English   /   Kannada   /   Nawayathi

قاری، ناقد، فن اورفن کار

share with us

جس سے زندگی کے تمام شعبوں میں ایک کہرام مچا ہوا ہے اور ہر طرف اخلاقی، سماجی ، معاشرتی اور جمالیاتی قدروں کا شیرازہ بکھرا ہواہے۔ اس کے علاوہ افغانستان، عراق ،فلسطین، سیریا ، یمن وغیرہ ممالک میں نفسی نفسی کا عالم بپا ہے ۔بالخصوص ملتِ اسلامیہ کے لئے یہ سخت امتحان کا دور ہے ۔ہر ایک چہرہ پر مایوسی اور الجھن کے آثار نمایاں ہیں۔ان کیفیات میں انسان جینے کی آرزو میں مرتا ہوا دکھائی دے رہاہے ۔اس طرح زندگی کے ہر شعبہ میں اورہر طرف ایک خوف و ہراساں اور پریشانی کا ماحول پایا جاتاہے۔جس کی وجہ سے آج کا آدمی اتنا محتاط ہو گیاہے کہ وہ اپنے سایہ سے بھی گھبرا جاتا ہے۔شایداسی لیے اب اسے کسی چیز میں دلچسپی نہیں رہی ہے ۔اس کے علاوہ آج کے انسان کی ضرورتیں، مانگیں اور خواہشیں الگ اور مسائل جدا گانہ اور منفردانہ ہیں۔موبائل فو ن اورانٹرنیٹ کے ذریعے فیس بک ، واٹس اپ، ٹوئٹر وغیرہ پہ چاٹنگ وغیرہ نے لوگوں کو استعجاب و حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ایسے عالم میں زبان و ادب کی کیا وقعت ہو سکتی ہے یہ ایک بہت بڑا سوال ہے ۔میں یہاں صرف اردو نہیں بلکہ عالمی زبانوں اور ان کے ادب کی بات کر رہا ہوں۔جہاں اکثر بڑی زبانوں کے ادب اور ادیبوں کا حال ابترہو چکاہے ۔ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق بڑی سی بڑی زبانوں کے ادب کا مستقبل خطرے میں پڑ چکا ہے۔کیونکہ بہت سی عالمی زبانیں دم توڑتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ 
لہذاہماری زبان ا ور اس کے ادب کے سامنے بھی بڑے بڑے چیلنجس ہیں ۔اس کا تدارک کس طرح ہوسکتا ہے یہ ایک بہت ہی اہم اور سنجیدہ سوال ہے جسے ہر ایک اہلِ اردو کو سوچنا چاہیئے۔آج ہر ایک شاکی ہے کہ ہماری زبان کا مستقبل خطرے میں ہے ۔یہ مسئلہ ایک طویل بحث کا متقاضی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ایک سوال یہ بھی ہے کہ ایسے عالم میں ادب اور ادیب ، شاعر اور شاعری کو پوچھنے والا کون ہے ۔علاوہ ازیں اردو کے قاری کا باوا آدم ہی نرالا ہے کیونکہ ہمارے یہاں آج بہت سارے افراد ایسے ہیں جنہیں شاعری پسند ہے لیکن شاعر پسند نہیں ۔خصوصاًیہ اردو کے فن کاروں کا سانحہ اور المیہ عظیم ہے ۔کیونکہ اردو کے لوگ شاعری پسندکرتے ہیں ،ادب پسند کرتے ہیں، محفلوں اوراجلاس میں اشعار سناکرخوب دادِ تحسین حاصل کرتے ہیں اور وقت آنے پرپیٹ بھر کر شاعروں کو گا لیاں سناتے ہیں۔یعنی شعر و ادب کو پسند کرتے ہیں اور شاعر اور ادیب کو حقیر اور ذلیل سمجھتے ہیں ۔ 
سائنس اور ٹکنالوجی کے اس دور میں فن کارایک عجیب مخلوق کی مانندہے گویاوہ کسی تیسری دنیا کا رہنے والافرد یا ایک ایلین ہے۔ آپ کو کسی بڑی اور اجنبی تقریب میں شرکت کا اتفاق ہواہو ۔اس وقت کسی نے آپ کا تعارف کسی اجنبی سے بحیثیتِ شاعر کروادیا تو اکثر آپ کو حیرت سے دیکھیں گے ۔اس کے بر عکس اس کے ساتھ ساتھ اگر آپ کے بڑے عہدہ اور دولت مندی کا تذکرہ ہوجائے تو آپ کی خوب عزت افزائی اورخاطر تواضع اور بڑی پذیرائی کی جائے گی۔ اگر آپ بڑے عہدہ پر فائز نہیں ہیں اور ہاتھ یا بغل میں چوپڑی رکھ کر پھرنے کے قائل ہیں تولوگ آپ سے فرا رکی راہ اختیار کر لیں گے۔اسی لئے آج کے شاعر او ر ادیب کا Social status اور Economical reputation اچھا اور بلندہونابے حد ضروری ہے ورنہ سماج اور معاشرے میں ہی کیاخود ادبی حلقہ میں بھی اس کی کوئی وقعت ہوگی اور نہ ہی اس کی پذیرائی۔کیونکہ ادبی سلطنت پر آج بھی دولتمند اور اثر و رسوخ رکھنے والے فنکاروں کی اجارہ داری ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس کے فن میں اگر انفرادیت ہے تو یقیناًاسے شہرت بھی حاصل ہو گی اور اسے زندگی عطا کرے گی مگر اس وقت تک وہ ......
مناسب ہے کہ اب ذراماضی کی طرف لوٹ کر ادبِ عالیہ اور اساتذۂ ادب کا جائزہ لیا جائے۔ہمارے قدیم ادب کا ایک بڑا حصّہ شعری سرمایہ پر منحصر ہے۔ کئی صدیوں بعد نثری حصّہ وجود میں آیا۔ولیؔ سے لے کرمیر،ؔ میر دردؔ ، غالبؔ ،امیرؔ مینائی ، نظیر اکبر آبادی جیسے ان گنت شعرا ایسے گذرے ہیں جنہیں خود داری، قلندری اورفاقہ مستی عزیزتھی ۔کسی کے آگے وہ جھکنے کے لئے تیار نہیں تھے۔امیر مینائی نے یہا ں تک کہہ دیا تھا کہ
کسی رئیس کی محفل کا ذ کر کیا ہے امیرؔ 
خدا کے گھر بھی نہ جائیں گے بن بلائے ہوئے
اسی لیے نظیر اکبر آبادی نے شایدکبھی درباروں میں قدم رنجہ نہیں فرمایا۔حالانکہ ماضی کے بہت سارے اساتذۂ فن نے کوئی دولت مندی کی زندگی نہیں گذاری ، اکثرکسمپرسی میں مبتلا رہے،مگرخود دار ی اور فاقہ مستی میں بھی وہ مست اور مگن رہے کسی کے آگے دست دراز نہیں کیا۔زندگی بھر کٹیا کو ترستے رہ گئے ۔آج کاحقیقی اور سچّا شاعر بھی ماضی کے شعراء کی طرح خود داراور قلندرانہ صفت والاہے۔اسے کسی دولت کی پرواہ نہیں ہے۔وہ تو صرف ایک ’’ واہ ‘‘ یا ’’ آہ ‘‘ کا طالب ہے مگر آج کی یہ خود غرض دنیا اسے اس دولت سے بھی نہیں نوازتی ۔لیکن مرنے کے بعد اس کی خوب پذیرائی کی جاتی ہے۔بقول سید قمر الدین قمرؔ 
پھوس کی کٹیا کو ترسابعد مرنے کے مرے
آستانہ رات بھر میں کرگیا تعمیر کون
کے مصداق ان کے ناموں کی اکاڈمیاں اور چیئر قائم کی جاتی ہیں ۔اس پر ستم یہ کہ جب سے تنقید نے اپنا باب کھولا اور دامن پھیلایااور تنقید کے نام پر جو کھیل کھیلا جانے لگا اس کے بعدپورا ماحول اور نقشہ ہی بدل گیا۔فن تخلیق پا کر مارکیٹ میں آنے پر اس پر ٹھپّہ لگانا، روایتی ، کلاسیکی قرار دینا اوراپنے مخصوص حلقہ والوں کو اور ان کے فن کو نئے رجحانات سے جوڑنااور انہیں آسمانِ ادب پر بٹھاناوغیرہ ......اس طرح سچے اور حقیقی شاعر اور ادیب پردہ کے پیچھے رہ گئے ۔دولت مند اور اثر و رسوخ رکھنے والے تخلیق کار اور تنقید نگار پردے پر آگئے ۔درحقیقت تخلیق اور تنقید کا ساتھ چولی دامن کا ہوتا ہے ۔لیکن تنقید نگار ی کا کام تخلیقی عمل کے بعد ہی وجود میں آتا ہے ۔تنقید ، تخلیق کی محتاج ہوتی ہے ۔تخلیق ہی نہ ہوتو تنقید کہاں ؟ جب کوئی تخلیقی فن پارہ وجود میں آتا ہے تو اس پر لکھ کر تنقید نگار اپنا نام روشن کرلیتے ہیں۔مجھے تنقید سے بیر نہیں ہے،میں بھی ایک تنقید نگار ہوں ۔ تنقید کے فن سے واقف ہوں مگر تنقید کو تنقیص سے الگ رکھتا ہوں ۔ فن پارہ کوفن کی کسوٹی پر جانچنے کا عادی ہوں ۔ہما رے اکثر ناقدین آنکھیں بند کرکے فن پارہ کا فیصلہ کرتے ہیں اور دو چار تحریریں یا تخلیقات پڑھ کر یا منہ دیکھ کر فیصلہ سنادیتے ہیں۔جسے چاہے آسمانِ ادب کا سورج قرار دیتے ہیں اور جسے چاہے گہن لگا دیتے ہیں۔حقیقی معنوں میں فن پارہ میں پائے جانے والے محاسن اورمعیوب کی طرف نشاندہی کرکے فن کار کو سہی راہ پر گامزن کرنے کے بجائے فن پارہ میں صرف کیڑے نکال کر اپنا قد اونچا کرنے کے قائل ہوتے ہیں۔ ناقدین کو چاہیئے کہ وہ فن پارہ پر تنقیص کی بجائے تنقید کرے کیونکہ تنقیدادبی مشاطگی کا کام کرتی ہے۔ نام نہاد ناقدین ادب کے تعلق سے ہی شاید سکندر علی وجدؔ نے کہا تھا۔
حقیقت بین خذف ریزوں میں گہر ڈھونڈ لیتے ہیں
جو کچھ پا تے نہیں وہ عیب اکثر ڈھونڈ لیتے ہیں
کہیں عزت نہیں ہے عیب جوئی کرنے والوں کی
وہ آگے بڑھ نہیں سکتے قسم ہے باکمالوں کی
اس کے ساتھ ساتھ جب سے الیکٹرانک میڈیا نے جنم لیا ہے اورتب سے اردو کے فروغ کے لیے کم اور صرف ٹی وی پر دکھانے کے مشاعروں کا اہتمام ہو گیا ہے۔اس سے ایسے ہی شعرا ء کی وابستگی ہوئی ہے جو صرف مشاعروں کی شاعری کرتے ہیں ،جن کی آواز پیاری ہے وہ گلے پھاڑ پھاڑ کر گا رہے ہیں اورگا گا کر اپنی دکان چمکا رہے ہیں۔غزل جیسی نازک ترین صنف جس میں نغمگی ، شیرینی اور لطافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اسے سنا نے کے لیے پوری طاقت اور زور لگانے پر آمادہ ہیں۔ایسے شعراء جومشاعروں میں داد تحسین لوٹ رہے ہیں اور ہر جگہ مزے اڑا رہے ہیں ان کا ادب میں کیا مقام ہو گا وہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔اس کے علاوہ یہاں بھی مخصوص شعرا ء کاحلقہ ہے اورہر جگہ انہیں کا طوطی ہی نہیں بلکہ طوطا بھی بول رہا ہے ۔ہر ایک آل انڈیا مشاعرہ میں بار بار وہی صورتیں دکھائی دیتی ہیں۔ان مشاعروں میں ایک آدھ اچھی شاعری بھی کبھی کبھی سننے کو مل جاتی ہے اور یہی ہمارے لیے کافی بھی ہے۔
آج کل ادبی دنیا کی یہ صورتِ حال ہے ۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ ادبی تاریخ کی کتابیں اٹھاکر دیکھ لیجئے پتہ چلے گا کہ ادب میں وہی شاعر اورادیب زندہ ہیں جوحقیقی ، فطری ،سنجیدہ ،اچھے اورسچے تخلیق کار ہیں۔کیونکہ شاعر وہ شخص ہوتا ہے جسے الہامی باتوں کا علم ہوتا ہے،وہ سماج کا بہترین نبّاض ہوتا ہے،سماج اور معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات و کیفیات کا علم رکھتا ہے،وہ ان سے نبرد آزما ہوکر اپنے تفکرات و تصورات کو عملی جامہ پہناتا ہے۔اسی لئے کنڑا میں کہا جاتا ہے ۔’’روی کانَدّو کوی کنڈا‘‘ یعنی جوسورج نہیں دیکھتا وہ شاعر دیکھتاہے ۔ اسی لئے علامہ اقبالؔ نے شاعر کو دیدۂ بینائے قوم سے تعبیر کیا ہے۔

قوم گویا جسم ہے ، ا فراد ہیں اعضائے قوم 

منزلِ صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم


محفلِ نظمِ حکومت ، چہرۂ زیبائے قوم

شاعرِ رنگیں نوا ہے دیدۂ بینائے قوم


مبتلائے درد کو ئی عضو ہو ، روتی ہے آنکھ

کس قدرہمدردسارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

آج اردو کے فن کاروں کے سامنے کئی مسائل ہیں۔جسے اردو کا ہر فن کار جانتا ہے اسے میں دہرا کر آپ کا اور میرا وقت برباد کرنا نہیں چاہتا ۔لیکن اس ضمن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ سب سے اہم مسئلہ ادب کے قاری کا ہے۔کیونکہ آج سنجیدہ قاری چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا ۔
کیا کبھی ہمارے فنکاروں نے سوچا ہے کہ ادب میں کونسی تبدیلی لائی جائی سکتی ہے اور قاری کو کس طرح ادب کی طرف مائل کیا جا سکتا ہے۔ آج کا قاری کیا چاہتا ہے۔اس کی دلچسی کے سامان کیا ہیں،وہ کس طرح کے ادب کا قائل ہے۔ کیسی غزل چاہتا ہے ،کیساافسانہ پسند کرتا ہے،رباعی میں کونسے اخلاقی ، اصلاحی اور مذہبی پہلو پسند ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ فن کاراپنے فن اور اپنی دھن میں مست اور مگن ہے۔اسے قاری کی دلچسپی ،اس کی پسنداور نا پسند کا مطلق خیال نہیں۔ذہن و دل میں امڈنے والے واقعات و کیفیات کو لفظی جامہ پہنا رہاہے اور اسے قاری کے سامنے پیش کررہا ہے۔یعنی وہی ہوا، جو غذاپسند نہیں وہ اسے دی جارہی ہے۔ایسی حالت میں وہ بمشکل دو چار لقمے کھا لے گا اورممکن ہے کھانے کے بعداس کی طبیعت متلائے گی اوروہ اسے اگل دے گا۔
آج کے فن کار کو اس بات کی بھی فکر نہیں ہے کہ اسے کون پڑھے گا اور اسے کون یاد رکھے گا ۔مگر وہ اپنی دھن میں لکھتا جا رہا ہے ۔آج کے فن کار کو چاہیئے کہ دورِ حاضر میں رونما ہونے والے زندگی کے واقعات و کیفیات سے ادب میں ہم آہنگی پیدا کرے۔ اس لئے کہ ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے،زندگی کی تعبیر و تفسیر کا نام ادب ہے۔ادب کا محور و مرکز انسان اور حیاتِ انسانی ہے۔ادب خلاء میں پیدا نہیں ہوتا ۔ اب جبکہ زندگی کا روایتی توازن یکسر بدلتا جارہا ہے تو ادب میں بھی مثبت تبدیلیاں رونما ہونی چاہئے۔ اس لئے وہی ادب اپنا وجود قائم رکھ سکتا ہے جو وسعتوں کا حامل ہو، قوتِ معقولیت پسندی پر مبنی فروغ انسانی کے توسط سے مماثلت رکھتا ہو اور تحقیقات کو خوشنما رنگوں میں بآ سانی رنگ جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
جہاں تک شعرا و ادباء کے افکار و نظریات کی عصری معنویت کاسوال ہے تو آج کی شعری و نثری تخلیقات میں وہ علمی اور فکری سرمایہ کا فقدان پایا جاتاہے ۔ایسا ادب چاہیئے جس کی مدد سے عہدِ جدید میں قاری کو ذہنی سکون حاصل ہو سکے اور اس قوت کو اپنی گرفت میں لاسکے جس کے ذریعہ اپنی فکری و نظری پسماندگی اور بے بسی کا ازالہ کرسکے۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے ہم عصر شعرا و ادباء عہدِ حاضرہ کی عکاسی کرنے ، فن پاروں کی قدر و قیمت اور اس کی معنویت کا تعین کرنے، فن کی تشنہ لبی کو سیراب کرنے اور بدلتے رجحانات ، عام میلانات اور ان کے اسباب کو دریافت کرنے کی بجائے اپنے نام و نمود اور شہرت و دولت کے پیچھے پڑ چکے ہیں ۔ان حالات میں بھی بہت سے فن کار اپنی تخلیقات کے ذریعہ وہ فرحت بخش ادب پیش کر رہے ہیں جس میں زندگی کی دھڑکنیں صاف سنائی دیتی ہیں لیکن یہ تشفی بخش نہیں ہے۔
ہمارے ادب میں ہمیں زندگی کا رونا،رونے کی ضرورت نہیں ہے، ہجر و وصال اور انتظار کی کیفیت بیان نہیں کرنی ہے،حسن و عشق کا بیان نہیں چاہیئے، آج پنچ تنتر اور کلیلہ دمنہ کی قیاسی اور خیالی کہانیاں نہیں چاہیئے ۔لیلیٰ مجنوں، حاتم طائی کے علاوہ راجا مہاراجاؤں اور جنات کے قصّے آج پرانے ہو چکے ہیں۔ ہمارے سامنے کئی مسائل ، معاملات ہیں اورکئی موضوعات ہیں۔اس لئے جدید اور سلگتے ہوئے سماجی، سیاسی، معاشی ، اقتصادی ،اخلاقی اور تہذیبی وغیرہ مسائل اور بے روز گاری ،قومی یکجہتی ،یگانگت اور بھائی چارگی،مسئلکی خلفشاریاں، عورتوں پر ہونے والے مظالم ، سیاسی رسا کشی کے علاوہ گھر واپسی ، بیٹی بچاؤ، بہو لاؤ ، چار بچے پیدا کرو جیسے معاملات پرغور و خوص کرنا ہے اور ان کے تدارک کے لیے کیا اقدام ہو سکتے ہیں انہیں پیش کرتے ہوئے قاری کو اصلاحی اور اخلاقی تعلیم دینی ہے۔آج کے بچّوں،نوجوانوں،عورتوں کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے ان کی ضرورتوں اور فرمائشوں کو پوراکرنا ہے اور زندگی کے مثبت پہلو ؤں کو اجاگر کرنا ہے ۔ جن کے ذریعہ موجودہ نسل کی ذہنی تربیت ہو سکے اوروہ بے رہ روی سے باز آ سکے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا