English   /   Kannada   /   Nawayathi

سرخیوں میں سنبھل......

share with us

پہلی جنگ میں پرتھوی راج کو کامیابی ملی لیکن دوسری جنگ سید سالار کے حق میں رہی پرتھوی راج کو سنبھل چھوڑ کر بھاگنا پڑا ۔سید سالار کی یاد میں آج بھی ہر سال یہاں نیزے کا میلہ لگتا ہے ۔
دہلی کے پہلے مسلم بادشاہ قطب الدین ایبک نے بھی سنبھل کو اپنی حکومت میں شامل رکھا ۔ 14ویں صدی کے شروع میں فیروز شاہ تغلق نے سنبھل پر حملہ کیا تھا کیونکہ یہاں کے راجاؤں نے بغاوت کر اس کے کچھ فوجیوں کا قتل کردیا تھا تغلق نے باغیوں کا خاتمہ کر پھر سے اپنی حکومت کو بحال کر دیا ۔دہلی کی سرکار جب بھی کمزور ہوئی یا کسی اتھل پتھل کی شکار تو سنبھل میں بغاوت ہو جاتی تھی ۔غیا ث الدین بلبن کو بھی بغاوت دبانے کے لئے یہاں آنا پڑا تھا ۔15ویں صدی بی سی میں لودھی سلطنت کے دوسرے حکمراں سکندر لودھی نے سنبھل کو اپنی وسیع حکومت کا ایک دارالحکومت بنایا تھا ۔چار سال تک یہ لودھی سلطنت کی راجدھانی رہا ۔لودھی حکومت کے خاتمہ کے بعد سنبھل مغلوں کی حکومت کا حصہ بن گیا ۔ بابر کو یہ جگہ اپنے دارالحکومت کے لئے مناسب معلوم ہوتی تھی لیکن سیاسی وجوہات سے دہلی و آگرہ کو انہوں نے اپنی حکومت کا مرکز بنایا ۔بابر نے اپنے دور کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد بھی یہیں رکھا ۔جسے بعد میں اس کے بیٹے اور سنبھل کے گورنر ہمایوں نے مکمل کرایا تھا ۔

لودھی دور حکومت میں اودھی ، برج اور بھوج پوری زبانوں نے خوب ترقی کی حکومت کی زبان اودھی تھی لیکن مقامی زبانوں کو پھلنے پھولنے کے تمام مواقع حاصل تھے ۔ مغل اپنے ساتھ فارسی زبان و تہذیب لے کر آئے انہوں نے فارسی کو سرکاری کا م کاج کی زبان بنایا اور حکومت کی جانب سے اسے فروغ دیا ۔اودھی کا چونکہ اپنا کوئی رسم الخط نہیں تھا اس لئے وہ دھیرے دھیرے بول چال تک محدود ہو کر رہ گئی ۔بابر کے ساتھ ترک فوج بھی بڑی تعداد میں آئی تھی سنبھل میں ترکوں کی بستی اس کی نشانی ہے ۔ہمایوں کے بعد سنبھل اکبر کی ملکیت میں شامل رہا ۔اکبر کے زمانے میں اس شہر نے بہت ترقی کی ۔ اکبر کے نو رتنوں میں سے ایک ابولفضل فیضی کا تعلق یہیں سے تھا ۔اکبر کے بیٹے اس کے گورنر بنے شاہ جہاں نے اپنے چھوٹے بیٹے مراد کے نا م سے سنبھل سے 35کلو میٹر دور مرادآباد شہر آباد کیا ۔اس نے اپنی پوری توجہ سنبھل کے بجائے مرادآباد پر دی اس کے زمانے میں اس شہر کی مقبولیت میں کمی آئی لیکن مغلوں کے آخری وقت تک یہ ان کی حکومت کا حصہ تھا ۔اورنگ زیب نے اپنے منھ چڑھے سردار نعمت خاں علی کو اس شہر کا گورنر بنایا تھا ۔

جدوجہد آزادی میں اس شہر کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ بہادر شاہ ظفر کے ایک صاحبزادے کو پناہ دینے کی پاداش میں بخش خاندان کے دو لوگوں کو موت کی سزا بھگتنی پڑی ۔ان کی موت بھی بہت دردناک تھی چونے سے بھرے گڑھے میں کھڑا کرکے پانی چھوڑ دیا گیا تھا ۔اس کے با وجود شہزادے کو انگریزوں کے حوالے نہیں کیا گیا عوام کے ساتھ یہاں کے علماء بھی آزادی کی تحریک میں شامل رہے ۔حافظ رحمت خاں روہیلا سے لیکر بہادر شاہ ظفر تک کی فوج میں سنبھل کے سپاہی موجود تھے ۔سید احمد شہید کی تحریک آزادی ہو یا خلافت مومنٹ ہر جگہ یہاں کے لوگ دکھائی دیتے ہیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ ملک میں کوئی ایسی شخصیت نہیں گزری جو یہاں نہ آئی ہو ۔

یوں تو سنبھل نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے لیکن آزادی کے بعد یہاں متوسط طبقہ لگ بھگ ختم ہو گیا تھا یا تو غریب ، مزدور ، کام گار لوگ تھے یا پھر امیر ۔زمینداری قانون نے کھیتوں میں کام کرنے والوں کو مالک بنا دیا تھا ۔ کاروبار کے نام پر کوئی ایسا کام یہاں نہیں تھا جو سنبھل کے لوگوں کو روزگار دے سکے ۔سنبھل میں سینگ کے سامان بنانے کا کام بہت پرانا تھا لیکن اس میں مزدوری بہت کم ملتی تھی ۔ امیر لوگوں کی کھانڈ ، شیرے ، سلفر کے کارخانے یا چینی بنانے کی فیکٹریاں تھیں ۔باقی لوگ کھیتی یا چھوٹے موٹے کام کرکے اپنی زندگی چلاتے تھے آج حالات بدلے ہوئے ہیں سینگ کی جگہ ہڈی اور مصنوعی جیولری نے اور میٹھے کی جگہ اینٹ کے بھٹوں و میتھا( پیپر منٹ ) کے سامان بنانے کے کارخانوں نے لے لی ہے۔شہر کے کافی لوگ ملک کی دوسری ریاستوں میں کام کررہے ہیں ۔ کئی بیرون ملک میں روزی روٹی کما رہے ہیں ۔ جب سے باہر کا راستہ کھلا تب سے اس شہر کی معیشت میں تبدیلی آئی ہے ورنہ عام طور پر غربت تھی اور مکانات کچے پکے ۔بیشتر مسلم علاقوں کا یہی حال تھا ۔

ملک میں آزادی سے قبل فرقہ وارانہ نفرت کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا سیاسی جماعتو ں نے بعد میں بھی اسے باقی رکھا ۔یا یوں کہا جائے کہ اسے ووٹ حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا گیا ۔نفرت نے فساد کو جنم دیا اور فساد نے برسوں پرانے رشتوں میں کھٹاس پیدا کردی ۔فساد کا ٹرینڈ بھی بدلتا رہا ایک وقت ایسا آیا جب ان علاقوں کو نشانہ بنایا گیا جہاں مسلمان کاروبار میں اچھی حیثیت رکھتے تھے ۔فسادات کے ذریعہ مسلمانوں کو معاشی اعتبار سے حاشیہ پر پہنچانے کی کوشش کی گئی ۔ مسلمان کارخانے دار سے دستکار ، فیکٹری مالک سے ملازم ، ایکسپوٹر سے بائنگ ہاؤں کے ٹھیکدار بن کر رہ گئے ۔ مسلمانوں کو دو جون کی روٹی کے پھیر میں الجھانے کی سازش رچی گئی لیکن اس درمیان جو مسلم بچے پڑھ لکھ کر اچھی آمدنی والے کاموں میں لگے یا بیرون ملک روزگار پانے میں کامیا ب ہوئے انہوں نے مسلم معاشرے کو خراب حالات سے دوچار ہونے سے کسی حد تک بچالیا ۔ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کو احساس کمتری میں مبتلا ء کرنے یا مین اسٹریم سے دور کرنے کے لئے دہشت گردی سے جوڑنے کی نئی منصوبہ بندی کی گئی ہے ۔پڑھے لکھے اعلیٰ ہنر مند وں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کر ان کی زندگی کے قیمتی پندرہ بیس سال برباد کرنا شاید اسی کا حصہ ہے ۔

باوجود لاکھ کوششوں کے سنبھل میں نفرت جڑ نہ پکڑ سکی ۔کتنی ہی غیر مسلم خواتین اپنے مسلم بھائیوں کو راکھی باندھتی ہیں ۔مٹھائی کی دکانیں غیر مسلموں کی لیکن کاریگر مسلمان ہیں ۔ دیوالی پر کھانڈ کے کھلونے مسلمان بنانے ہیں لیکن فروخت کرنے والے دکاندار غیر مسلم ہیں ۔رنگ برنگی کنڈیلیں مسلمان تیار کرتے ہیں اور خریدار غیر مسلم ہوتے ہیں ۔مسلمان کی آڑھت پر غیر مسلم سامان بیچتے ہیں۔دسہرہ ، دیوالی ، ہولی ، عید ، یہاں سب مل کر مناتے ہیں ۔ رام کی بارات ، بھرت ملاپ میں مسلمان دلچسپی لیتے ہیں تو علم محرم میں غیر مسلم ۔نیزے کا میلا سید سالار کی فتح کی یاد میں لگتا ہے لیکن مٹھائی و دوسرے سامانوں کی دوکانیں غیر مسلم سجاتے ہیں ۔دو دنوں میں لاکھوں ن روپے کا کاربار ہوتا ہے یہ سب سنبھل میں ہی ممکن ہے کیونکہ یہاں کے لوگ امن و شانتی سے رہنے میں یقین رکھتے ہیں ۔

چھتیس پورے باون سرائے پر مشتمل سنبھل اپنی علمی شخصیات ، تہذیبی و ثقافتی وراثتوں اور دستکاریوں کی وجہ سے سرخیوں میں رہا ہے ۔ یہاں کے عالم آچاریہ ، حکیم ، ویدھ ،جراح، عطار ، ادیب وشاعر ، کوی ، دانشور اور صوفیاء گراں قدر خدمات کے لئے دور دراز علاقوں میں مقبول رہے ہیں ۔یہ شہر نیشنل میڈیا کی توجہ کا مرکز اس وقت بنا جب مردم شماری کی رپورٹ میں سو فیصد خواندگی کے لئے کیرالا کے ملا پورم اور سب سے کم پڑھے لکھوں کے لئے سنبھل کا نام سامنے آیا ۔اس وقت شہر کی آبادی ایک لاکھ سے کچھ زیادہ تھی ۔ 2011کے سنیس کے مطابق یہاں کی آبادی 221334ہے خواتین و مردوں کا تناسب ایک ہزار پر نوسو آٹھ ہے ۔جبکہ بچوں میں یہ شرح ایک ہزار لڑکوں پر 936لڑکیوں کی ہے ۔ خواندگی کی شرح 77فیصد ہے ۔جس میں لڑکیوں کا فیصد لڑکوں سے بہتر درج کیا گیا ہے۔

نیشنل میڈیا کی سرخیوں اس بار سنبھل دہشت گردی کے حوالے سے ہے ۔ پولس نے ظفر مسعود کو سنبھل اور محمو آصف کو دہلی سے گرفتار کیا تھا جبکہ مشتبہ دہشت گرد عبدالرحمن کو کٹک سے گرفتار کیا گیا ۔ان تینوں کا تعلق سنبھل سے ہے ۔پولس نے ان سے بہت سے انکشافات ہونے اور مزید حقائق سامنے آنے کی بات کہی ہے۔ پولس کی مانیں تو محمد آصف کو بھارت میں دہشت گرد تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ۔وہ بھارت میں القاعدہ کا سربراہ ہے جبکہ عبدالرحمن اڑیسہ کے کٹک علاقہ میں مدرسہ چلاتا تھا ۔اس کا کام نوجوانوں کو دہشت گرد تیار کرنے کی مہم میں جٹانا تھا ۔ پولس کا الزام ہے کہ یہ دونوں دہشت گرد کرسمس اور نئے سال کے موقع پر دہلی میں دہشت پھیلانے کی سازش ر چ رہے تھے جسے وقت رہتے پولس نے منصوبہ بند طریقہ سے ناکام بنا دیا ۔پولس کے دعووں پرمحمد آصف کے والد کے بیان سے سوالیہ نشان لگتا ہے ان کے مطابق آصف بہت کم پڑھا لکھا ہے اور پرانے کپڑے بیچ کر بمشکل اپنا گزارا کرتا ہے وہ کام کے سلسلہ میں ایک بار سعودی عرب ضرور گیا تھا لیکن وہاں جانے کے لئے اس نے اپنے حصہ کا مکان فروخت کرکے پیسے جمع کئے تھے پولس کے دعووں کی حقیقت تو وقت کے ساتھ سامنے آئے گی انصاف کے انتظار میں ان کی زندگی کا کتنا وقت برباد ہوگا اس کا جواب بھی مستقبل میں ملے گا لیکن سوال یہ ہے کہ پسماندگی سے ابھرتے اس شہر کو اعظم گڑھ اور بھٹکل کی طرح نشانہ بنا کر کیا ایک بار پھر پسماندگی کے غار میں ڈھکیلنے کی سازش تو نہیں ؟ّ

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا