English   /   Kannada   /   Nawayathi

بکھرے خاندان اور تنہائی کا درد

share with us

ہم ایک بار پھر ہاسپٹل لے جانا نہیں چاہتے تھے کیوں کہ ہمیں یقین تھا کہ طبیعت کی ناسازی کسی مرض کی بجائے کچھ نفسیاتی دباؤ کے تحت ہے۔ ہم نے کہا کہ پہلے تو ہاسپٹل جائیں گے اگرچہ کہ یہ ایک جوکھم بھرا کام تھا۔ خدا نخواستہ کچھ ہوجائے تو سارا الزام میرے ہی سر آئے گا کہ ہاسپٹل بروقت نہ لے جانے کی وجہ سے ایسا ہوا۔ ہم نے احتیاطاً کہہ دیا...جو بھی ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ اگر خدا نخواستہ برا وقت آہی گیا ہے تو کسی بھی ہاسپٹل میں لے جانے سے سانسوں میں اضافہ نہیں ہوگا۔ اگر زندگی باقی ہے تو انشاء اللہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ ہماری والدہ اپنی چھوٹی بیٹی کی حالت سے بہت پریشان تھیں۔ ہم اصرار کرکے سب کو اپنے گھر لے آئے۔ کافی دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں کیں۔ اس دوران پتہ چلا کہ وہ اچھا خاص علاج چھوڑ کر کسی کے مشورہ پر ایک چمتکاری قسم کے حکیم ڈاکٹر سے علاج کروانے لگی تھیں‘ جس نے یہ دعویٰ کیا کہ ایک مہینہ تک اس کے علاج کے بعد زندگی بھر نہ تو شوگر کے لئے اور نہ ہی بلڈ پریشر کے لئے کوئی اور دوا لینی پڑے گی۔ ہارٹ پرابلم ہو یا کڈنی کا... سب ختم ہوجائیں گے۔ ہم نے اس حکیم یا ڈاکٹر کا وزیٹنگ کارڈ دیکھا اس میں جو ڈگری یا ڈپلوما درج تھا پہلی بار ہماری نظروں سے گزرا تھا۔ احتیاطاً ہم نے شفاخانہ نظامیہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم سے اس ڈگری یا ڈپلوما سے متعلق پوچھا‘ ان کے لئے بھی یہ نئی بات تھی۔ بہرحال ہم نے اپنی بہن کو سمجھایا کہ یہ کوئی ڈاکٹر یا حکیم نہیں ہے بلکہ دھوکہ باز ہے۔ ابھی ایسے ہی عناصر کے خلاف پولیس کاروائی کررہی ہے۔ ایک مہینے کے علاج کے بعد کسی دوائی کی ضرورت اس لئے باقی نہیں رہتی کہ مریض ہی جب تک نہیں بچ پاتا۔ بہرکیف... بہن کی طبیعت کی ناسازی کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ اب ہم نے غور کیا کہ اس کے علاوہ اور کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ چند روز پہلے ہی اِن کی بیٹی تعلیم کی غرض سے اپنے والد کے پاس امریکہ گئی تھیں۔ بیٹی کی یاد اور اکیلاپن بھی طبیعت بگڑنے کی ایک وجہ ہے۔ ان حالات میں دوا بھی ضروری ہے ساتھ ہی گھر میں گہما گہمی کی بھی ضرورت ہے۔ لوگ مسلسل بات کرتے رہیں تاکہ اکیلے پن کا احساس نہ ہو۔ جب قریبی رشتہ دار بالخصوص خونی رشتے بچھڑ جاتے ہیں اور ایسے وقت گھر میں زیادہ لوگ نہ ہوں تو اکیلے میں گھر کاٹنے کو آتا ہے۔ مغرب کے وقت گھبراہٹ سی محسوس ہوتی ہے۔ بہرحال چند دن ہمارے پاس وہ رہیں۔ اس کے بعد ایک اور بہن کے پاس کچھ دن رہیں۔ اس دوران دھوکہ باز حکیم ؍ ڈاکٹر کا علاج چھوٹا۔ پہلے کے ڈاکٹر کو دکھایا، کئی معائنے ہوئے‘ الحمدللہ! تمام رپورٹس نارمل... جس کا ہمیں پہلے ہی سے یقین تھا۔ چار رشتہ داروں میں مل جل کر رہنے، ان کے ساتھ وقت گزاری‘ گپ شپ نے بیماری کو بھگادیا...۔
مجھے یاد ہے کہ برسوں پہلے ہماری والدہ کو اختلاج کی شکایت تھی۔ گھبراہٹ بہت ہوتی تھی... ہمیشہ غنودگی سی طاری رہتی تھی۔ اتفاق یا خوش قسمتی سے اس وقت ہمارے بہنوئی معراج صاحب سعودی عرب چلے گئے تو ان کی فیملی اور ہم ساتھ مل کر رہنے لگے... اس وقت ان کی سب سے چھوٹی بیٹی کوئی ڈیڑھ دو سال کی تھی... وہ گھر میں کیا آگئی... رونق سی آگئی۔ اس کی توتلی باتوں، معصوم اداؤں نے پورے گھر کو اپنا گرویدہ بنالیا... ہماری والدہ اپنی اس معصوم نواسی کے پیچھے پیچھے رہنے لگیں... ان کی گھبراہٹ‘ حول... حول... اختلاج کب ختم ہوگئے‘ پتہ ہی نہیں چلا۔ اب وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ ہماری چھوٹی بہن کی ایک سال سوا سال کی نواسی جب بھی آتی ہے تو جتنی دیر وہ رہتی ہے اتنی دیر چھوٹی بہن اپنی تمام پریشانیوں کو بھول جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں قبیلوں اور خاندانوں میں پیدا کیا... اپنے اپنے خاندان اور قبیلے میں رہتے ہوئے ہی ہماری بقاء ہے۔ مگر پچھلے تیس پینتیس برسوں سے خاندان بکھرنے لگے ہیں۔ پہلے ایک خاندان میں گھر کے بزرگ بھی ہوتے جوان بھی اور بچے بھی۔ بزرگ گھر کی برکت، بچے تو فرشتوں کی طرح معصوم ہوتے ہیں‘ ان سے رونق رہتی۔ گھر کے سبھی افراد اچھے برے میں مل جل کر رہتے‘ تلخیاں بھی پیدا ہوتیں‘ مسکراہٹیں بھی بکھیرا کرتیں؟ مگر اب سب کچھ بدل چکا ہے۔ اب خاندان... افراد میں تقسیم ہونے لگے، ہر فرد اپنا الگ گھر بسانا چاہتا ہے۔ عموماً اس کی ذمہ داری خواتین ہوتی ہیں۔ آپسی اختلافات‘ رنجشوں اور جھگڑوں کا بہانہ خاندان سے علیحدگی اور ایک الگ گھر بسانے کے لئے کافی ہے۔ نئے گھر آباد ہورہے ہیں۔ خاندان بکھر رہے ہیں۔ اولاد کے لئے ماں باپ مہمان بن چکے ہیں۔ اس رجحان نے نت نئے امراض کو جنم دیا۔ ہر ایک کا اپنا گھر ہے‘ مگر اس گھر میں وہ خود کو اجنبی محسوس کرتا ہے... عورتیں لڑجھگڑ کر الگ گھر بسانے کی ضد کرتی ہیں۔ اس میں کامیاب بھی ہوجاتی ہیں۔ مگر اس کے بعد سے ان کی زندگی جو رخ اختیار کرتی ہے اس کے حال سے وہ خود واقف رہتی ہیں‘ چاہتے ہوئے بھی بتا نہیں پاتیں۔
اکیلا پن، تنہائی کا احساس ستاتا رہتا ہے۔ پتہ کھڑکتا ہے تو دل دھڑکنے لگتا ہے۔ کسی کی آہٹ پر جی گھبرانے لگتا ہے... یہ گھبراہٹ راتوں کی نیند اُڑا دیتی ہے۔ جاگتے رہنے سے بلڈ پریشر بھی بڑھتا ہے اور شوگر بھی۔ ان امراض پر قابو پانے کے لئے دواؤں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہ دوائیں اعصاب کو کمزور کردیتی ہیں۔ جس کے نتیجہ میں مزاج میں چڑچڑاپن‘ جھنجھلاہٹ‘ پیدا ہونے لگتی ہے۔ شوہر کی یا اپنی آمدنی کو جن ارکان خاندان پر صرف ہونے سے محفوظ رکھنے کی خاطر لوگ اپنا گھر الگ بساتے ہیں‘ اب وہی آمدنی ڈاکٹرس کی نذر ہونے لگتی ہے۔
آج مرد و خواتین کے بیشتر امراض احساس تنہائی کا نتیجہ ہیں۔ تنہائی ایک سزا ہے۔ تبھی تو سنگین مجرمین کو ’’قید تنہائی‘‘ دی جاتی ہے۔ اب ہماری خواتین اور بعض مرد حضرات اپنی خوشحال آزاد زندگی کے نام پر خود کو قید تنہائی کی سزا دے رہے ہیں۔ اس قسم کے ماحول میں پروان چڑھنے والے بچے بھی ذہنی طور پر متوازن نہیں ہوتے۔ یا تو وہ نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں یا پھر ان کے جذبات کا استحصال ہوجاتا ہے۔ الگ الگ خانوں میں تقسیم ہونے والوں کو بہرحال اپنی کمی کا احساس ہوتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ عرصہ کے دوران ’’گیٹیڈ کمیونیٹیز‘‘ کا فروغ ہوا ہے۔ ایک کامپلکس میں کئی فلیٹس میں رہنے والے اب کسی نہ کسی بہانے مل جل کر رہنے ہیں‘ دکھ سکھ بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ مانگے کا اُجالا ہے... جو کچھ دیر رہتا ہے پھر اندھیرا چھا جاتا ہے۔
کاش ہم جائزہ لیں... جب سے ہمارے خاندان بکھرے ہیں گھر کی رونق اور برکت ختم ہوگئی ہے۔ پہلے ایک کماتا تھا کئی کھاتے تھے۔ شکر بجاکر رہتے تھے۔ اب ہر فرد کماتا ہے تب بھی اپنی ضروریات کی تکمیل نہیں کرپاتا۔آج کئی غریب گھر ایسے بھی ہیں جہاں افراد خاندان مل جل کر رہتے ہیں‘ مشترکہ کمائی کا مشترکہ استعمال ہوتا ہے تو پتہ نہیں چلتا کہ یہ غریب ہے۔ جبکہ اعلیٰ عہدوں پر فائز حضرات اپنی معقول آمدنی کے باوجود دوسروں کے آگے دست دراز کرنے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ دراصل قدرت کی جانب سے ایک سزا ہے۔اتحاد کی طاقت اور انتشار کے نقصان سے بچپن ہی سے پڑھایا جاتا رہا ہے۔جب بچپن کے سبق جوانی میں اور اکثر شادی کے بعد بھول جایا کرتے ہیں جس کی سزا ہر ایک کو ملتی ہے۔
یہ میرے گھر کی اُداسی سے ڈر گئی شاید
لپٹ کے مجھ سے گلے رورہی ہے تنہائی

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا