English   /   Kannada   /   Nawayathi

آسان شادیاں

share with us

لڑکیوں کے ساتھ بہت ہی مظالم ہوتے ہیں،شادی سے پہلے بھوکی نظروں کی شکار رہتی ہے، ان شکاریوں کے عمر کی کوکئی قید نہیں ہوتی۔فلموں، انٹر نیٹ اور ٹی.وی.پروگراموں نے ۱۰۔۱۱؍ سال کے لڑکے کو بھی بالغ بنا دیا ہے ۔جوان اور عمر دراز لوگ اپنی اپنی عمر کے حساب سے تجربہ کار بھی ہوتے ہیں اور اپنا اپنا تجربہ نو جوان لڑکیوں کو ورغلانے میں استعمال کرتے رہتے ہیں ؂
لڑکیاں بزرگوں کے پیر چھونے سے ڈرتی ہیں
کیا معلوم کب کوئی ’آشا رام ‘ ہو جائے
ان بھولی بھالی لڑکیوں کو جو یہ سبز باغ دکھیا گیا ہے کہ ’تم مردوں سے کسی طرح بھی کم نہیں ہو‘قطعاً غیر مناسب ہے وہ اس لیے کہ عورت صنف نازک ہے، صنف قوی سے برابری تو کر انی ہی نہیں چاہئے۔لیکن پیسے کا بھوکا خود غرض مرد نے صرف اس لیے یہ راہ لگائی ہے کہ اس طرح سے کچھ پیسے وہ کما کر لائے گی تو اسی کے جہیز جٹانے میں آسانی ہوگی۔باپ، بھائی اور شوہر کی مدد کے لیے بھی لڑکیاں نوکری کرنے لگتی ہیں۔ان ہی وجوہات کے سبب لڑکیوں کی شادی میں تاخیر ہوتی ہے بلکہ اسکو اس طرح کہنا چاہۂ کہ لڑکیوں کی شادی کی عمر نکلنے کے بعد شادیاں ہوتی ہیں۔تاخیر سے کی گئی شادیاں اپنے ساتھ بڑے مسائل رکھتی ہیں مثال کے طور پردونوں کے مزاج میں سختی، اپنی بات کو منوانے کی ضد۔چونکہ بہو جہیز لیکر آئی ہے تو کیوں دبے، اور وہ شوہر ہے تو وہ کیوں دبے؟اس طرح کے مسائل سے بچنے کے لیے شادیاں وقت پر ہو جانی چاہۂ۔
’عورت مردوں سے کسی طرح کم نہیں ہیں‘اس جملے کے بجائے اگر یہ کہا جائے کہ’عورتوں کے حقوق مردوں کے حقوق سے کسی طرح کم نہیں ہیں‘ تو یہ انصاف اور سمجھ داری کی بات ہے۔لڑکی کا حق تو دینے سے رہے الٹے اس سے نوکری کرواکر جیب گرم کرنے لگے اور اس کو عورت کی آزادی کا نام دیا اور اسی آزادی کی وجہ سے بھارت میں ۲۰۱۲ء ؁ میں 8,233؍خواتین جہیز کی بھینٹ چڑھیں،24,923 ؍کی عصمت دری ہوئی،شوہر یا رشتہ دار کی طرف سے 1,06,527؍خواتین پر مظالم ڈھائے گئے اور 38,262؍خواتین کا اغوا ہوا۔یہ وہ اعداد ہیں جن کے متعلق معاملات درج ہوئے۔بہت سے معاملات لوک لاج کی وجہ سے درج نہیں ہوئے ہوں گے۔اسلام نے صنف نازک کو در در بھٹک کر پیسہ کمانے کو نہیں کہا ہے بلکہ یہ کام مرد کے سپرد کیا ہے اور عورت کوگھرجیسی محفوظ جگہ میں رہ کرگھر کے نظم کو سنبھالنے کی ذمہ داری دی ہے۔
اسلام نے لڑکی اور لڑکوں کی شادی کامسئلہ اور طریقہ بھی بہت آسان کر رکھا ہے۔ حضرت علیؓ نے اللہ کے نبیؐ سے ان ؐ کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہؓ سے شادی کی خواہش ظاہر کی تو آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے شادی کر و لیکن مہر کیا دوگے۔حضرت علیؓ نے فرمایا مہر دینے کے لیے تو میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا ’’میں نے تم کو ایک زرّہ دیا تھا، اسے بیچ کر مہر کا انتظام کر لو‘‘۔ حضرت علیؓ نے ایسا ہی کیا، اس رقم سے مہر ادا کیا اور حضرت فاطمہؓ کی ضروریات کا کچھ سامان بھی خریدا۔ اس طرح سے پیغمبر اسلام کی پیاری بیٹی کی شادی ہوئی۔وہ زرّہ حضرت عثمان غنیؓ نے خریدا تھا اور بعد میں حضرت علیؓ کو ہدیہ بھی کر دیا تھا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ مشہور صحابی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوئے۔آپؐ نے دیکھا کہ ان کی قمیص پر ایک زرد نشان لگا ہوا ہے،آپؐ نے پوچھا تمہاری قمیص پر یہ نشان کیسا ہے؟حضرت عبدالرحمنؓ نے فرمایا ’میں نے نکاح کیا جس کی وجہ سے خوشبو لگائی تھی، یہ اُسی کا نشان ہے۔آپ ؐ نے دعا دیتے ہوئے فرمایا’اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے‘ اور پھر فرمایا کہ ’ولیمہ کر لینا چاہے ایک بکری کے ذریعہ ہو‘۔
یہ تو شادی کی سادگی کی انتہا ہے۔حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ صحابہ کرام میں سے ہیں اور آپؐ کے دور کے رشتہ دار بھی ہیں لیکن اپنے نکاح میں رسول اللہؐ کو نہیں بلایااور آپؐ نے شکا یتاً بھی یہ نہیں کہا کہ اکیلے اکیلے نکاہ کر لیا، ہمیں بلایا بھی نہیں بلکہ یہ فرمایا ’ولیمہ کر لینا‘۔اس طرح سے صحابہ کرام کی شادی کے بہت سے واقعات ہیں کہ آپ ؐکے صحابہ کرام نے شادی کر لی اور آپ ؐ کو بعد میں معلوم ہوا۔اگر کسی کی شادی میں شکایتاً آپ ؐ فرما دیتے کہ ’مجھے نہیں پوچھا‘ تو پھر ہر صحابہ کرام کی شادی بغیر حضور اقدس کی شرکت کے تکمیل نہ ہوپاتی۔
جب حضرت فاطمہؓ کا نکاح ہوا تو آپ ؐ نے اس موقع پر فرمایا کہ ابو بکر و عمر کو بلا لاؤ، نکاح ہونے والا ہے۔معلوم ہوا کہ خاص خاص لوگوں کو بلانا چاہئے۔آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ نکاح علی الاعلان ہونا چاہئے،چونکہ نکاح ایک عبادت ہے اس لیے اسے مسجد میں بغیر شور و شغب کے ہوناچاہئے۔
ہماری یہ بدبختی ہے کہ نکاح ایک عبادت ہے جسے ہم نے،غیروں کی نقل کر کے، گناہ میں شرابور کر رکھا ہے۔ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ نکاح کو گناہوں سے پاک کرکے اسے برکت والا بنائیں۔عیسائی اپنی شادیاں چرچ میں کرتے ہیں جب کہ ان کے یہاں اس طرح کا کوئی حکم نہیں ہے لیکن ہدایت کے باوجود ہم بڑے بڑے شادی گھر بُک کراتے ہیں اور اپنی دولت کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہیں(بھلے قرض لے کر کریں) اور غریبوں کے جزبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔
علماء حضرات جو نکاح پڑھاتے ہیں وہ تھوڑی سی توجہ دیں تو شادی کی بہت سی بدعت ختم ہو جائیں۔مثال کو طور پر بینڈ باجا والی شادی یا جہیز کی نمائش کی جانے والی شادی میں نکاح پڑھانے سے انکار کریں ۔پھر دیکھئے شریعت کے مطابق شادیاں ہونے لگیں گی۔شیعہ علما ء حضرات نے اس طرح کی پہل شروع کی ہے ، سنّی علماء کو بھی چاہئے کہ شادی کی سنّتوں کی طرف توجہ دے کر اس کے نافظ کیے جانے کی تدابیر پر غور فرمائیں چونکہ نکاح کا نظام اللہ تعالی کا بنایا ہوا ہے اس لیے یہ دنیاوی نہیں ، دینی عمل ہے۔
ایک صاحب بتانے لگے کہ ضلع ہمیر پور کے ’مودہا‘ قصبہ میںیہ سلسلہ شروع کیا گیا اور مقامی علماء نے نکاح پڑھانے کے لیے انکار کرنے لگے لیکن کامیابی اس لیے نہیں مل سکی کی دور کے گاؤں سے مولوی کو بلا کر نکاح پڑھایا جانے لگا۔یہ تو وہی مثال ہوئی ’تم ڈال ڈال تو ہم پات پات‘۔ ضرور ت ہے ہمیں حق کی بات پر متحد ہونے کی۔اپنے بچّوں کی شادیاںآسان بنانے کی پہل کریں۔ہم نماز، روزہ حج و زکوۃ اللہ اور رسول ؐ کے احکامات کے مطابق کرتے ہیں تو پھرشادی بھی تو ایک دینی کام اس میں بھی ہم کو ثواب کمانا چاہئے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا