English   /   Kannada   /   Nawayathi

مودی کا اچانک پاکستان پریم

share with us

’’لو جہاد‘‘ اور ’’گھرواپسی‘‘ جیسی ناپاک مہمات آندھی کی طرح اٹھیں مگرجلد ہی دم بھی توڑ گئیں۔پڑوسی ملک پاکستان کے تعلقات میں مدوجزرآتے رہے مگرانجام بخیر یکے بعد دیگرے کئی دھماکے ہوئے۔ آخر میں وہ ہوا جس سے دنیا ششدررہ گئی۔امید بندھی کہ رشتوں پر جمی ہوئی کائی ہٹے گی۔بدگوشت صاف ہوگا اورنیا خوشنما چہرہ رونما ہوگا۔ 
یہ دھماکہ وزیراعظم نریندرمودی نے کرسمس کے دن کیا۔ کس کو گمان تھاکہ جس لیڈر کا سیاسی وجود اور جس کی تنظیم کا مقصد وجود پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ منافرت کی سیاست پر ٹکا ہو،وہ اچانک یہ فیصلہ کرلے گا کہ نوازشریف کو جنم دن کی مبارکباد دینے لاہور میں جہازاتروالے گا۔ کوئی سرکاری رسم گارڈ آف آنر جیسی ادانہیں ہوئی بلکہ ایک فرد خاندان کی صورت بلا تکلف ان کے گھرچلے گئے ۔ ان کے اہل خانہ سے گھل مل کرملے۔ ان کی ماں کی قدم بوسی اسی انداز میں کی جس طرح اپنی ماں کی کرتے ہیں، لباس عروسی میں لپٹی ہوئی ان کی نواسی کے سر پر آشیرواد کا ہاتھ اسی انداز، اسی گرمجوشی کے ساتھ رکھا، جس طرح ہماری ہندستانی روایت میں اپنی سگی قریبی ناتن کے سر پر رکھا جاتا ہے؟
مجھے نہیں معلوم کہ بغیر کسی پیشگی تیاری کے کسی ملک کے رہنما کے اس طرح کے اقدام کو ’سیاسی تدبر‘ (statesmanship) سے تعبیرکیا جانا کہاں تک درست ہے۔ اگریہ مدبرانہ اقدام ہے تو پھراس کے تقاضے بھی ہیں۔ وہ پورے کئے جائیں گے یا نہیں؟ ہرچند کہ یہ پیش گوئی نہیں کی جاسکتی کہ اس کا حتمی نتیجہ کیا نکلے گا، لیکن یہ اعتراف توکرنا ہوگا کہ پاکستان کے تعلق سے ملک کے اجتماعی ماحول میں ماقبل ناقابل تصور انقلابی تبدیلی نظرآئی ہے۔ حیرت ہے کہ نہ میڈیا میں زہراگلا جارہا ہے اورنہ تاریخ کے حوالے دے کر پیش قدمی سے روکنے کے دلائل دئے جارہے ہیں۔ یہ اقدام بیشک اتنا اچانک تھا کہ ہرملاقات سے قبل ہندپاک رشتوں کو سبوتاز کرنے والے بے دست و پارہ گئے۔بھاجپائیوں کو گویا سانپ سونگھ گیا ہے جو ہند پاک رشتوں میں ہر پیشقدمی پر آسمان سر پر اٹھا لیتے تھے۔ ماحول کی یہ تبدیلی اگردیرپاثابت ہوئی تو بیشک ملک اورخطے کے لئے نہایت مبارک ثابت ہوگی۔ اس لئے اندیشوں اوروسوسوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہم اس کا پوری گرم جوشی سے خیرمقدم کرتے ہیں۔ بھلائی کا ظہورکہیں سے، کسی بھی طرف سے ہو، اس کی حوصلہ افزائی اورستائش لازم ہے۔
شیوسینا نے مودی جی کے اس ’جمپ ‘پرایک واجب سوال کیا ہے۔ ’’اگرکانگریس کا وزیراعظم اچانک اس طرح لاہور یاکراچی چلا جاتا تو کیا اس وقت بھی بھاجپائی اسی طرح جشن مناتے ہوتے جس طرح اب منا رہے ہیں؟‘‘ جواب صاف ہے :’ہرگزنہیں‘۔ اگرمودی کے بجائے من موہن سنگھ ہوتے تو پورے ملک میں ہنگامہ برپا ہوجاتااور ’’دیش بھکتی‘‘ کے نام پر ملک کو بدامنی کے غار میں دھکیل دیا گیاہوتا۔ ایک صاحب نے فیس بک پر سشما سوراج کا 26ستمبر2013کا ٹوئیٹ پوسٹ کیا ہے جس میں انہوں نے وزیراعظم من موہن سنگھ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ نوازشریف سے ملاقات نہ کریں۔ یہ ملاقات یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران نیویارک میں ہوئی تھی۔ لیکن اب ان کا نظریہ بدل گیا ہے۔ انہوں نے مودی کے لاہورجانے کی اطلاع ملتے ہی ٹوئیٹ کیا: ’یہ ہے ، سیاسی مدبرجیسا، پڑوسی سے ایسے ہی رشتے ہونے چاہئیں۔‘‘ لیکن ایک اہم فرق ہم نے نوٹ کیا ہے ۔ ان کے سابقہ ٹوئیٹ کودوسال میں صرف 170نے لائک اور478نے ری ٹوئیٹ کیا جب کہ موجودہ کوچارہی دن میں 470نے لائک اور1232نے ری ٹوئیٹ کیا ہے۔ یہ فرق اس بات کا مظہر ہے کہ رائے عامہ پاکستان کے ساتھ رگڑے جھگڑے کے نہیں، بہتررشتوں کے حق میں ہے۔
سشماسوراج پارٹی کی وفادار ہیں۔ دونوں مواقع پر ان کا ردعمل ’’پارٹی مفاد‘‘ کے عین مطابق ہے۔ ہر چند کہ سابق ٹوئیٹ قومی مفاد کے عین منافی ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ سینئرپارٹی لیڈرکی روش پر مودی کا قول ’’ سب سے پہلے وطن‘‘ صادق نہیں آتا ۔ بھاجپا کا نظریہ بیشک یہی رہا ہے:’’ پارٹی پہلے، وطنی مفادپیچھے۔‘‘ لیکن یہ شکوہ صرف بھاجپا سے ہی کیوں؟ جو کام اپوزیشن میں رہ کر بھاجپا کررہی تھی، اب وہی کانگریس کررہی ہے۔ پارٹی کے لیڈروں نے مودی کی لاہور جست پر جو سوال اٹھائے ہیں، وہ بجا سہی ، مگر یہ اعتراف بھی ہونا چاہئے تھا کہ اس سے ماحول میں خوشگواری آئی ہے ۔ اس پر قائم رہیں۔ یہ انتباہ بھی لازم تھا کہ اس ماحول کو اپنے من موجی پن سے خراب نہ کردیں۔ اچھا ماحول مشکل سے مہربان ہوتا ہے۔ روٹھ جاتا ہے تو ’’تم مناتے رہو ، ہم نہ مانیں گے صنم ‘‘ کی ہی پکار آتی رہتی ہے۔
لاہورمیں مودی کے اچانک ’’ٹپک پڑنے‘‘ پر ڈاکٹرظفرمحمود، سابق افسرکاربہ خاص، پی ایم او، سیکریٹری سچرکمیٹی نے ’ملی گزٹ ‘‘ میں بڑامعتدل اورحقیقت افروزتبصرہ کیا ہے۔انہوں نے مودی کے اس اقدام کو بڑا ہی دلچسپ نام"statesman-like" یعنی ’’دیکھنے میں سیاسی مدبرجیسا‘‘لکھا ہے۔ ظاہر ہے جس لیڈرکی زندگی کا طرہ امتیاز ’’راج دھرم‘‘ سے چشم پوشی اور اقلیتی فرقہ کے خون سے پیاس بجھانے کی للک، پاکستان کے خلاف مستقل زہرافشانی رہا ہو، اس سے اگرایک کام عمدہ ہوجائے تو اس پر’’ سیاسی تدبر‘‘ کی سند اور’’سیاسی مدبر‘‘ statesmanکا تغمہ نہیں دیا جاسکتا۔سیاسی تدبر کا مطلب اچانک بے سوچے سمجھے کچھ غیرمتوقع کرلینا نہیں بلکہ دورتک سوچ سمجھ کر اوراچھی طرح غوروفکر کے بعد فیصلہ کن قدم ہوتا ہے۔ بیشک بغیرسوچے سمجھے کام ایسا ہی ہوگیا جیسا کوئی کہنہ مشق سیاسی مدبر کرگزرتا ہے۔ماضی قریب میں صرف چھ رہنما صحیح معنوں میں سیاسی مدبر کہلائے جاسکتے ہیں۔ ونسٹن چرچل، گاندھی جی، جناح صاحب، ہنری کسنجر،شہید شاہ فیصلؒ اورعلامہ خمینیؒ ۔ 
خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ ہوا۔ ڈاکٹر محمودنے لکھا ہے کہ ابھی حال ہی میں مودی صاحب عرب امارات گئے، ترکی گئے۔ اس سے قبل انہوں نے دہلی میں مقیم مسلم ممالک کے سفیروں سے ایک خاص تقریب میں(جس کا اہتمام سراج الدین قریشی صاحب نے کیا تھا) ملاقات کی تھی ۔ ان ملاقاتوں سے شاید ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ ’بڑاعالمی سیاسی قائد‘ بننے کا خواب پورا کرنے کے لئے 56انچ کی چھاتی نہیں بلکہ 56 اسلامی ممالک کے ساتھ راہ ورسم رکھنی ہوگی اور پاکستان کے ساتھ دائمی شکررنجی کو ترک کرنا ہی ہوگا۔بڑے مسلم خطے کی طرف راستہ پاکستان ہوکر ہی جاتا ہے۔ ممکن ہے ظفرصاحب کا یہ قیاس درست ہو اورنریندرمودی جی کے ذہن میں، جو سنگھ کی تربیت کی بدولت سکڑ کر چھوٹا سا رہ گیا ہے، اتنی بڑی بات آگئی ہو۔
ڈاکٹرمحمود نے کانگریس کے دوراقتدار میں مسلمانوں کے ساتھ ناانصافیوں کو حوالہ دیا ہے۔ ایس سی؍ ایس ٹی روزرویشن میں مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کو محروم کرنے کا شکوہ بھی دوہرایا ہے۔انہوں نے اس ماحول کا بھی تذکرہ کیا ہے جو سنگھ پریوارنے اقلیت کے خلاف ملک میں بنایا ہے ۔جس کے نتیجہ میں داردی جیسا سانحہ پیش آیا ۔اس پس منظر میں انہوں نے مودی کو مشورہ دیا ہے کہ ان کواپنی پارٹی کی روش بدلنی ہوگی۔ ان کا یہ مشورہ صائب ہے ۔یہ مشاہدہ بھی کیا ہوگا کہ مودی کے اس اچانک ’پاکستان پیار‘ کے کڑوے گھونٹ کو ان کی پارٹی اور پریوار نے امرت بتا کر پی لیا ہے۔لیکن اگرکسی دانشور کا یہ خیا ل ہے کہ جو ناانصافی کانگریس کے دورمیں ہوتی رہی اس کا تدارک مودی کے دور میں ہوجائیگا، تو شاید اس پر یہ کہاوت صادق آجائے کہ’’ اندھے کے آگے روئے، اپنے بھی نینا کھوئے۔‘‘ مطالبہ اٹھا بجا، مگرملت کو اپنی بااختیار ی کی راہ خود تلاش کرنی ہوگی۔ ٹھیک ہے سیاسی مطالبہ کیجئے مگر پانی کی طلب ہے تو کوہ کنی خود کرنی ہوگی۔
اس موقع پر الجزیرہ نے آرایس ایس کے سابق ترجمان اوراب بھاجپا کے جنرل سیکریٹری رام مادھو کا چند روز پرانا انٹرویو نشرکیا ہے جس میں انہوں نے ’اکھنڈ بھارت ‘کا راگ الاپا ہے۔ پارٹی نے ’اکھنڈ بھارت‘ کے نعرے سے کنارہ کرلیا ہے۔رام مادھو نے بھی کچھ لیپا پوتی کی ہے۔ بہرحال یہ بھی ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔ لیکن ہم توان سے اتنا تو کہہ ہی سکتے ہیں کہ کانٹوں کا بیج بونے والوں کو آم کی امید نہیں کرنی چاہئے۔ بھارت اگر ایک قطعہ آراضی کا نام ہے تو بیشک وہ ایک ہے۔ لیکن اگرایک قو م کا نام ہے تورام مادھو جی یہ بتائیں اس کو کھنڈ کھنڈکرنے کا کام کون کررہا ہے؟آج ہماری شناخت ہندستانی کی صورت میں نہیں، بہاری، بنگالی، پنجابی ، آسامی، مراٹھی کی صورت میں یاہندو،مسلمان ، سکھ، عیسائی یا برہمن، ویش، مراٹھا وغیرہ کی صورت میں ہوتی ہے۔ پہلے اس بھارت کو ، جو ایک قوم کا نام ہے، سمرستا کے رشتے میں پروئیے۔ نفرت کا کھیل بند کیجئے۔ سب کے ساتھ انصاف کیجئے۔ دنیا کو دکھا دیجئے کہ اس ملک کی اکثریت اقلیت کے درپئے آزار نہیں،اس کی محافظ ہے۔ ان کے حقوق، ان کے جان و مال سب محفوظ ہیں۔ ان محرکات کا ازالہ کیجئے جو تقسیم وطن سے پہلے صرف اندیشہ تھے اورجو اب حقیقت بن گئے ہیں، تاکہ پاکستان اوربنگلہ دیش کے عوام یہ محسوس کرنے لگیں کہ ہم نے اپنی سرحد الگ کھینچ کر غلط کیا تھا۔ اکھنڈ بھارت چاہتے ہو تو آغاز اس بھارت سے کرو جس میں تم کٹہلی کی کھیتی کرنے پر یقین رکھتے ہو۔آج بس اتنا ہے۔ ایک مرتبہ پھر اس آرزو کا اظہار کے آنے والے دن خوشگواری کے دن ہوں۔ آمین۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا