگا۔، شہیدوں کے خوابوں کو پورا کرنا ہی سچا خراج عقیدت ہوگا اور اپنا فرض صحیح طریقے سے نبھانا ہی ملک وعوام کی خدمت ہے۔
آئیے ہم مذہب ، وملت کے جھگڑے، اور ذات پات وبھید بھاؤ کی قید سے آزادہو کر ایک ساتھ چلیں ، فروعی مسائل میں نہ الجھ کر، اتحاد واتفاق کے راستے کو اپناتے ہوئے بیدار قوم کا ثبوت پیش کرکے ملک کی سا لمیت کو برقرار رکھنے میں ہم اپنا کردا ر نبھائیں،تاریخ شاہد ہے کہ آپسی اختلافات وتنازعات نے بڑی بڑی سلطنتوں و حکومتوں کو تباہ وبرباد کیا، اتحاد نام ہے،کامرانی، خوشحالی اور زندگی کا،جبکہ نفاق وشقاق نام ہے،تباہی، ناکامی، موت کا، ورنہ مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ جملہ کہ، ’’ لمحوں نے خطا کی تھی،صدیوں نے سزا پائی‘‘ اور آنے والی نسل ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی ،اور یہ سوال کرے گی کہ ’’ تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا 
مجھے رہزنوں سے گلا نہیں تیری رہبر ی کا سوال ہے
یوم جمہوریہ کایہ جشن ہم سب کو مبارک ہو،اور دعا کرتے ہیں کہ ملک میں امن وامان ، سلامتی وخوشحالی قائم ہو،ہمارا آنے والاکل ، گزرے ہوئے کل سے بہتر ہو،اورہرآنے والادن خوشی کا دن ہو۔ * * *

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا