English   /   Kannada   /   Nawayathi

کپوشن سے جوجھتا بچپن

share with us

یونیسیف گلوبل نیو ٹریشن ڈبیٹ 2012کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 20ملین سے زیادہ 15فیصد نو زائدہ بچے ولادت کے وقت مقررہ وزن سے کم ہوتے ہیں ۔ ان میں سے ایک تہائی بھارت کے ہیں ۔جنوبی ایشیا میں یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہے ۔ ہر چار بچوں میں سے ایک کا وزن 2,500گرام سے بھی کم ہوتا ہے ۔ بھارت میں لوبرتھ ویٹ low birth weightکے واقعات 20فیصد سے بھی زیادہ ہیں ۔مورٹینہ ، نارو ، پاکستان ، فلپائن اور سب سہارا افریقہ میں اس طرح کے زیادہ سے زیادہ واقعات 10فیصد ہی ہوتے ہیں ۔اس رپورٹ کے مطابق دنیا کے 24ممالک میں سے ان واقعات کا 50فیصد وزن صرف 5ممالک پر ہے ۔ یہ اس وقت ہے جب پیدائش کے وقت دنیا بھر میں آدھے بچوں کا وزن نہیں کیا جاتا ۔ اس سے نو مولودوں کی دیکھ ریکھ میں ہونے والی لا پرواہی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اس لئے لو برتھ ویٹ کے صحیح اعداد کا تخمینہ ایک بڑا چیلنج ہے ۔جن 5ممالک پر لو برتھ ویٹ کا آدھا وزن ہے ان میں پیدائش کے وقت بچوں کا وزن 2500گرام سے بھی کم درج کیا گیا ۔ صرف اکیلے بھارت میں ایسے بچے 7.5 ملین تھے اور باقی دنیا میں 9.5ملین ۔ پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد 1.5ملین نائیجریا 0.8 ملین , بنگلہ دیش 0.7ملین اور فلپائن 0.5ملین نوٹ کی گئی ۔

بچے کو پیدائش کے بعد ماں کا گاڑھا دودھ دینا چاہئے ۔ اس سے وہ کئی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے ۔ ماں کے دودھ میں قدرت نے بچے کے لئے ضروری غذائیت رکھی ہے ۔جو اسے کپوشن جیسے خطرناک مرض سے بچاتا اور اس کی نشودنما میں مددکرتا ہے ۔ڈاکٹروں کی مانیں تو6ماہ تک بچے کو صرف ماں کا دددھ دینا چاہئے ۔ اس کے سوا کچھ بھی نہیں یہاں تک کہ پانی بھی نہیں ۔مذہب اسلام میں بچوں کو ماں کا دددھ پلانے کی تاکید کی گئی ہے اسلام میں لڑکوں کو پونے دو سال اور لڑکیوں کو سوا دو سال دودھ پلانے کا حکم دیا گیا ہے ۔سوائے اس کے کہ کسی بیماری کی وجہ سے ماں کے دودھ سے بچے کو نقصان پہنچنے کا خطرہ لاحق ہو ۔ خواتین اپنی صحت کے خراب ( کمزور) ہونے یا پستان لٹکنے کے ڈر سے بچوں کو دودھ پلانے سے کتراتی ہیں ۔بریسٹ فیڈنگ کی وجہ سے خواتین کئی طرح کی پریشانیوں سے محفوظ رہتی ہیں جن میں سے ایک بریسٹ کینسر بھی ہے ۔ دودھ نہ پلانے کی وجہ سے ماں کا بچے کے ساتھ جڑاؤ پیدا نہیں ہو پاتا جس کی وجہ سے اس کا بچے کی نشودنما پر خراب اثر پڑتا ہے ۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق 2006میں بریسٹ فیڈنگ کا تناسب 44فیصد تھا جو بڑھ کر2012میں 64فیصد ہو گیا یونیسیف کے2010کے تخمینے کے مطابق پانچ لاکھ حاملہ عورتوں نے آئرن فولک ایسڈ اور آیوڈین سپلی منٹ کا استعمال کیا تھا جس کا 6ماہ کے ایک ملین بچوں کو فائدہ ملا ۔ ان میں غذائیت کی کمی کی شکایت نہیں پائی گئی ۔
تقریبا 20کروڑ آبادی والے اترپردیش میں کپوشن کی تصویر اور بھی بھیانک ہے ۔ خود سرکاری اعداد و شمار اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ ریاست میں 5برس سے کم عمر کے زیادہ تر بچے کپوشت ہیں ۔ 2015 کی عالمی نیوٹریشن رپورٹ کے مطابق اتر پردیش کی حالت افریقہ کے تمام دیشوں سے خراب ہے ۔ غذائیت کی کمی سے جسمانی نشودنما پر تو اثر پڑتا ہی ہے اس کا سب سے زیادہ اثر بچوں کے ذہن یا دماغ کی نشودنما پر پڑتا ہے ۔ بچپن میں غذائیت کی کمی بچے کی دماغی صحت کو وہ نقصان پہنچاتاہے جس کی بھرپائی کبھی نہیں ہو سکتی ۔ غذائیت کی کمی کے شکار بچوں کے ذہن کی نشودنما ٹھیک سے نہیں ہو پاتی ۔ یہی وجہ ہے کہ بیچ میں پڑھائی چھوڑنے والوں میں کپوشت بچوں کا اوسط زیادہ ہوتا ہے ۔ نیشنل چائلڈ ہیلتھ پروگرام کے تحت دسمبر2013میں اتر پردیش کے 98لاکھ بچوں کی صحت کی جانچ کی گئی تھی ۔ ان میں سے 35لاکھ بچے کسی نہ کسی بیماری سے متاثر تھے ۔ سکریٹری صحت و علاج پرویر کمار نے بتایا کہ ریاست میں پیدائش سے لے کر 19سال کے 1.64ملین بچوں اور نو عمروں کی جانچ کی گئی ۔ 1500ٹیموں نے بچوں کی لمبائی ، وزن ، نظر و دیگر جانچین کیں ۔ 17فیصد بچو ں میں خون کی کمی 12فیصد میں دانتوں کی بیماریاں ، نو میں انفیکشن ، سات میں جلد کی تو چار میں کان کی بیماریاں اور چار میں جزوی معذوری پائی گئی ۔
مرکزی ہیلتھ سکریٹری کے ڈی راجو نے یوپی میں حفظان صحت کی خد مات کی بدحالی میں سدھار کی ضرورت بتاتے ہوئے کہا کہ اس سے ملک کے آنکڑے خراب ہو رہے ہیں ۔ دیش میں بچوں کی اموات در ایک لاکھ پر 212سے گھٹ کر 178ہوگئی ہے لیکن اتر پردیش میں یہ تعداد 300ہے ۔انہوں نے بچوں کی اموات در کے زیادہ ہونے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اترپردیش کے بچوں میں غذائیت اور آئرن کی کمی عام طور پر پائی جاتی ہے ۔ ان کے مطابق یوپی کے بچوں میں دانت خراب اور پیٹ میں کیڑے ہونے کی شکایت پائی گئی ہے ۔اس کی وجہ کھلے میں رفع حاجت کے لئے جانا ۔کھانے سے پہلے ہاتھ نہ دھونا ، صفائی کی کمی ، ماؤں کا حمل کے دوران کھان پان پر دھیان نہ دینا آئرن و کیلشیم کی گولیاں نہ لینا وغیرہ بتایا گیا ہے ۔انہوں نے ریاستی سرکار کو سال میں دو بار بچوں کی صحت کی جانچ کرانے کی صلاح دی ۔

یہ مسئلہ یوپی ، بہار ، بنگال، جھارکھنڈ ، چھتیس گڑھ ، آسام جیسی صرف کمزور ریاستوں کا نہیں ہے بلکہ گجرات ، مہاراشٹر میں بھی کپوشن اپنی بھیانک شکل میں موجود ہے ۔ مہاراشٹر کے امراوتی جیسے کئی اضلاع کی غذائیت کی کمی والے ضلع کے طور پر نشاندہی کی ہے ۔ تاکہ ان اضلاع پر خصوصی توجہ دی جا سکے ۔ آنکڑے بتاتے ہیں کہ گجرات میں یہ مسئلہ اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے ۔ دیہی بھارت میں یہ مسئلہ 
جسمانی و ذہنی نشودنما سے آگے بڑھ چکا ہے ۔ کئی بچے کمزوری کی وجہ سے موت کے کگار تک پہنچ چکے ہیں ۔ بل اینڈ ملنڈا گٹیس فاؤنڈیشن کے ماہر غذائیت شان بیکر کہتے ہیں کہ گاؤں کے دورے کی بدولت مجھے ایسے اہم مدوں کو سمجھنے کا موقع ملا جن کی طرف عموما لوگ کم دھیان دیتے ہیں ۔ 
جب لاکھوں بچے بغیر کسی وجہ کے غذائیت کی کمی کے شکار ہو رہے ہوں تب ان کی زندگی بچانا دنیا کی ترجیح ہونی چاہئے ۔بچوں میں کپوشن کے معاملے میں بھارت کی خراب حالت کی وجہ کیا ہے ؟ اسے سے لیکر دو طرح کی باتیں سامنے آئی ہیں ۔ اول یہ کہ سماج میں خواتین کی خراب حالت کا رحم میں پل رہے بچے پر زیادہ اثر پڑتا ہے جتنا اب تک مانا جاتا تھا ۔بھارت کے زیادہ تر خاندانوں میں خواتین آخر میں کھانا کھاتی ہیں روایت یہ ہے کہ بچے مردوں اور لڑکوں کوپہلے کھانا دیا جاتا ہے ان سے بچا ہوا کھانا خواتین اور لڑکیاں کھاتی ہیں۔ کئی مرتبہ کھانا کم پڑنے کی صورت میں خواتین پیٹ بھر کھانا نہیں کھا پاتیں ۔ اس میں دو بارہ کھانا بنانے کی کاہلی اور بڑے بزرگ کیا کہیں گے یہ بھی شامل ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ سے 42 فیصد ہندوستانی عورتوں کا وزن حمل ٹھہرنے سے پہلے کافی کم ہوتا ہے ۔ یہی نہیں حمل کے دوران عورتوں کا جتنا وزن ہونا چاہئے بھارت کی خواتین اس کے آدھے تک ہی پہنچ پاتی ہیں ۔حمل کے آخری مرحلہ میں ہمارے ملک کی عورتوں کا وزن اس سے کم ہوتا ہے جتنا کہ برصغیر افریقہ کی اوسط خاتو ن کا حمل کی شروعات میں ہوتا ہے ۔نتیجہ کے طور پر بہت سے ہندوستانی بچے رحم میں ہی غذائیت کی کمی کے شکار ہو جاتے ہیں جس سے وہ کبھی ابھر نہیں پاتے ۔
یہ اس وقت ہے جبکہ بھارت کے آئین نے دفعہ21میں جینے کے حق کا بھروسہ دلایا ہے ۔ سرکار نے فوڈ سیکورٹی بل لا کر عوام کے اس حق کو یقینی بنانے کی کوشش کی تھی ۔ اسکولوں میں بچوں کو مڈے میل دینے کی شروعات بھی اسی کا حصہ ہے ۔بلا شبہ اس سے فائدہ ہوا اور اسکولوں میں بچوں کی حاضری بڑھی یہ عمل بچوں میں غذائیت کی کو دور کرنے میں معاون ہوتا لیکن اس اسکیم کو لاگو کرنے میں کئی سطح پر کمیاں پائی جاتی ہیں ۔ اس لئے اس اسکیم کا خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آسکا ۔ فوڈ بل میں ایسے لوگوں کو کھانا مہیا کرانے کا ذمہ لیا گیا تھا جن کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے ۔ پھر بھی کروڑوں لوگ بھوکے یا ادھ پیٹ رہنے کو مجبور ہیں 40سے 45فیصد بچے غذائیت کی کمی کے شکار ہیں ۔ 
کم خوراکی کی دوسری وجہ صفائی کی کمی یعنی کھلے میں رفع حاجت مانا جاتا ہے ۔ تقریبا آدھا بھارت کھلے میں رفع حاجت کرتا ہے غور طلب ہے کہ ہندؤں کے مقابلہ مسلمانوں میں نو زائدہ اموات در کم ہے با وجود اس کے کہ مسلمان زیادہ غریب ہیں ۔ اس کی ایک وجہ مسلمانوں میں بیت الخلاء کا زیادہ ستعمال کرنا ہو سکتی ہے ۔اس مسئلہ کو زندگی اور موت کے سوال جیسا سنجیدہ ماننا ہوگا ۔ اپنے لوگوں کو حفاظت دینے کے لئے سرکاریں ٹینکوں اور لڑاکوں جہازوں میں سرمایہ لگاتی ہیں مگر ان کو سب سے بڑا خطرہ بیت الخلاء نہ ہونے سے ہے ۔پوری دنیا میں بیت الخلاء کے مقابلہ موبائل فون تک لوگوں کی پہنچ زیادہ آسان ہے ۔ صفائی کی کمی کی وجہ سے لاکھوں لوگ ایسے امراض سے موت کے شکار ہو جاتے ہیں جن کا علاج آسانی سے ممکن ہے ۔ گاؤ ں والوں کے پاس اپنا موبائل فون تو ہے لیکن ایسے لوگ کم ہیں جن کے گھر میں بیت الخلاء کا انتظام ہو ۔اور بیت الخلاء استعمال کرنے والے اس سے بھی کم ہیں ۔
بھارت کے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بچوں میں غذائیت کی کمی کو ’’ قومی شرم ‘‘ بتایا تھا لیکن اس سے بچاؤ کے لئے سیاسی اچھا شکتی کی اب بھی کمی ہے ۔ اس معاملہ میں جو ہو رہا ہے وہ ٹھیک الٹا ہے ۔ مدھیہ پردیش سرکار نے بچوں کے مڈ ڈے میل میں انڈوں کو شامل کرنے کی مخالفت کی ہے ۔ اس سے غذائیت کی کمی کے شکار بچوں کی تعداد میں اور اضافہ ہوگا ۔ اس سے ایک مضبوط دیش خود کو کمزور کررہا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اس قومی کلنک کو دور کرنے کے لئے مہم چلائی جائے تاکہ بچوں کو طاقتور بنایا جاسکے ۔نئی نسل مضبوط ہوگی تبھی کل دیش طاقتور بنے گا ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا