English   /   Kannada   /   Nawayathi

صرف آٹھ ماہ میں یہ حیرت انگیز کمی کیسے واقع ہو گئی ؟

share with us

جس میں پولیس کی تحویل میں 111 اموات بھی شامل ہیں اور 330 معاملات پولیس تحویل میں زیادتی کے پائے گئے ہیں اور 24916 معاملے دیگر زمرے کی زیادتی سے متعلق پائے گئے ہیں 
اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ ہر برس 26 جون کو تشدد کے شکار افراد کے ساتھ اظہار ہمدردی کے عالمی دن کے طور پر مناتا ہے اور اس دن دنیا بھر میں تشدد کے شکار افراد کے ساتھ اظہار ہمدردی کی جاتی ہے۔ گزشتہ برس اسی دن کی مناسبت سے معاصر انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا نے ایک تجزیاتی رپورٹ شائع کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ہندوستانی جیلوں میں روزانہ 43 قیدی پولیس تشدد کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں، پولیس تحویل میں تشدد کے واقعات آئے دن میڈیا رپورٹوں کے ذریعے منظر عام پر آتے ہی رہتے ہیں لیکن اس کا کوئی نوٹس نہ تو حقوق انسانی کمیشن نے کبھی لیا ہے اور نہ ہی متعلقہ وزارت اس معاملے کی سنگینی پر کوئی پہل کی ہے بس روایتی خانہ پری کے لیے پولیس کو قومی حقوق انسانی کمیشن ایک گائیڈ لائن کا سرکولر ارسال کر کے اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کر لیتا ہے اور نہ ہی جیل انتظامیہ نے زیر حراست ہونے والی اموات کے بارے میں خود احتسابی کے لیے تیار ہے ۔ اس لیے یہ مسئلہ دن بدن بدترن صورت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔
ماضی کے کچھ واقعات پر نظر ڈالیں 2012 میں پونہ کی یروڈا جیل کی انتہائی سیکورٹی والے سیل میں قتیل صدیقی کی موت نے کئی سوالات جنم دیئے تھے لیکن آج تک جوابدہی سے عاری پولیس انتظامیہ نے ان سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد بھی جیلوں میں غیر فطری اموات ہوتی رہیں ، لیکن کسی واقعے کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے نے ایک سال قبل اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے 47 اضلاع پر کئے گئے ایک سروے میں پتہ چلا ہے کہ ہندوستان میں ہر سال 1.8 ملین افراد پولیس تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ہندوستان میں قائم قومی انسانی حقوق کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ 43 افراد پولیس زیادتی کے سبب ہلاک ہو جاتے ہیں۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ پولیس حراست میں ہونے والی زیادہ تر اموات قیدیوں کے ساتھ پولیس زیادتی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
قومی حقوق کمیشن نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ یہ اعداد و شمار ان شکایتوں کی بنیاد پر تیار کئے گئے ہیں جو قومی انسانی حقوق کمیشن میں درج کرائے گئے گویا ایسے ہزاروں واقعات کا احاطہ نہیں ہو سکا جن کے بارے میں قومی حقوق انسانی کمیشن کے پاس کوئی شکایت نہیں پہنچی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ زیر حراست اموات کی سب سے زیادہ شکایات جموں و کشمیر اور ملک کی شمال مشرقی ریاستوں سے موصول ہوئیں ہیں جہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے بدامنی کا ماحول برپا ہے۔ رپورٹ میں پولیس کی جانب سے دی جانے والی اذیتوں کی وضاحت کچھ اس طرح کی گئی تھی۔ کہا گیا تھا کہ زیر حراست افراد کو ذہنی اور جسمانی اذیت کا شکار بنایا جاتا ہے اور بعض اوقات تشدد کی انتہا کی وجہ سے انہیں ہمیشہ کے لئے معذور کر دیا جاتا ہے۔
جسم کے نازک مقامات پر بجلی کا شارٹ لگایا جانا، جلتے ہوئے اسٹوو کو دونوں پیروں کے درمیان رکھ دینا نیز لوہے کی راڈ سے دونوں پیروں کے درمیان تکلیف دینا پولیس زیادتی کا آزمودہ طریقہ ہے۔ گویا اذیت دینے کے انتہائی خطرناک طریقوں کا استعمال ہماری پولیس کھلے عام کرتی ہے، لیکن اس طرح کی رپورٹوں کے باوجود پولیس زیادتی کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی موثر اقدام تو درکنار ان واقعات کا کوئی نوٹس تک نہیں لیا جاتا، ان واقعات سے نہ صرف پولیس کی سفاکی اور ظالمانہ کردار کا پتہ چلتا ہے بلکہ ہندوستان میں حقوق انسانی کے تحفظ کی اصل تصویر سامنے آتی ہے۔
1857 میں پہلی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریز حکمرانوں نے ہندستانی عوام پر تادیر اپنی حکمرانی برقرار رکھنے کے لیے 1861 میں پہلی بار پولیس فورس بنانے کا منصوبہ طے کیا اور اس طرح ایک ایسی پولیس کا قیام عمل میں آیا جو حکمراں طبقے کی منشا اور خواہش کے مطابق ہندوستانی عوام پر نظر رکھے ان کو حکومت کے خلاف دوبارہ پھر کبھی کھڑا نہ ہونے دے ۔ اس طرح پولیس ایکٹ 1861 وجود میں آیا جس کا اصل ہدف انگریز حکومت کا تحفظ اور ہندوستانیوں کی آزادی و جمہورت کی صدا کو دبانا تھا ، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آزاد ہندوستان کے حکمرانوں نے بھی آج تک اس ایکٹ کواسی شکل میں دنیا کی سن سے بڑی جمہوریت پر حکمرانی کے لیے استعمال کر رہی ہیں ۔ پولیس ایکٹ کی تبدیلی کے لیے وقفے وقفے سے اٹھنے والی آوازوں کو دبا دیا جاتا ہے۔ 
غور طلب امر یہ بھی ہے کہ وزیر موصوف کا جواب اقوام متحدہ کی ایک سال قبل جاری اس رپورٹ کی نفی کرتا ہے جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ ہندوستانی جیلوں ہر روز 43 قیدی پولیس زیادتی کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں کرن رجو جی نے یہ جو تازہ اعداد و شمار بتائے ہی حیرت انگیز طور پر کم ہیں اگر صحیح معنوں میں یہ کمی واقع ہوئی ہے ہے تو اس کے ثبوت کیا ہیں ؟ کیا اقوام متحدہ کہ پہلی والی وہ رپورٹ ان کے سامنے نہیں آسکی تھی ؟ آئے دن ہونے والی زیر حراست اموات نے ملک کے سنجیدہ شہریوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ حکومتیں اگر حقائق کو نظر انداز کرنے کے رویے پر اسی طرح کاربند رہیں تو ملک کے عوام میں مایوسی اور خوف گھر کر جائے گا۔ یہ صورتحال ایک صحت مند مستقبل کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو گی اور موجودہ حالت میں تبدیلی پولیس کی جوابدہی طے کئے بغیر ممکن نہیں ہے.

(بشکریہ ایشیا ٹائمز ،نئی دہلی )

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا