English   /   Kannada   /   Nawayathi

دلت اور اقلیت شدت پسندوں کے نشانہ پر

share with us

دلت طالب علم کی خودکشی 
دلتوں کو ستائے جانے کا ایک سنگین واقعہ حیدرآباد کی سنٹرل یونیورسٹی میں پیش آیا جہاں ایک ہونہار طالب علم روہت وینولانے خود کشی کرلی۔ ہوا یہ کہ یعقوب میمن کی پھانسی پر دلت طلباء کی تنظیم ’’امبیدکر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن‘‘ نے احتجاج کیا۔اس پر سنگھی طلباء تنظیم اے بی وی پی کے جنگجو بھڑک اٹھے اور دلت طلباء سے جھگڑا کیا اورپھر مقامی بھاجپا ایم پی بنڈارو دتے تریا سے شکایت کی۔ انہوں نے ایک سخت نوٹ لگاکر مرکزی وزیراسمرتی ایرانی کو بھیج دیا کہ یونیورسٹی میں ہندتووا حامیوں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، اور ’انٹی نیشنل‘ دلتوں کا دبدبہ قائم ہوررہاہے ۔ایرانی کی وزارت نے پے درپے پانچ خط لکھ کریونیورسٹی پر کاروائی کا دباؤ بنایا۔ چنانچہ یونیورسٹی نے ضابطہ کی مکمل پیروی کئے بغیر روہت سمیت پانچ دلت طلباء کو معطل کردیا۔ ان کا وظیفہ روک دیا۔کیمپس میں داخلے اورکھانے پر پابندی لگا دی ۔ یہ سلسلہ جو اگست میں شروع ہوا تھا ، ابھی تک چل رہا ہے۔ان دلت طلباء کی کسی عرضی پرکسی نے کان نہیں دھرا ۔یہ پانچوں طالب علم زرعی مزدورگھروں سے ہیں ۔ ’’سب کاساتھ اور سب کا وکاس‘‘کا نعرہ لگانے والی سرکار ان کی بربادی کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ عاجز آکر آخر اتوار کی شام روہت نے انتہائی اقدام کرڈالا۔وہ ہیومن سائنسز میں ریسرچ اسکالر تھا ۔ آپ کو حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ ہندتووا کے نشے میں چوروزیر تعلیم اورمرکزی یونیورسٹی کے حکام نے ایک ہونہار دلت طالب علم کے ساتھ یہ روش اختیار کی۔ قصوراس کا صرف یہ تھاکہ جمہوری نظام کے تحت اس نے اپنی اختلافی آواز بلندکی تھی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ غریب اورناخواندہ دلتوں کے ساتھ ہندتووا کے علمبردارزوراْور کیا کچھ نہیں کرتے ہونگے۔طالب علم کی خودکشی کیس میں جوایف آئی آر پولیس نے درج کی ہے اس میں مقامی بھاجپا ایم پی اور مرکزی وزیر مسٹربنڈارو دتے تریا کا نام بھی شامل ہے ۔ کیونکہ وہ مودی سرکار میں وزیر ہیں، اس لئے بیخوف ہیں اورابھی تک استعفادینے کا ارادہ بھی نہیں کیا ہے۔
گائے کے نام پرتشدد 
اسی ہفتہ مدھیہ پردیش میں ٹرین میں ایک معمرمسلم جوڑے کے ساتھ گؤ رکشا کے نام پربنے ہوے شدت پسندوں کے کمانڈودستہ نے مارپیٹ کی۔ ان کا بیگ چھین لیا۔اس میں گائے کا گوشت ہونے کا شور مچایا۔ پولیس نے دوخاطیوں کو پکڑلیا تو اس دستے کے سرغنہ سریندرسنگھ راج پروہت نے ہردا کے ایس پی کو فون پر دھمکایا کہ اگر کسی ہندوکو گرفتار کیا گیا تو وہ سنہ 2013کی طرح پھر فساد کرادیگا۔اس کی دھمکی کا ٹیپ عام ہوگیا ہے۔ اس سنگٹھن کے ایک گرفتارملزم نے ضمانت پر رہائی کے بعد کہا کہ دھرم اورگائے کی رکشا ان کا فرض ہے۔ اس نے اعتراف کیا کہ وہ ٹرین میں داخل ہوکر تلاشی لی اور مسلم جوڑے کوہراساں کیا، لیکن یہ اصرار بھی کیا کہ انہوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیکر کوئی غلطی نہیں کی۔ واقعہ کی تفصیل اخبارات میں آچکی ہے۔ اصل چیز غورطلب یہ ہے کہ گائے اورہندتووا کے نام پر جس طرح کی ذہنیت پنپ رہی اس سے قانون کی عمل داری میں خلل بڑھتا جاتا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اقتدارجن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے ان کو اس کا احساس نہیں کہ ملک کو کس انارکی میں دھکیلا جارہا ہے؟مدھیہ پردیش میں اقلیت کو ستانے کا اکلوتا واقعہ نہیں ۔ ایک ٹی وی رپورٹ کے مطابق پوری ریاست میں دلوتوں اوراقلیتوں کا جینا حرام کردیا گیا ہے اورجگہ جگہ فرقہ ورانہ تشدد کے واقعات ہورہے ہیں۔ 
کشی نگرکی مسلم اقلیت 
اترپردیش میں ہرچند کہ سماجوادی سرکار ہے مگر ریاست بھر میں فرقہ ورانہ ماحول بگڑتا جارہا ہے۔ بعض علاقوں میں صورت حال سنگین ہے۔ گزشتہ ۶ دسمبر کو نئی دہلی میں مسلم مجلس مشاورت کی مرکزی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں بعض ارکان نے مشرقی یوپی کے ضلع کشی نگر کے دیہاتی علاقوں میں مسلم اقلیت کو درپیش سنگین مسائل اورپولیس کی جابنداری کے واقعات کی طرف توجہ دلائی تھی۔ چنانچہ اس وقت مشاورت کے قومی صدر ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں کی قیادت میں ایک وفد نے دسمبر میں ہی کشی نگر کا دوروزکا دورہ کیا اور کوئی ایک درجن گاؤوں میں جاکرصورتحال کا جائزہ لیا۔ اس وفد نے لکھنؤ واپس آکر یکم جنوری کو جو تفصیلات پریس کے سامنے بیان کیں وہ انتہائی تشویشناک اورچونکا دینے والی ہیں۔اس سے قبل نیشنل میڈیا میں یہ خبر آچکی تھی کہ اسی ضلع کے موضع مادھوپور میں کچھ مقامی زورآوروں نے مسلم اقلیت کی ایک آراضی پر جبری قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کو ڈرایا دھمکایا۔کشی نگر پہلے گورکھپورضلع کا حصہ تھا ۔ گورکھپور سے بھاجپا ایم پی آدتیہ ناتھ کی ہندویواواہنی کا یہاں کافی زور چلتا ہے۔ اسی کی شہ پر گاؤں مادھوپورمیں ہزاروں کی بھیڑجمع کی گئی۔ جس کے خوف سے گاؤ ں کے کوئی ڈیڑھ سونفر کی مختصر سی مسلم آبادی کو وہاں سے نکل بھاگنا پڑا تھا۔ 
مشاورت دورے کے بعدجو بیان جاری کیا وہ بعض جگہ شائع بھی ہوا۔ اس میں ٹیم کے مشاہدات مختصراً بیان کئے گئے ہیں۔ وفد میں مشاورت کے کل ہند جنرل سیکریٹری اوریوپی کی ریاستی مشاورت کے صدر پروفیسرمحمد سلیمان کے علاوہ مسٹرمحمد خالد، مولانا شہاب الدین مدنی، مسٹرارشد اعظمی، حافظ محمد یوسف، مفتی آصف انظرندوی، مولانا عبدالواحد مدنی اور مسٹر انوار صدیقی شامل تھے۔
کشی نگرآبادی کے اعتبار سے چھوٹا ضلع ہے۔ مگر بین اقوامی نقشے پر اہمیت رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مہاتما گوتم بدھ نے یہیں وفات پائی تھی۔ ایک وسیع رقبے میں کئی بودھ مندراوردیگرمقدس یادگاریں ہیں۔ کئی تاریخی مجسمے ہیں۔ قدیم خانقاہ کے آثار بھی ہیں ۔ اس اعتبارسے یہ ضلع عالمی امن اور بقائے باہم کا مرکز ہونا چاہئے۔ مگر آدتیہ ناتھ کی ہندویووا واہنی کی سرگرمیوں کی بدولت کمزوروں کی اذیت نگری بنا ہوا ہے۔ ضلع کی کل آبادی 36 لاکھ ہے جس میں مسلم آبادی کا تناسب چارفیصد سے زراسا زیادہ(17.4) فیصد ہے۔
مشاورت کا مشاہدہ ہے کہ ضلع بھر میں مسلم اقلیت کو مختلف طریقے سے ڈرایا، دھمکایا اورپریشان کیا جارہا ہے۔ مساجد کی تعمیر، توسیع اورمرمت کے کاموں میں رکاوٹ ڈالی جارہی ہے۔مسلم لڑکیوں کو اغواکرکے ان کی ہندؤں سے جبری شادی کرائی جارہی ہے۔ شکایت ملی ہے کہ یہ سب کچھ بھاجپا ایم پی، آدتیہ ناتھ کی ہندویووا واہنی اوردیگر جنگجو گروہوں کی شہ پرہورہا ہے۔ مقامی پولیس ان کے دباؤ میں ہے۔ مظلوموں کے بجائے ظالموں کی مددگار بن جاتی ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی گاؤوں میں لڑکیوں کواغواکر لیجانے اور ان عصمت دری کے کیس سامنے آئے ہیں۔ان میں بعض کی عمر12؍ سال کے آس پاس ہے۔ اکثر اغوا لڑکیوں کا کچھ اتا پتا نہیں چلتا ۔ بعض کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ کسی ہندو کے گھر میں ہیں۔جو لڑکیاں کسی طرح ان کے چنگل سے نکل کراپنے گھر واپس آنے میں کامیاب ہوگئیں ان سے معلوم ہوا کہ ان کویا تو بہلا پھسلا کر بھگا لیجایا گیا تھا یا جبراً اٹھا لیجایا گیا تھا۔ ان کوکسی دوردراز مندر میں لیجا کر جبری شدھی کرن کرایا گیا اور پھرکسی غیرمسلم سے ان کی مرضی کے بغیر شادی کردی گئی۔جولڑکیاں کسی طرح اپنے گھرلوٹ آئیں ان کوبھی ڈرایا دھمکایا جارہا ہے اور دوبارہ اغوا کی کوشش ہورہی ہے۔ جن چند لڑکیوں پولیس میں شکایات درج کرانے کی ہمت کی، ان کوبھی ڈرایا ،دھمکایا جارہا ہے۔ ان کے ورثا یا خود ان کے خلاف ایس سی، ایس ٹی اورغنڈہ ایکٹ کے تحت جھوٹے کیس درج کراکے مجبورکیا جاتا ہے کہ وہ اغوا اورعصمت دری کی وارداتوں کی شکایت واپس لے لیں۔ شکایت کی گئی کہ پولیس کا رویہ جانبدارانہ ہے اوروہ بھی دباؤ بناتی ہے۔
مشاورت کے مطابق دھمولی گاؤں کی اغواشدہ ایک ایسی ہی لڑکی کے والد محمد حنیف دھمکیوں اورگالیوں کی تاب نہ لاکرپولیس سی او کے دفتر میں ہی ڈھیر ہوگئے اورفوت ہوگئے۔ وفد نے موضع دھرمولی (تھانہ احاطہ)، موضع بزریا (تھانہ بشن پوری)، گرام مدھوپور (تھانہ بشن پورہ) وغیرہ میں ایسی کئی لڑکیوں سے بات کی جواب اس دہشت میں ہیں کہ نجانے غنڈے ان کو کب اٹھا لیجائیں۔
مساجد کا معاملہ
مشاورت نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ضلع کی پولیس اورانتظامیہ نے کوئی ایک درجن مقامات پرمساجد کی مرمت، توسیع یا اپنی ذاتی زمین پر مسجدبنانے سے روک دیا، حالانکہ مساجد کی تعمیر، مرمت اورتوسیع پر کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔ ان میں سب سے عجیب کیس تھانہ کسیا کے گاؤں اہرولی کا ہے۔ اس گاؤں میں ایک مسجد 1960 میں تعمیر ہوئی تھی مگر اب آبادی میں اضافہ کی وجہ سے ناکافی ہوگئی ہے۔ توسیع کی اجازت کے لئے کسیا کے ایس ڈی ایم کے نام عرضی پرگاؤں کے 110 ہندو باشندوں نے بھی دستخط کئے ہیں۔ وہ حکام سے بھی مل کے ہیں،لیکن مقامی پولیس اور انتظامیہ صرف اس لئے جازت نہ دینے پر بضد ہے کہ ہندویووا واہنی کا ایک باہو بلی نے،جو سات کلومیٹردوردوسرے گاؤں میں رہتا ہے، توسہع کے خلاف ہے۔ بہانہ یہ بنایا جارہا ہے کہ جس آراضی پر توسیع ہونی ہے اس میں ایک چھوٹا سا حصہ گڑھی (تالاب) کا ہے،جب کہ آراضی کے سرکاری رکارڈ کے مطابق یہ تالاب نہیں ،بلکہ صرف غیرہموار زمین (گڑھا) ہے۔ مقامی مسلم آبادی اس چھوٹے سے قطعہ کی قیمت ادا کرنے یا تبادلہ میں اس سے بھی بڑی جگہ دینے پر آمادہ ہے۔لیکن مقامی ایس ڈی ایم ہندؤوں اور مسلمانوں کی بات سننے تک کے لئے آمادہ نہیں۔ وفد کو بتایا گیا کہ مقامی آبادی میں کوئی کشیدگی نہیں۔ ہندو مسلمانون کے ساتھ ہیں۔اس سے قبل مقامی مسلم آبادی نے گاؤں میں مندرتعمیرمیں مدد کی تھی۔مشاورت کے وفد نے دگوان خورد کے جامع مسجد کا بھی معائنہ کیا۔اس میں زینہ بنانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے کہ نمازی چھت پر بھی نماز پڑھ سکیں۔ مقامی باشندوں نے ایس ڈی ایم کسیا کو کئی درخواستیں دیں اورموقع معاینہ کی بھی گزارش کی کہ خود دیکھ لیں کہ مسجد کے احاطہ سے باہر کوئی کام نہیں کیا جارہا ہے۔ لیکن ایس ڈی ایم صاحب سننے کو تیار ہی نہیں۔وفد نے گاؤں پروارپور (تھانہ رام کلا) کا بھی دورہ کیا۔ اس گاؤں میں ایک ہزار ہندو خاندان رہتے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کے گھر صر ف 47 ہیں۔ اس گاؤں میں 1990 کی تعمیرشدہ ایک مسجد ہے۔ بجرنگ دل اور ہندویوا واہنی کے عسکریت پسند دباؤ ڈال رہے ہیں مسجد کو گاؤ ں باہر منقل کیا جائے تاکہ اذان کی آواز سنائی نہ دے۔ دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر مسجد کو منتقل نہیں کیا گیا تو پوری مسلم آبادی کو ہی گاؤں سے نکال باہر کیا جائیگا۔یہ مسجد اس مکان کی جگہ پر قائم ہے جو ایک صاحب خیرمرحوم عیسیٰ محمد انصاری نے چوتھائی صدی قبل مسجد کے لئے دیدیا تھا۔اس مسجد کے اندر 2014کے اوائل میں ایک ستون کی تعمیرکو پولیس نے رکوادیا۔ پولیس اور مقامی انتظامیہ ابھی تک یہ نہیں بتا سکے کہ یہ مداخلت کیوں کی گئی؟
وفد نے گاؤں پپراجھام میں دیکھا کہ مسجد کی طرف جانے والی گلی کے نصف حصہ پرایک کمرہ بنالیا گیا ہے۔ مقامی مسلم باشندوں نے بتایا کہ یہ جگہ مسجدکی ہے۔یہ قبضہ گاؤں پردھان کی ملی بھگت سے ہواجس کو مقامی رکن اسمبلی برہما شنکر ترپاٹھی کی سرپرستی وتائید حاصل ہے جو یوپی کی موجودہ سرکار میں وزیر ہیں۔ وفد کو بتایا گیا ہے کہ جن مسلمانوں نے ناجائز قبضے پر اعتراض کیا ،ان کو مختلف طریقے سے ہراساں کیا گیا۔ پولیس ان کے گھروں میں گھس گئی۔ مردوں کو مارا پیٹا اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی۔ مقبوضہ جگہ پر تعمیر سے قبل پولیس نے 16 مسلمانوں کوحراست میں لے کر جیل بھجوادیا ۔اس گاؤں میں مسلمانوں کے صرف 25 گھر ہیں، جب کہ غیرمسلموں کے 750 خاندان آباد ہیں۔ 
فرقہ ورانہ تصادم
رپورٹ میں بتایا گیا ہے ضلع میں فرقہ ورانہ کشیدگی پھیلانے اورکمزوراقلیت کو ہراساں کرانے کے لئے کئی جگہ مقامی سطح کے فساد بھی کرائے گئے۔ اس کی تصدیق گاؤں مصرپٹی، دوباؤلی بازار، مدھوپور، کوتھانی (چھپن ٹولہ) اورمالوکاہی کے دورے کے دوران ہوئی۔ ان گاؤوں میں چھوٹے چھوٹے بہانے بناکر مسلمانوں کو عاجز کرنے، ان کو سبق سکھانے یا ان کی زمینوں پر قبضے کے لئے 2013 سے کئی ایک طرفہ فسادات کرائے گئے۔ بعض مقامات پر جیسے مولوکاہی اور مادھوپور میں مسلم باشندوں کو اپنی جان بچانے کے لئے گاؤں سے نکل بھاگنا پڑا تھا اوروہ کئی کئی ہفتہ بعد اپنے گھرواپس لوٹ سکے۔ ان کے خلاف جوابی مقدمے قائم کئے گئے تاکہ وہ دباؤ میں آکر اپنی شکایت واپس لے لیں۔ 
خلاصہ
اس دورے کے بعد یہ تحقیقاتی وفد اس نتیجہ پر پہنچا کہ کشی نگر ضلع میں مسلم بچیوں کے اغوا اور عصمت دری کی وارداتیں، مساجد کی توسیع ومرمت وغیرہ میں رکاوٹیں اور چھوٹے چھوٹے فسادات کا سلسلہ مقامی پولیس اور انتظامیہ کی عدم فرض شناسی، ملی بھگت اورتائید سے ہو رہا ہے۔مشاورت نے اس دورے کی روشنی میں یوپی سرکار کو متوجہ کیا ہے کہ وہ کشی نگر کی مسلم آبادی میں پولیس اورانتظامیہ کا اعتماد بحال کرنے کے لئے اقدامات کرے اورہدایت دے وہ فرقہ ورانہ غیرجانبداری سے قانون کے مطابق کام کریں۔ 
آخری بات:
کشی نگر کے کچھ کوائف قدرے تفصیل سے اس لئے لکھ دئے کہ ان کا ذریعہ اطلاع اطمینا ن بخش ہے۔ ورنہ گزشتہ چند دہائیوں سے صورتحال جس بگاڑ کی طرف ہے، اس میں حالیہ برسوں میں اورشدت آگئی ہے۔ یہ صورت حال صرف دلتوں اوراقلیتوں کے لئے ہی نہیں، ملک کے تمام امن پسند باشندوں کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ جب نئی نسل کا مزاج بگڑتا ہے پھر کچھ عرصہ بعد گھروالوں کو بھی نہیں چھوڑتی۔ قانون کی عملداری کی پامالی کا یہ سلسلہ ہمیں کہاں لیجاکر چھوڑے گا؟ سوچئے۔ کچھ سمجھ میں آجائے تو ہمیں بھی بتائے۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا