English   /   Kannada   /   Nawayathi

سعودی عرب ۔ ایران تنازعہ

share with us

چار شیعوں میں ایک عالم دین بھی شامل ہیں‘ جنہیں سزائے موت دیئے جانے کا فیصلہ بہت پہلے کیا جاچکا تھا اور ان کے ارکان خاندان کو پہلے اس کی اطلاع دی جاچکی تھی۔ ایران نے اس کے خلاف جس رد عمل کا اظہار کیا اس پر سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا سعودی حکومت کا فیصلہ حق بجانب ہے۔ اور دوسرے عرب ممالک نے جس یگانگت کا اظہار کیا وہ بھی فطری ہے۔ کیوں کہ اس وقت عالم عرب بیک وقت دو محاذوں پر مقابلہ کررہا ہے ایک طرف دہشت گرد عناصر جن میں القاعدہ، داعش جیسی تنظیمیں شامل ہیں‘ دوسری طرف موافق ایران تنظیمیں اور ان کے عسکریت پسند۔ اس وقت مسلم ممالک کی شکایت اپنی جگہ واجبی ہے کہ ان کے داخلی معاملات میں ایران یا اس کے ہمنوا دخل اندازی کررہے ہیں۔ انتشار پیدا کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ یمن، عراق، شام، لبنان، بحرین کے حالات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان برسوں سے تنازعہ رہاجسے ختم کرنے کی کئی بار کوششیں کی گئیں۔ حالیہ عرصہ کے دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب بھی آئے۔ ایران 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے اپنے خلاف عائد تحدیدات کی بناء پر بظاہر یکا و تنہا رہ گیا تھا‘ اب اس کے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے تھے۔ مگر کسی کے وہم و گمان میں تک نہ تھا کہ ان تعلقات کے بہتر ہونے کے نتیجہ میں ایران‘ سعودی عرب کے خلاف کمربستہ ہوجائے گا۔ سعودی عرب اور ایران میں تعلقات مسلکی بنیادوں پر ہمیشہ کشیدہ رہے۔ ویسے بھی یہ عرب اور عجم کا جھگڑا ہے اور اسی جھگڑے یا تفریق کو ختم کرنے کے لئے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ میں فرمایا تھا ’’کسی عرب کو عجمی پر یا کسی عجمی کو عرب پر برتری نہیں ہے‘‘۔ اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت عرب اور عجم کے خانوں میں تقسیم ہوتی رہی۔ ایران کو عرب ممالک میں شیعوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی شکایت رہی اور سنی مسلمانوں کو بھی یہ شکایت رہی کہ ایران میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا رہا ہے اور ان کی عبادتگاہوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا بلکہ یہ بھی الزام عائد کیا جاتا رہا کہ سنی مسلمانوں کو شیعہ بنانے کے لئے بھی تحریکات چلائی جاتی ہیں۔
عرب‘ ایران تنازعہ آج ہے کل اس کی یکسوئی ہوگی یا اس میں شدت پیدا ہوگی اس کا انحصار مغربی میڈیا پر ہے جو آگ پر پٹرول چھڑکنے کا کام کرتا رہا ہے۔ اس وقت صیہونی ذہنیت کے حامل مغربی لابی عالم اسلام کو منتشر کرنے کے لئے اپنی تمام صلاحیتوں کو استعمال کررہی ہیں تاکہ ان کے تیل اور گیس کے ذخائر پر بھی قبضہ ہوجائے اور آپس میں ایک دوسرے کو لڑانے کے لئے اپنے اپنے ہتھیاروں کی نکاسی کے ذرائع پیدا کرلئے جائیں۔ اس مقصد کے لئے ضمیر فروش علماء کو بھی استعمال کیا جارہا ہے جو مسلکی اختلافات کو اپنی اشتعال انگیز، زہر آلود تقاریر سے بڑھاوا دیتے ہیں۔ عرب۔ایران تنازعہ کے بعد بیان بازی کے سلسلے شروع ہوچکے ہیں۔ اندیشہ ہے کہ یہ بڑے پیمانے پر شیعہ سنی فسادات کا سبب نہ بن جائے۔
شیعہ سنی اختلافات آخر ہیں کیوں؟ اس کا جواب یہی دیا جاتا ہے کہ خلافت کا مسئلہ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد شیعہ حضرات کا یہ خیال ہے کہ خلافت کے اصل حقدار حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں جبکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس سے کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ اول مقرر کیا گیا تب آپ ص کے دست مبارک پر بیعت کرنے والوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ حضرت ابوبکر صدیق ص کو فضیلت کے اعتبار سے تمام صحابہ کرام میں فوقیت حاصل ہے اور رہے گی۔ اگرچہ کہ حضرت ابوکر صدیق ص کا انتخاب نبی کریم صلی اللہ کے پردہ فرمانے کے بعد اتفاق رائے سے ہوا تاہم ایک واقعہ ایسا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد حضرت ابوبکر صدیق ص کے خلیفہ ہونے کا اشارہ دیا تھا۔ بخاری شریف جلد دوم میں حضرت جبیر بن مطعم ص سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں آپ ا نے اسے حکم دیا کہ وہ پھر آپ ا کے پاس آئے۔ اس خاتون نے کہا کہ اگر میں آؤں اور آپ ا کو نہ پاؤں (اس سے اس کی مراد آپ ا کا وصال تھا) آپ ا نے فرمایا کہ مجھے نہ پاؤ تو ابوبکر کے پاس چلے آنا۔ اسی طرح خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار ابوبکر صدیق ص کو اپنا محبوب ترین قرار دیا۔ ایک اور واقعہ میں جب حضرت عمرو بن عاص ا کو غزوۂ ذات السلاسل میں امیر بناکر بھیجا گیا اس دستے میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے۔ اس بناء پر حضرت عمرو بن عاص ص کے دل میں خیال گذرا کہ شاید وہ سب سے افضل ہیں‘ چنانچہ انہوں نے خاتم النبیین ا سے عرض کیا کہ سب لوگوں میں سے کون شخص آپ ا کو زیادہ محبوب ہیں‘ آپ ا نے فرمایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا۔ آپ ص نے عرض کیا کہ مردوں میں سے کون؟ نبی کریم ا نے فرمایا ان کے والد گرامی (ابوبکر رضی اللہ عنہ)۔ انہوں نے پوچھا پھر کون؟ پھر فرمایا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس طرح آپ ا نے درجہ بدرجہ کئی صحابہ کرام ث کے نام لئے۔
حضرت ابوبکر صدیق ص کے بعد حضرت عمر فاروق ص کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلے بنی اسرائیل میں کچھ لوگ ایسے ہوئے تھے جن کو الہام ہوا کرتا تھا حالانکہ وہ نبی نہ ہوتے لہٰذا اگر میری امت میں کوئی قابل ہے تو وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ۔
جہاں تک خلافت کا تعلق ہے جس شام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال مبارک ہوا اس شام انصار کا ایک بڑا گروہ جمع ہوگیا تھا اور خلافت کے مسئلہ کو طئے کرنا چاہ رہا تھا جوں ہی ان کے اجتماع اور ارادہ کی اطلاع حضرت ابوبکر صدیق حضرت عمر اور حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہم کو ہوئی تو فوراً وہاں پہنچ گئے اور ایک فتنہ عظیم کا دروازہ بند کرنے کے لئے انہوں نے اسی وقت انصار کی اس جماعت کو سمجھا بجھاکر اس مسئلہ کا ایسا فیصلہ تسلیم کرالیا جس میں امت کی خیر تھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی بصیرت سے وہیں اسی وقت مسئلہ کا تصفیہ کرانا درست سمجھا اور بلاتاخیر اس شخص کی خلافت پر بیعت کروالی جسے تمام عرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست راست کی حیثیت سے جانتا تھا جن کے متعلق دوست اور دشمن سب ہی یہ رائے رکھتے تھے کہ مسلمانوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کوئی دوسرے درجہ کی شخصیت ہیں تو یہی ہیں۔مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے تفہیم الاحادیث (جلددوم صفحہ 239) میں لکھاہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شیر خدا ص نے اسی روز سب مسلمانوں کے ساتھ بیعت کی تھی ۔ طبری سعید بن زیدص کے حوالے سے اور بیہقی نے ابوسعید خدری ص اور موسیٰ بن عقبہ ص عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے یہ روایت نقل کی ہے جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت ہوچکی تو ابوسفیان نے آکر حضرت علی ص سے کہا کہ کیا غضب ہوگیا قریش کے سب سے چھوٹے قبیلے کا آدمی کیسے خلیفہ بنادیا گیا اے علی ص!اگر تم چاہو تو خدا کی قسم میں اس وادی کو سواروں اور پیادوں سے بھردوں۔ حضرت علی ص نے جواب دیا کہ اے ابوسفیان! تم ساری عمر اسلام اور اہل اسلام سے دشمنی کرتے رہے‘ مگر تمہاری دشمنی سے نہ اسلام کا کچھ بگڑ سکا نہ اہل اسلام کا۔ ہم ابوبکر ص اس منصب کا اہل سمجھتے ہیں۔ حضرت علی ص نے ہمیشہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کا احترام کیا تو پھر کسی کو بھی صحابہ کرام ث کی شان میں گستاخی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ جو صحابہ ث کا احترام نہیں کرتے ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرومیرے صحابہ کے معاملے میں ان کو میرے بعد ہدف تنقید نہ بنانا کیوں کہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی بناء پر اور جس نے ان سے بدظنی کی اس نے مجھ سے بدظنی کی بناء پر، جس نے ان کو ایذاء دی اس نے مجھے ایذاء دی اور جس نے مجھے ایذاء دی اس نے اللہ کو ایذاء دی اور جس نے اللہ کو ایذاء دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑلے۔ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا جب تم اُن لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو بُرا بھلا کہتے اور انہیں ہدف تنقید بناتے ہیں تو اُن سے کہو تم میں سے جو برا ہے ان پر اللہ کی لعنت۔ اس طرح صحابہ کرام ث کی مدافعت کرنا اور ان کے ناقدوں کا جواب دینا ملت اسلامیہ کا فرض ہے۔
موجودہ حالات میں ہر فرد صبر سے کام لے۔ اپنی زبان اور قلم کو قابو میں رکھے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری آپسی اختلافات سے دشمن فائدہ اٹھائے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا