English   /   Kannada   /   Nawayathi

ظالم حکمراں

share with us

یہ کانگریسیوں کی مہارت ہے کہ ملک کو برباد کرنے میں ان کا سب سے زیادہ حصہ ہونے کے باوجود کوئی انھیں ظالم نہیں کہتا۔مگر گنے چنے چند لوگ بہرحال ہیں جو نان بی جے پی نان کانگریس الائنس بنانے کی بات کرتے ہیں۔بہرحال یہ قدرت کا قہر ہی تو ہے کہ کہیں لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور کہیں پانی میں ڈوب کر مر رہے ہیں۔ اور یہ صورتحال آج بی جے پی کی حکمرانی میں ہی نہیں ہے کل کانگریس کی حکمرانی میں بھی تھی۔آج عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں ایک تہائی رہ گئی ہیں مگر عوام کو اس کا فائدہ کتنا ملا؟کوشش کی جارہی ہے کہ گیس کے میدان میں امبانی ،اڈانی اور BPL والے عوام ایک ہی صف میں کھڑے ہوجائیں۔بہت ممکن ہے کہ مستقبل میں یہ دعویٰ بھی کردیا جائے کہ ،مسلمان کیا کریں گے ہم نے اقبال ؒ کے محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔کانگریس اور بی جے پی کی حکمرانی کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ مہنگائی مسلسل بڑھتی رہی ہے کبھی کم نہیں ہوئی۔کبھی پیاز رلاتی ہے تو کبھی لہسن منہ کا مزہ خراب کر دیتی ہے کبھی دال، دال آٹے کا بھاؤ یاد دلادیتی ہے۔۔۔خیر
فی الوقت یہی حال سعودی عرب کا ہے۔آج سے ۴۰ سال پہلے شاہ فیصل ؒ نے جان دینا گوارہ کر لیا تھا ،امت مسلمہ کے کاز سے غداری نہیں کی تھی۔مگر بد قسمتی سے ان کے جانشین ان کی طرح جانباز ثابت نہ ہو سکے۔جانشینوں کے نزدیک اپنی جان اپنا اقتدار دین و ملت سے بڑھ کر تھا۔انھوں نے اپنا قبلہ اپنی سمت بدلی۔وہ غیروں پر نرم اور اپنوں پر سخت بنتے گئے۔اب تو یہ حال ہے کہ دنیا میں کہیں سے کوئی اپنا ان کو نصیحت کردیتا ہے تو وہ انتظار کرتے ہیں کو وہ کب حج یا عمرے کے لئے سرزمین سعودی عرب پر قدم رکھتا ہے ۔اسے دس سال کے لئے داخل زنداں کر دیا جاتا ہے اور ۴۰ یا ۸۰ کوڑوں سے کم سزا نہیں دی جاتی ۔۲۵ سال پہلے جب امریکی فوجیوں کو سرزمین مقدس پرلابٹھایا گیاتو تب ہی اہل دانش کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ اب سعودی عرب کے حالات بگڑیں گے۔ملک میں بد امنی اور بے چینی پھیلے گی۔حکمراں رفتہ رفتہ دین سے پیچھا چھڑائیں گے۔اور عام مسلمان اسلئے یہ سب نظر انداز کریں گے کہ وہ خادم الحرمین شریفین ہیں۔مگر اب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے۔یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے کہ اپنی سلطنت کی حفاظت کے نام پر جن امریکیوں کو ارض مقدس پر لا بٹھایا گیا تھا انھوں نے آج تک ان کی حفاظت کے سلسلے میں کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا ۔اسلئے ابھی چند ماہ پہلے جب یمن کے حوثی باغیوں سے خطرہ لاحق ہوا تو۲۵ برسوں سے جن کے لاڈ و پیار میں ملکی معیشت کا بھٹہ بٹھایاگیا ہے ان کو آوازدینے کی بجائے پاکستان کو دہائی دی گئی۔مگر ہائے افسوس کے پاکستان نے بھی مدد دینے سے انکار کر دیا۔نواز شریف کوئی آمر نہیں منتخب جمہوری وزیر اعظم ہیں۔اور وہاں بڑی مشکل سے تو جمہوریت کی گاڑی پٹری پر آئی ہے ۔اب نئی صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے اسلامی فوجی اتحاد کا ڈول ڈالا جا رہا ہے۔جسمیں بشمول پاکستان ۳۴ مسلم ممالک شامل ہونگے۔مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان کے مشیر خارجہ جناب سرتاج عزیز کا فوری رد عمل یہ تھا کہ انھیں ایسے کسی اتحاد کی خبر نہیں۔سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے کو بھی اس کی اطلاع نہیں۔دوسرے دن پاکستان سے خبر آئی کے وہ اس اتحاد پر غور کریں گے۔پھر بھولے بادشاہ عمران خان نے بھی یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ ایران کے بغیر اتحادکی افادیت مشتبہ رہے گی۔سوال یہ ہے کہ پھر یہ اتحاد کس کے خلاف ہےَ دہشت گردی کی تو باتیں ہی باتیں ہیں۔ ایسا نہ ہو تو پھر ایران کی شمولیت کے بعد قیادت کس کی؟ابھی تو ۳۴ ممالک وہی کریں گے جو سعودی کہیں گے؟لگتا ہے عمران کا داخلہ بھی سعودی عرب میں بند ہونے والا ہے۔دوسری طر ف انڈونیشیاملیشیا اور لبنان نے بھی ایسے کسی فوجی اتحاد کی خبر سے انکار کیا ہے ۔چلتے چلتے یہ بھی بتادیں اسی طرح کے فوجی اتحاد کی کوشش شاہ فیصل مرحوم نے اپنے زمانے میں بھی کی تھی مگر نیک نیت اور مخلص شاہ فیصل کی کوششیں بھی منافق مسلم حکمرانوں کے درمیان بار آور ثابت نہیں ہوئی تھیں۔افسوس کہ وہ سعودی عرب جو کل تک عالم اسلام کا لیڈر تھا سچ یہ ہے کہ اب اسے مختلف ممالک کا حاشیہ بردار بن کر جینا پڑرہا ہے اور یہ ان کی غلط پالیسیوں کے نتائج ہیں۔زوال جب بھی آتا ہے ہمہ گیر ہوتا ہے۔اس کا اثر زندگی کے ہر شعبے میں دکھائی دیتا ہے۔اورفریب کاروں کو ہر وہ شخص دھوکہ دیتا ہے جس کے بس میں انھیں دھوکہ دینا ہوتا ہے۔ڈھائی سال پہلے ایک موہوم خدشے کے پیش نظر جس فراڈئے کوڈالروں کی برسات کر کے مصر کی جائز حکومت کو گرانے میں مدد دی گئی تھی آج وہی سعودی شاہوں کو آنکھیں دکھا رہا ہے ۔
مصر کے آمر جنرل عبدالفتاح السیسی نے (ناچیز کے نزدیک یہ بھی مصطفیٰ کمال اتاترک کی طرح منافق ہے)سعودی حکمرانوں سے منہ مانگی امداد(خیرات) مانگی ہے ۔ سعودی عرب نے جب دینے میں آنی کانی کی تو اس کٹھ پتلی نے دھمکی دی کہ اگر سعودی نہیں دے گا تو وہ ایران سے رجوع کریں گے ۔کتنی حیرت انگیز دھمکی ہے یہ!بس جناب سعودی تجوریوں کے منہ کھل گئے۔عراق کے جلیل القدر اخوانی قائدمحمد احمدالراشد اپنی کتاب ’’آزادی سے فرار‘‘ میں ایران کے تعلق سے لکھتے ہیں’’ انھوں نے لبنان مین حزب اللہ کواگایا ،شام میں نصیریوں کی حکومت قائم کردی ،یمن میں رافضی انقلابات کو جنم دیااور مصر پر قبضے کے لئے اس کے قدم آپڑے‘‘ حالانکہ مرسی حکومت قائم ہوتے ہی پہلی بار ایرانی بحری بیڑے کو نہر سوئز سے گذرنے کی اجازت دی گئی ،اس کے باوجود ایران کو اخوانی برداشت نہیں ۔نہ مصر میں نہ شام میں۔ورنہ بشارالاسد کی حمایت کے کیا معنیٰ؟ناچیز کئی بار لکھ چکا ہے کہ ایران کے لئے اسد سے بہتر حمایتی اخوان ثابت ہونگے مگر اب دین سے لینا دینا کس کو ہے؟ایران کے تعلق سے تو اب ایسا لگتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر صیہونی مقتدرہ سے ہی تعلق رکھتا ہے۔گزشتہ۳۵ سالوں میں انھوں نے جو کچھ کیا وہ تقیہ تھا۔اب مسئلہ ہے ہندوستانی شیعہ حضرات کا ۔جس طرح یونائیٹیڈ اسٹیٹس آف سوویٹ رشیا کے انہدام پر ہندوستانی کمیونسٹ ہکا بکا رہ گئے تھے۔کچھ وہی حال ہندوستانی شیعہ حضرات کا بھی ہے۔وہ لوگ جو واقعتاً دین پسند ہیں وہ ایران کے رنگ بدلنے پر کشمکش میں ہیں کہ کیا کریں۔ایران کا ساتھ دیں یا دین کا ۔امید تو یہی ہے کہ وہ جلد ہی ذہن بنا لیں گے۔اور ایران سعودی یا ترکی پر تکیہ کرنے کے بجائے اپنے عمل اور اللہ پر تکیہ کریں گے۔
یہ بھی ایک افسانہ ہے کہ سعودی حکومت حاجیوں کی خدمت کرتی ہے۔ ناچیز نے بالکل ابتدا میں لکھا ہے کہ جو حکمراں ظالم ہوتے ہیں قدرت بھی ان کے خلاف غیض و غضب کا اظہار کرتی ہے۔اس بار حج سیزن میں بار بار حادثے ہوئے ہیں۔لادین حکمرانوں کی طرح سعودیوں نے بھی کرین حادثے کے بعد کروڑوں کے معاوضے کا علان کیا تھا ۔کئی زخمی حاجیوں کے تعلق سے ناچیز کو یہ علم ہوا ہے کہ انھیں ابھی تک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملی ہے۔یعنی ایرانیوں کی طرح سعودی بھی تقیہ سے کام لے رہے ہیں۔ ہونا بھی یہی چاہئے سعودیوں کو ایرانیوں سے کسی بھی حالت میں پیچھے نہیں رہنا چاہئے۔کاش کہ وہ حقیقی ترقی کے معاملے میں بھی ایران کا تعاقب کرتے۔حاجیوں کی خدمت تو بعثت نبویﷺ سے پہلے بھی کی جاتی تھی اس وقت جب عرب فقیر تھے۔آج تو قدرت نے انھیں خزانے دے دئے ہیں۔پھر فی زمانہ ٹورسٹ بوجھ نہیں کمائی کا ذریعہ ہیں۔ہر سال وہ حاجیوں پر روپوں کا بوجھ بڑھاتے جارہے ہیں۔دس سال پہلے جو حج ۷۰؍۷۵ ہزار روپئے میں ہوتا تھا وہ آج تین ساڑھے تین لاکھ میں ہو رہا ہے۔کیوں؟پھر اس وقت بیت اللہ سے ۱۰۰ میٹر کے فاصلے پر رہائش مہیا تھی آج تو سنا ہے۷ کلو میٹر سے پہلے رہائش ممکن نہیں۔حرم شریف کی توسیع کیوں ہو رہی ہے؟زیادہ سے زیادہ عازمیں کو Accomodate کرنے کے لئے یا زیادہ سے زیادہ آمدنی کے لئے۔بخدا یہ سب گوارہ تھااگر ہماری قیادت ایسی بے وقوف بزدل اور ناکارہ نہ ہوتی جیسی فی الوقت ہے۔اگر انھیں دین و ملت سے زیادہ اقتدار پسند نہ ہوتا۔ہم جیسے لوگ تو بس دعا کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیں ایسے حکمرانوں سے نجات دلائے اور حالات کے تقاضے کے مطابق قیادت عطا فرمائے۔مگر اللہ تعالیٰ خود قرآن میں اس تعلق سے جو فرماتا ہے مولانا طفر علی خاں مرحوم نے اس کا منطوم ترجمہ کچھ یوں کیا ہے

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا