English   /   Kannada   /   Nawayathi

شرمیں خیرکاپہلو

share with us

مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی ڈونالڈٹرمپ کاشوق ہے،مسلمانوں کے تعصب کے حوالے سے ان کاروّیہ معذرت خواہانہ ہرگزنہیں،ڈیموکریٹک پارٹی والے انہیں (Carvan Barker)’’قافلے کابھونکو‘‘کہتے ہیں، ان کااشارہ دراصل انگریزی کی اس ضرب المثل(The Dog bark but the carvan Moveson) کی جانب ہے کہ ’’کتے چاہے بھونکتے رہیں قافلہ رواں دواں رہتاہے‘‘۔ڈونلڈٹرمپ نے نیوجرسی کے رہنے والے عرب مسلمانوں پریہ الزام بھی لگایاہے کہ جب ۱۱ستمبرکاسانحہ ہواتو انہوں نے اس کاجشن منایاتھا۔ایسی بیہودہ باتیں جن کاحقیقت سے دورکاتعلق نہیں لیکن ڈونالڈٹرمپ اکثرپروپیگنڈے کیلئے ایسے مضحکہ خیزبیانات بڑی آسانی کے ساتھ دیتے رہتے ہیں اورتحقیقات کے بعدشرمندہ ہونابھی ضروری نہیں سمجھتے اورمین اسٹریم میڈیاان کے ایسے بیانات کی ہمیشہ تردیدکرتے رہتے ہیں۔ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے جرسی سٹی کے میئراسٹیون فلپ نے اپنے ٹوئٹ میں کہاکہ ٹرمپ کی یاتویادداشت خراب ہے یاپھروہ جانتے بوجھتے ہوئے سچائی کاتمسخرکرتے ہیں،یہ دونوں باتیں ری پبلکن پارٹی کیلئے قابل تشویش ہونی چاہئیں۔
رائے عامہ کے لحاظ سے ڈونالڈٹرمپ اس وقت سب سے آگے ہیں اوراسی لیے وہ امریکامیں رہنے والے مسلمانوں کے خلاف بھی پوری شدت کے ساتھ بول رہے ہیں۔ری پبلکن پارٹی کے سبھی صدارتی امیدواروں کی جانب سے اسلام کے حوالے سے اس طرح کی ہرزہ سرائیاں کی جارہی ہیں،جن کی کوئی حدنظرنہیں آرہی۔پیرس حملوں کے بعدسے تو ان میں بطورخاص خطرناک حدتک شدت آئی ہے، جس کے نتائج یقینامثبت نہیں ہوں گے۔ٹرمپ نے سرعام کھلے لفظوں میں کہہ دیاہے کہ’’ امریکاکے پاس اس کے سواکوئی راستہ نہیں بچاکہ مساجدکوبندکردیاجائے‘‘۔موصوف کاکہنایہ تھاکہ’’ امریکامیں رہنے والے مسلمانوں کاڈیٹابیس بنوائیں گے ‘‘۔سول سوسائٹی کے مختلف اداروں نے برملااحتجاج کرتے ہوئے کہاہے کہ ایسی تجویزدینے اورایسی باتیں کرنے پرڈونلڈٹرمپ کو شرم آنی چاہئے۔
ری پبلکن پارٹی کے ایک صدارتی امیدوارڈاکٹربین کارسن نیوروسرجن ہیں۔اسلام اورمسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائیوں میں وہ بھی ڈونلڈٹرمپ سے پیچھے نہیں ہیں۔پچھلے دنوں جب شامی مہاجرین کوامریکامیں پناہ دینے کاسوال اٹھاتوڈاکٹرکارسن کاکہناتھاکہ’’ اگرایساہواتوبالکل ایساہی ہوگاجیسے آپ اپنے گھرکے قریب پاگل کتوں کوآزادچھوڑدیں‘‘ ۔ بقول ان کے’’ اگروہ صدربنے تووہ شامی مسلمانوں کونہیں بلکہ صرف شامی عیسائیوں کوامریکامیں پناہ دیں گے‘‘۔جیب بش بھی ری پبلکن پارٹی کے ایک امیدوارہیں۔انہوں نے بھی یہ یہی بات کہی ہے ۔امریکی اسلامی روابط کونسل کے ترجمان نے الجزیرہ ٹی وی کے ساتھ گفتگوکے دوران کہاکہ’’ ڈاکٹرکارسن کی باتیں انسان کیلئے ناقابل تصورہیں کیونکہ پاگل کتوں کا صرف یہی حل ہوتاہے کہ انہیں ماردیاجائے‘‘۔یادرہے کہ صدراوبامانے اپنی پہلی انتخابی مہم میں تویہاں تک ہرزہ سرائی کی تھی کہ ’’اگران کے دورِ صدارت میں امریکا پر نائن الیون کی طرح دوبارہ حملہ ہواتواس کے جواب میں خانہ کعبہ پرحملہ کردیں گے‘‘۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک صدارتی امیدواربرنی سینڈرزکہتے ہیں کہ امریکامیں بڑھتاہوااسلام فوبیاان کیلئے قابل تشویش بات ہے۔لوگ ووٹ ہتھیانے کیلئے ایک مذہبی گروہ کو داؤ پرلگارہے ہیں۔امریکاایسی باتوں کیلئے نہیں،ٹرمپ اوران کے دیگرہم نوااسی نکتے کوسمجھنے سے قاصرہیں۔ایک زمانے میں امریکامیں سیاہ فاموں پرپابندی تھی کہ سفیدفام امریکیوں کے ساتھ مل کرکھاپی سکتے تھے نہ ان کے ساتھ بیٹھ سکتے تھے اورنہ ہی ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ڈاکٹرمارٹن لوتھرجوامریکامیں سیاہ فاموں کے حقوق کیلئے شہرت رکھتے ہیں ، انہوں نے ۱۹۶۷ء میں ہی خبردارکردیاتھاکہ’’ نسلی تعصب بہت بری شے ہے کیونکہ اس کانتیجہ بالآخرنسل کشی ہوتاہے۔اگرکوئی یہ کہتاہے کہ محض اپنی جڑوں کے باعث کوئی اس کے گھر کے قریب رہنے کے لائق نہیں،اگرکوئی کہتاہے کہ میں کھانے کی میزپراس کے ساتھ کھاناکھانے کے لائق نہیںیامیں اس لائق نہیں کہ اس کی مانند ایک اچھااورباوقارذریعہ روزگارمجھے بھی میسرہویااس کے ساتھ ایک ہی اسکول میں پڑھنے کے لائق نہیں توشعوری یالاشعوری طورپروہ یہ کہہ رہاہے کہ میں زندہ رہنے کے بھی لائق نہیں ہوں‘‘۔
امریکامیں نہ صرف نسلی تعصب آج بھی موجودہے بلکہ دن بدن اس میں اضافہ ہورہاہے جس کی بناء پر’’بلیک لائیومیٹر‘‘نامی ایک تنظیم معرض وجودمیں آگئی ہے جس کی بنیادسیاہ فام امریکی نوجوانوں نے رکھی جومحسوس کرتے ہیں کہ امریکامیں قانون نافذکرنے والے ادارے سیاہ فاموں کے ساتھ تعصب روارکھتے ہیں اوراپنے تحفظ کی آڑمیں سیاہ فاموں کو بے دریغ گولی ماردی جاتی ہے۔جہاں تک ملازمتوں کے حصول کاتعلق ہے ،تحقیقی مطالعے سے ثابت ہواہے کہ جن علاقوں میں ری پبلکن پارٹی کاتسلط ہے وہاں ملازمتیں دینے والے ادارے ان امیدواروں کوشاذہی انٹرویوکیلئے بلاتے ہیں ،جن کے سوشل نیٹ ورک پرپروفائل سے ظاہرہوکہ وہ مسلمان ہیں۔
PEWریسرچ سنٹر کے مطابق جن دس امریکی دس ریاستوں میں ۲۰۱۲ء کے صدارتی انتخابات کیلئے ری پبلکن پارٹی کے میدواروں کاتناسب سب سے زیادہ تھا،وہاں ملازمتوں کیلئے درخواست دینے والے سترہ فیصد عیسائی امیدواروں کوانٹرویوکیلئے بلایاگیاتھا،جب کہ اس کے مقابلے میں مسلمان امیدواروں کی شرح صرف دوفیصدتھی۔تجربے کی بنیادپر کہا جاسکتاہے کہ آپ کے نام میں ’’محمد‘‘آتاہے توامریکامیں ملازمت ڈھونڈنے میں آپ کوبے حدمشکلات پیش آئیں گی۔بدقسمتی سے یہ ایک ایسی حقیت ہے جس کاانکارکوئی بھی نہیں کرسکتاحالانکہ اگرآپ گوگل کریں تومعلوم ہوگاکہ ’’محمد‘‘دنیابھرکاسب سے زیادہ مقبول ترین نام ہے۔
احمدمحمدسے جبری اعترافی بیان لینے پراس کاوکیل ذمہ دارافرادکے خلاف ۱۵ملین ڈالرہرجانے کامقدمہ تیارکررہاہے۔اس کے گھروالے کہتے ہیں کہ احمدکی ساکھ پرایک مستقبل دھبہ پڑچکاہے۔انہیں صرف ہرجانہ ہی نہیں چاہئے بلکہ وہ شہرکے میئراورپولیس چیف سے تحریری معافی کابھی تقاضہ کررہے ہیں۔احمدمحمدنے صدراوباماکی توجہ بھی حاصل کی تھی، جس کے بعد اسے اوراس کے گھروالوں کووائٹ ہاؤس میں مدعوکیاگیاتھا۔فیس بک کے خالق مارک ذکربرگ نے بھی ایک منفردگھڑی تخلیق کرنے پرمحمداحمدکوسراہتے ہوئے اسے ملاقات کی دعوت دی تھی۔یہ خاندان اکتوبرہی میں امریکاچھوڑچکاہے لیکن ٹیکساس میں یہ قصہ ابھی تک مشہورہے۔
ابھی پچھلے ہفتے ایک مسجدکے باہرچندلوگوں کے ایک گروپ نے ہاتھوں میں ہتھیار اٹھاکرمسلمانوں کے خلاف مظاہرہ کیا۔ان لوگوں نے ایک جھنڈابھی اٹھارکھاتھاجس پرلکھاتھا کہ امریکاکواسلامیانابندکرو۔امریکامیں شہری آزادہونے کی یونین ACLUکاکہناہے کہ مسلمانوں کی جانب اشارہ کرکے انہیں یوں الگ کرنااوراس خیال کوفروغ دیناکہ ہر اسلامی چیز غیرامریکی ہے،ناانصافی اورامتیازی رویے کی انتہاہے اوراسے ردکرناچاہئے۔ایک مذہبی گروہ کایوں ہواکھڑاکردیناکسی بھی پھسلوان ڈھلوان پرچلنے کے مترادف ہے۔ اس سے ایک ایسی چیزکوفروغ مل رہاہے جواس ملک میں اچھائی کے اصول کے قیام کے صریحاًبرعکس ہے۔امریکی اکابربالخصوص بش فیملی،جوتین نسلوں سے مسلمانوں کی نسل کشی کیلئے باقاعدہ دہشتگردی میں ملوث ہے۔مسلمانوں کونیست ونابود کرنے کی کوشش میں کیوں ناکام رہے؟بلکہ دوسراسوال نہائت اہم ترہے کہ انسداددہشتگردی کے نام پرعالمگیر دہشتگردی پھیلانے اورافغانستان اورعراق وغیرہ پرجارحانہ حملوں کے نتائج یہ نکل رہے ہیں،اسلام کی حقانیت کی طرف مائل اورراغب ہونے والے دنیاکے لوگوں میں امریکی سب سے آگے ہیں ۔خاص طورپرماضی قریب میں(نائن الیون کے بعد) زیادہ برق رفتاری کے ساتھ امریکاہی میں اسلام پھیلاہے اوراس قت وہاں مسلمانوں کی تعداد۹۰لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ آئندہ امریکی صدراگراسمبلی سے مسلمانوں کے خلاف مذموم عزائم کے اعلانیہ اظہارکی مشق میں مصروف ہے تواس کے نتیجے میں بھی امریکی عوام میں اسلام اورمسلمانوں ہی کیلئے ہمدردی پیداہونے کی امیدکی جاسکتی ہے۔ انشاء اللہ

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا