English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہنگامہ ہے کیوں برپا؟!

share with us

مگرحیرت ہے کہ اس کے بعد عالمی سطح پر ایک طوفا نِ بدتمیزی اور ہنگامۂ رستاخیزبرپاکردیاگیا،فیصلے کے فوراً بعد ایرانی حکومت،سپریم لیڈر،حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ، شام،عراق ، بحرین،لبنان سمیت ہندوستان و پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہنگامے برپاکیے گئے۔خامنہ ای نے سعودی حکومت کو’خدائی انتقام‘ کی دھمکی دی،حزب اللہ نے سعودی عرب کوانسانی حرمت کا پامال کرنے والا بتایا،شام کے ایک اخبار کے ایڈیٹرنے اپنے اداریے میں لکھاکہ سعودی عرب پورے خطے کے لیے ناسوربن گیاہے،عراقی اخباروں نے لکھاکہ عراق سعودی کے اس اقدام کی وجہ سے بھڑک اٹھاہے ،ہمارے ملک ہندوستان کے بعض نمایاں اخباروں نے اس خبرکواس اندازمیں شائع کیاگویایہ فیصلہ سراسرناجائزتھا اور سعودی عرب نے ایسا کرکے انسانی حقوق کی پامالی کا ارتکاب کیاہے،بعض مدیرانِ گرامی نے بڑی چابک دستی اور مسلکی تعنُّت و تعصب کاثبوت دیتے ہوئے گرماگرم اداریہ لکھ مارا،بعض شیعی مذہبی سربراہوں نے چندلوگوں کے ساتھ مل کر سعودی عرب کے خلاف نعرے بازی کی اور اخباروں میں بڑے بڑے بیانات شائع کروائے اور اب یہ تاثردینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پورے ہندوستان میں سعودی عرب کے خلاف احتجاجات و مظاہرات کیے جارہے ہیں،سب سے بڑھ کر خود ایران میں سعودی حکومت کے خلاف ایک زبردست احتجاج برپاکیاگیا،جس کے دوران سفارت خانے کی عمارت کو نقصان پہنچایاگیا،فرنیچروغیرہ توڑی گئی،حتی کہ اس کی عمارت کونذرِ آتش کرنے کی کوشش بھی گئی،دوسری جانب عراق میں اس کا منفی ردِعمل یوں سامنے آیاکہ کہ سنیوں کی مساجداور ائمہ پرحملے شروع ہوگئے ہیں۔ سعودی حکومت ایران کے رویے سے بھڑک اٹھی ہے اوراس نے بھی فوری طورپراقدام کرتے ہوئے باقاعدہ اعلان کردیاکہ کہ ایران سے فضائی و تجارتی روابط ختم کیے جاتے ہیں اورایرانی سفارت کاروں کواڑتالیس گھنٹوں کے اندرملک خالی کرنے کاحکم دیاہے،سعودی کے ساتھ ساتھ بحرین ،سوڈان اورکویت نے بھی اپنے سفارتی تعلقات ختم کرلیے ہیں اور سفارت کاروں کوملک چھوڑنے کاحکم دے دیاہے،متحدہ عرب امارات نے بھی ایران کے ساتھ اپنے روابط کو محدودکرنے کا اعلان کردیاہے۔
اس واقعے کے بعدپورے خلیجی خطے میں ایک نئی اُفتادیاسیاسی بحران پیداہوگیاہے،سعودی عرب کا الزام ہے کہ ایران کی روش ہمیشہ سے عربی اسلامی ملکوں کے خلاف سازشیں رچنے اور اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی رہی ہے،روزنامہ ’’الریاض‘‘کے ایک سینئرکالم نگارنے اتوارکواپنے مضمون میں لکھاتھاکہ نمرباقرالنمرسعودی میں ایرانی حکومت کے ایجنٹ کے طورپر سرگرم تھے،حالاں کہ دوسری جانب ایران اور دنیابھرکے مختلف ملکوں میں اس کے حامیوں کاکہنایہ ہے کہ سعودی عرب کا یہ عمل اپنے مخالفین کازبردستی اور قوت کے زور پر منہ بند کرنا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرادف ہے؛ حالاں کہ انسانی حقوق اور1961ء کے ویاناکنونشن کی بدترین خلاف ورزی خود ایران کی جانب سے یوں ہوئی ہے کہ اس نے ایران کے شہر مشہدمیں واقع سعودی سفارت خانے پر ہلہ بولنے والے عناصرکوقابوکرنے میں تساہل سے کام لیا اور بعدمیں لیپاپوتی کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے دبے الفاظ میں ان لوگوں کی مذمت اورگرفتاری کی یقین دہانی کے ذریعے کام چلانے کی کوشش کی،جواس جرم میں شریک تھے۔
اسی درمیان منگل کی صبح سیکورٹی کونسل کی ہنگامی میٹنگ ہوئی،جس میں اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل کے علاوہ سعودی سفیر برائے اقوامِ متحدہ عبداللہ المعلمی اوردیگرارکان ممالک کے نمایندگان موجودتھے،سیکورٹی کونسل نے ایران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ کرنے اور اس کونذرِ آتش کیے جانے کی پر زور مذمت کرتے ہوئے ایرانی حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ وہ سفارت خانوں اور قونصلیٹ کے تحفظ کے حوالے سے عالمی قوانین کی پابندی کرے،سعودی نمایندے نے یہ تاکید کی کہ ایران کے ساتھ تعلقات کے مخدوش ہونے سے ان کی حکومت شام اور یمن میں قیامِ امن کی جدوجہد میں کوئی فرق نہیں آنے دے گی اور دونوں ملکوں کے احوال درست کرنے کے تعلق سے سعودی پیش قدمیاں جاری رہیں گی،سعودی نمایندے نے اپنے اخباری بیان میں ایران پر یہ الزام بھی عائد کیاہے کہ وہ شام اور یمن میں امن و سلامتی کی بحالی کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے اور نہ اس نے اب تک مثبت رخ اختیار کیاہے،شام میں اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے نمایندہ اسٹیفن ڈیمستورانے ایران اور سعودی عرب کے مابین پیداہونے والے حالیہ بحران کو نہایت ہی افسوس ناک قراردیاہے اوران کا کہناہے کہ اس کی وجہ سے خطے کواندوہ ناک نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتاہے،ان دنوں وہ شام میں قیامِ امن کے تعلق سے ریاض کے دورے پرہیں ،اس کے بعدتہران جائیں گے۔اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بانکی مون نے سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر اورایرانی وزیر خارجہ جوادظریف سے رابطہ کرکے دونوں 
ملکوں کے مابین واقع ہونے والی کشیدگی کوختم کرنے کی ہدایت دی ہے،انھوں نے کہاکہ خطے کے امن و استقرارکے لیے دونوں ملکوں کابات چیت اور
مذاکرات کے ذریعے مربوط رہنا ضروری ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے مابین واقع ہونے والی حالیہ کشیدگی بڑے وسیع پس منظرمیں دیکھی جارہی ہے،سعودی اور ایران میں اختلاف کی بنیادی وجہ تو مسلکی اختلاف ہے،جس کے بعض پہلوآخری حدتک شدید ہیں،ایران میں’’اسلامی انقلاب‘‘کے بعد سے شیعی نظریات کو مضبوط تر سیاسی پناہ گاہ ملی اور اس کے بعد سے ایران کی جانب سے مسلسل ایسے توسیع پسندانہ اقدامات کیے جاتے رہے ہیں،جن کا مقصدسنی حکومتوں والے ملکوں میں مداخلت کرنا اور ان پر برتری حاصل کرنارہاہے۔ایران کی پالیسی مسلمانانِ عالم کے بعض اجتماعی مسائل اور مشکلات پر حیرت ناک حدتک پر اسرار رہے ہیں،سعودی عرب سے اس کے اختلاف کی تاریخ کوئی نئی نہیں ہے،بہت پرانی ہے،البتہ اس اعتبار سے کہ ایران بھی اسلامی جمہوریہ ہے، اتفاق کی راہیں تلاش کرنے کی کوششیں بھی جاری رہی ہیں، عالمی ادارے بھی اس سلسلے میں مسلسل کوشاں رہے ہیں کہ ایران اور سعودی عرب کے مابین مکمل اتفاق نہ سہی،کم ازکم اختلاف کادامن تنگ توہوجائے،مگر ہر بار کوئی نہ کوئی ایسا سانحہ رونماہوگیا،جس کے بعددونوں ممالک پھر سے آمنے سامنے آگئے۔جہاں تک بات شیخ نمرالنمرکوسزائے موت کی ہے،تواس پر ایران اور دوسرے ملکوں کے اس کے ہمنواؤں کا واویلامچانا افسوس ناک بھی ہے اور قابلِ مذمت بھی،انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ خود ایران میں پھانسی اور سزائے موت روزانہ کا معمول ہے اور وہ بھی کسی بڑی وجہ سے نہیں؛بلکہ صرف یہ معلوم پڑجائے کہ فلاں شخص ایرانی حکومت یا اس کے مذہبی و دینی نظریات کے خلاف ہے اور وہ اس کا اظہار کرتاہے،تواسے تختۂ دارپر ٹانگ دیاجاتاہے،مغربی ایران کا ایک شہرہے احواز،جہاں کی اکثرآبادی عرب نژادوں کی ہے،اہوازہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے نائب صدرطہ یسین کہتے ہیں کہ وہاں کے بچوں،بچیوں،مردوں اور عورتوں کوپھانسی پر چڑھایاجانا معمول کی بات ہے،اٹھارہ سال سے بھی کم عمرکے بچوں کوسزائے موت دے دی جاتی ہے،ایرانی حکومت کسی بھی عربی کوناصری،بعثی یا وہابی سے متہم کرکے آغوشِ نیست میں پہنچادیتی ہے،ایرانی اخباروں اور جیل انتظامیہ کے اعتراف کے مطابق اس وقت ایران کی مختلف جیلوں میں6؍ہزارتوصرف عورتیں قید ہیں، جن کے ساتھ طرح طرح کے ظلم و زیادتی کو روا رکھاجاتا ہے،جبکہ چارسو سے پانچ سوکے درمیان بچے قیدوبندکی سزاکاٹ رہے ہیں،طہ یسین کہتے ہیں کہ احوازکے علاقے میں حالاں کہ بہت سے شیعہ بھی ہیں،مگر چوں کہ سب کے سب عربی النسل ہیں اس لیے ایرانی حکومت منظم طریقے پروہاں کے باشندوں کی نسلی تطہیر کے درپے ہے،احوازکے اصل شہریوں کوجلاوطن کر رہی ہے اور مختلف خطوں سے ایرانیوں کووہاں لاکرآباد کر رہی ہے۔الغرض ایران خود تواپنے ملک میں انسانی حقوق کی کھلے عام خلاف ورزی کررہاہے اور تعصب و نسل پرستی کی بدبختانہ مثال قائم کرتے ہوئے بے گناہ مردوں،عورتوں اور معصوم بچوں تک کو تختۂ دار پر چڑھارہاہے؛لیکن جب سعودی عرب معقول وجہ اور ثبوت کے بعد ایک شخص کووہ سزادیتاہے،جس کا وہ حق دارتھا،توآسمان سر پر اٹھاکر ساری دنیامیں یہ پروپیگنڈہ کرتاہے کہ سعودی عرب انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہاہے اور اظہارِرائے کی آزادی کا گلہ گھونٹاجارہاہے،اس حقیقت سے قطعاً انکارنہیں کیاجاسکتاکہ مشرقِ وُسطیٰ کاجوموجودہ خوں فشارمنظرنامہ ہے اور یمن سے لے کر لیبیاولبنان تک،عراق سے لے کرشام و فلسطین تک کی سرزمین جوبے گناہوں کے خون سے لالہ زاربنی ہوئی ہے،اس میں راست یا بالواسطہ طورپرایران کاہاتھ ضرورہے۔اوریہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں دنیاکے بہت سے بڑے اور ممتازسنی علماومفکرین مسلسل شیعہ سنی اختلافات کومحدودکرنے اور وجوہِ اتفاق تلاش کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں،وہیں ایران اوربیشتر شیعہ علماومذہبی رہنمااختلافات کی خلیج کووسیع ترکرنے میں سرگرم رہتے ہیں،ایسے میں شیعہ سنی اختلاف کو ختم کرنے کی سبیل کیسے پیداہوسکتی ہے،دہشت گردی ہی کے مسئلے کولے لیجیے،اگر شیخ نمرکوسزائے موت نہیں دی جاتی،توبقیہ 46؍لوگوں کی سزاپرایران یااس کے ہم فکرکیوں احتجاج برپاکرتے؟ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا