English   /   Kannada   /   Nawayathi

اشتہار بازی

share with us

لیکن اس پر بڑا خرچ آتا ہے اور جس کی قیمت عوام مختلف صورتوں میں چکاتی ہے.....مادیت پرستی اور صارفیت کے اس دور میں اشتہار بازی کے بغیر تجارت میں مسابقت محال ہے، جیسے بغیر دولت کے کوئی جمہوریت میں الکشن لڑنے کے متعلق سوچے.... آجکل بغیر سرمایہ کاری کے ڈاکو بینک لوٹنے کا خواب بھی نہیں دیکھتے... عالمی تجارتی گھرانے اور برانڈز اربوں کا داؤ اشتہار بازی پر لگاتے ہیں، اور جو صارفیت کی آگ کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ، اور جس سے تہذیب جدیدہ میں سیاست، معیشت، تجارت، اور روزگار کے چرخے چلتے ہیں...تشہیر جاری رہتی ہے، اشتہار بازی پر داؤ لگتے رہتے ہیں اور صارفین ترجیحات بدلتے رہتے ہیں...حیرت تب ہوتی ہے جب معاشیاتی تنزلی کا شکار کسی ترقی یافتہ ملک کا مقتدر اعلی روزگار کی فراہمی کا یقین دلانے کے لئے صارفیت پر زور دیتا ہے .....اور کھاوپیو اور خوب اسراف کرو کا اعلان کرتا ہے، اور یہ بھول جاتا ہے کہ اسکے اکثر مخاطب پڑھے لکھے بے روزگار ہیں!! ...یعنی اچھے خاصے پڑھے لکھے حضرات کو وہی پرانی کشمکش میں مبتلا کر چھوڑ دیا جاتاہے کہ انڈا پہلے یا مرغی ..البتہ پڑھے لکھے اپنی آئی کیو سے بینک قرضہ میں اس کشمکش کا حل تلاش کر لیتے ہیں ..جو اشتہار بازی کے کھیل کا ہی ایک حصہ ہے ...تشہیر کا یہ سلسلہ بھی جمہوریت میں سیاست اور سرمایہ داری کے اٹوٹ رشتوں کی عکاسی کرتا ہے ....الغرض سرمایہ کاری کے بغیر تہذیب جدیدہ میں کسی قسم کی لڑائی لڑنا غیر ممکن ہے، پھر لڑائی سیاست کی ہو یا غنڈہ گردی کی ، تشدد سے ہو یا عدم تشدد سے .... بلکہ عشق لڑانا بھی سرمایہ کے بغیر غیر ممکن واقع ہوا ہے ، یہ تو صرف انہیں حضرات سے ممکن ہے جو راہ عشق کے بے لوث خدام ہوتے ہیں، ان میں ثقہ اہل فکر و قلم، اہل خبر و نظر و نشر اور مصلح حضرات ہوتے ہیں جو اشتہار بازی سے مبرا ہوتے ہیں ، اور جو بغیر سرمایہ کے حق کی لڑائی لڑ سکتے ہیں ...اور لڑتے آئے ہیں....

معاشرے میں تشہیر اور اشتہار بازی کے اپنے رنگ ڈھنگ ہیں....اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تہذیب و تمدن کے ہر دور میں اشتہار کی اپنی اہمیت رہی ہے .. گرچہ ہر دور میں اور ہر خطے میں اسکی نوعیت اور غرض و غایت مختلف رہی ہے... جس میں سرکاری، قانونی اور جنگی اعلانات سے لے کر شادی بیاہ، رسم و رواج اور تہواروں کے بگل بجانے تک سب کچھ شامل ہوتا رہا ہے ..... "ڈھول پیٹنا" کون نہیں جانتا ! دوسرے لفظوں میں خبردار کرنا یا اطلاع دینا ، مدعو کرنا یا کسی کو مشہور، بدنام یا رسوا کرنا اشتہار بازی کا حصہ رہا ہے...اس کے علاوہ طشت از بام.....اشتہار بازی کی بد ترین مثال دلہن کے جہیز میں دیکھنے ملتی ہے، جو تشہیر اور صارفیت بلکہ اسراف کی بھونڈی مثال پیش کرتی ہے ، اور جسے دیکھ کر دولہے کی قیمت فروخت کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے..... لیکن اس اشتہار بازی میں خوبی یہ ہے کہ بکاؤ مال بعد میں خود خریدار بنا دیا جاتا ہے اور خریدار بکاؤ مال...کچھ عجب نہیں کے اشتہار بازی کے جدید ماہرین اس حکمت عملی کو مستقبل میں روبوٹ کی خرید و فروخت میں آزمائیں... اشتہار بازی کے چند بنیادی ضوابط ہیں.. یہاں "اصول و ضوابط" کی اصطلاح پیش کرنا معیوب محسوس ہوتا ہے کیونکہ اشتہار بازی کےکوئی خاص اصول نہیں ہوتے، اور اخلاقی اصول تو نا ہونے کے برابر ہوتے ہیں..رہے آداب تو، جب اخلاق نہ ہونگے تو آداب کیا ہونگے ....الغرض معاشرے میں اشتہار بازی کی اہمیت اس لئے زیادہ ہوگئی ہے کہ یہ دور مقابلہ بازی کا دور ہے، ہر کوئی ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتا ہے، ہر کوئی تیز دوڑنا چاہتا ہے... اور اسقدر منفعل ہوجاتا ہے کہ دوڑتے ہوئے اس بات کا تیقن بھی کرتا جاتا ہے کہ دوسرے کو راستہ بھی نہیں دینا ہے، بلکہ راستہ روکنا بھی ہے...بلکل اسی طرح جس طرح مشرق وسطی اور بر صغیر میں لوگ کار چلانے کے اصول و آداب سے اغماض برتتے ہیں اور منفعل ہو کر کاریں دوڑاتے ہیں...یا ادب میں تنقیص نگارمستعار کو نقد بتاتے ہیں...

تجارت میں اشتہار بازی کے جنوں کی بات کریں تو جسقدر صارفین کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے اتنی ہی زیادہ اشیاء فروخت ہوتی ہے اور اتنی ہی زیادہ پیداوار بھی...اور پھر اتنی ہی زیادہ خرید اور پھر فروخت ....اس تسلسل کو قائم و دائم رکھنا ہی اشتہار بازی کا واحد مقصد نہیں ہوتا بلکہ مصنوعات کی خرید و فروخت، پیداوار اور صارفین کی گنتی میں مسلسل اضافہ کرنا اصل مقصد ہوتا ہے.....ماہر اقتصادیات بڑھتی آبادی کا لاکھ رونا روتے ہوں لیکن جب مصنوعات کی مارکیٹنگ کے گوشوارے بناتے ہیں اور خرید و فروخت کا تخمینہ لگاتے ہیں تو اس شعر کو یاد کر خوش بھی ہوتے ہیں کہ ...یہ کائینات ابھی نا تمام ہے شاید... کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں ... جو تجارت مذکورہ اضافہ کے ان اصولوں کو نہیں اپناتی، یا نہیں اپنا پاتی اور ترقی کا سفر طے نہیں کرسکتی اسے تجارت میں زوال سے تعبیر کر دیا جاتا ہے....مصنوعات، برانڈز اور کمپنیوں کی صحت اور زندگی و موت کا پتا اشتہار بازی کے داؤ سے لگایا جاتا ہے....سرمایہ اور آمدنی، نقصان اور منافع یہ تو موجودہ دور میں ایسے ہی طے شدہ ہوتا ہے جیسے غزل میں ردیف و قافیہ.... جدید تجارت میں سرمایہ اور منافع کے علاوہ سب کچھ آوردن ہوتا ہے .....جدید تجارت میں اشتہار بازی "مارکیٹنگ" یعنی خرید و فروخت کے شعبے کا اہم حصہ ہے، اور جدید تجارت میں ساری مقابلہ بازی یا لڑائی یا کھیل مارکیٹنگ پر منحصر ہوتی ہے.... اس مادیت پرست اور صارفیت پر منحصر معاشرے میں بغیر مارکیٹنگ کے نہ ہی سوداگر پارس اور نہ ہی کیمیا گر اپنی کیمیا فروخت کر سکتا ہے..... اور اسکی سب سے اہم وجہ ہے بے قابو اور بے اصول مقابلہ بازی اور اشتہار بازی .... جو اول حریفانہ اور بالآخر حریصانہ تصادم پر جا کر ختم ہوجاتی ہے .....اس لئے تہذیب جدیدہ میں جاری اشتہار بازی فی الحقیقت دو جھوٹ کے درمیان مقابلہ بازی کا نام ہے ...
ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر ممالک، دور جدید میں سب کے پاس بے شمار ایجادات ہوتی ہیں لیکن انہیں فروخت کرنے کے لئے ایسے ذہین و فطین لوگ درکار ہوتے ہیں جو ایجادات کو ضرورت کی ماں ثابت کرنے کا فن جانتے ہوں... یہی تجارت جدیدہ کا وہ تاریک پہلو ہے جس کی وجہ سے تہذیب جدیدہ روشن نظر آتی ہے.... تجارت جدیدہ میں اشتہار بازی نے جو گل کھلائے ہیں اور مادیت پرستی اور صارفیت کے جنون میں ہر ایک کو جس طرح مبتلا کر دیا ہے، اسکی زندہ مثال ذرائع ابلاغ میں صاف نظر آتی ہے...موجودہ دور میں اکثر تشہیر جھوٹ پر قائم ہوتی ہے یا پھر ایسے سچ پر جو جھوٹ پر قائم ہو....یہیں سے اشتہار بازی کا آغاز ہوتا ہے .. .. صارف کے ذہن کو غلط طریقوں سے متاثر کیا جاتا ہے، بھلے ہی اس کے لئے حریف مصنوعات کی کھل کر یا ڈھکے چھپے الفاظ میں برائیاں کرنا ضروری ہو..یا آزادیء نسواں کے نام پر نسوانیت کو تار تار کرنا ، یا بے سر و پا عقاید کو مصنوعات کی گھوڑی پر سوار کر جشن منانا ...یا مصنوعات کو مقوی ، قابل اعتماد یا دیرپا ثابت کرنے کے لئے کہیں معصوم بچپن کا تو کہیں بے چین جوانی کا اور کہیں بے بس بڑھاپے کا استعمال کرنا ....یا سامان تعیش کو بنیادیضرورت ثابت کرنے کے لئے قسطوں پر زندگی گزارنے کو صحیح ثابت کرنا ....تجارت میں مارکیٹنگ کا یہی طرز فکر و عمل اب جمہوری سیاست میں متعارف کرا دیا گیا ہے .... اور ان سب کا سہرا دانشواران مغرب کے سر جاتا ہے...انکے سر تو اور بھی بہت کچھ جاتا ہے، جو مشرق میں لکھایا اور پڑھا یا نہیں جاتا ، بہرحال یہ سہرا انکے سر سجتا بہت ہے...... کیونکہ تجارت و سیاست کے ایسے تمام طرز فکر و عمل کو اپنانے سے پہلے انہوں نے اسکی مکمل تعریف لکھی ہوئی ہوتی ہے، یا اس کی تشہیر کردی ہوتی ہے، تاکہ کسی کو کوئی مغالطہ نہ رہے....اور بقول انکے یہی کام انکی کامیابی کا راز ہے جو اہل مشرق نہیں کرپاتے ... مثلا، جب اہل مغرب نے اشتہار بازی میں کمال حاصل کر لیا تو برہنگی اور بے حیا ئی کے ساتھ ساتھ جنسیات کی نئی تعریف لکھ دی، شرم و حیا کے معنی بدل دئے... اور اسی کی مطابقت سے قوانین میں بھی تبدیلی بھی لے آئے.... تعلیم اور تربیت میں اسکے اسباق رقم کر دئے، بلکہ ذہن اور شخصیت سازی میں اسے شامل کردیا....بس پھر عوام نے اسے قبولیابی بخشی اور ذرائع ابلاغ نے اسے عروج بخشا... اور جمہوریت کا ٹھپہ لگنے کے بعد تو مانو اسے آئین کی حیثیت حاصل ہوگئی ... بلکہ خود انکے اپنے اقوال زریں کے مطابق یہ آئین انکے لئے انکی بائیبل سے زیادہ قابل اعتبار ہوگیا .... الغرض جب مغرب کا اجتماعی ضمیر مردہ ہوتا گیا تو انہوں نے ضمیر کی نئی تعریف لکھ دی ....البتہ دانشواران مشرق کسی وجہ سے اجتماعی ضمیر کے دبا و سے نکل نہ سکے ، اہل مغرب کی تقلید میں سب کچھ کیا لیکن اخلاقیات کی تعریف میں رد و بدل نہ کرسکے....وہ اہل مغرب کی تقلید میں لاکھ تصویر و تشہیر کے پردے میں عریاں ہوتے چلے گئے، لیکن بے حیا ئی کو اب تک کوئی نیا نام نہ دے سکے ... اسکی تعریف نہیں بدل سکے ...اس ضمن میں اہل مغرب کو شرم آتی ہے ان پر کہ یہ اب تک شرماتے ہیں.... مشرق میں بے حیائی آج بھی بے حیائی کہلاتی ہے... اور مغرب کی طرح "فٹنس" کے کسی اشتہار میں کوئی دوشیزہ یہ کہتے نہیں دکھا ئی جاتی کہ ، اسے بہت شرم آتی ہے جب وہ اپنے فربہ جسم کی وجہ سے لوگوں کے سامنے عریاں نہیں ہوپاتی... عجب نہیں کہ مشرق جو اب مغرب کی تقلید میں اسقدر اندھا ہورہا ہے، اشتہار بازی میں بازی مار لے ، اخلاقیات کے نئے اصول مرتب کردے ..... اشتہار بازی کے نئے ضابطہ تخلیق کردے اور تشہیر کی نئی تعریف لکھ دے ... ایسی تعریف کہ آخر کار مغرب کو بھی شرم آ جائے!!!

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا