English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہندوستانی جمہوریت کا تحفظ ضروری

share with us

اس مسئلے پر مسٹر نریندر مودی مسلسل خاموشی کا مظاہرہ کرتے آرہے ہیں نیز بڑھتی ہوئی عدم رواداری کے رجحان کی مخالفت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اب جبکہ پورے ملک میں حالات بگڑے ہوئے ہیں ایسے میں ملک کے صدر اور وزیر اعظم کی جانب سے محض اخلاقیات کے بیان سے مسائل کا حل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ صرف قانون کی بالا دستی قائم کرنے سے ہی ملک میں پنپ رہے موجودہ مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ دہلی میں واقع کیرلا حکومت کے گیسٹ ہاؤس میں گائے کے گوشت کی سر براہی کی شکایت پر دہلی پولیس کا تحقیقات کے بہانے کیرلا گیسٹ ہاؤس میں داخل ہونا فسطائیت کی ایک اور مثال ہے۔ معاملہ کی سنگین ہونے کا اس بات سے پتہ لگا یا جاسکتا ہے کہ کس طرح پولیس کہ ہمراہ چند نامعلوم افراد بھی اس چھاپے کے دوران پولیس کے ساتھ تھے۔اس واقعہ سے ہندوتوا ایجنڈے کی گہرائی کو نا پا جاسکتا ہے کہ کس طرح پولیس کی مدد سے ایک ریاست کے اختیارات پر تجاوز کیا گیا ہے۔ 
جب سے بی جے پی مرکز میں اقتدار میں آئی ہے کئی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جس سے ثابت ہورہا ہے کہ ملک میں سیکولرازم اور مساوات صرف دکھاوا بن کر رہ گیا ہے اور حکمران مشینری فرقہ وارانہ ایجنڈے کے نفاذ کو سازگار ماحول فراہم کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ گائے کے تحفظ کے نام پر ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں پر مسلسل حملے اور گائے کے تحفظ کے نام پر کئے جانے والے قتل کی حمایت کرنے والے سنگھ پریوار کے لیڈران اور ان کے ترجمان پیش پیش نظر آرہے ہیں۔یہ ایک بہت خطرناک صورتحال ہے کہ قومی دارالحکومت کے قریب واقع علاقہ فریدآباد میں ایک دلت کنبہ کے دو معصوم بچوں کو ان کے گھر میں زندہ جلائے جانے اور اس المناک قتل کے بعد بھی ملک کے عوام میں خاطر خواہ بے چینی یا تشویش کا ماحو ل نہیں پا یا جارہا ہے ۔ ذرائع کے مطابق یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ مبینہ طور پر راجپوت طبقے کے چند مردوں نے ایک پرانے ذات پات کے جھگڑے کا بدلہ لینے کے لیے اس المناک قتل اور جرم میں ملوث رہے ہیں۔ مرنے والے بچوں کے زخمی باپ جتیندرا کمار اور ان کے رشتہ داروں نے اس ظالمانہ حملہ کے تعلق سے انکشاف کیا ہے کہ یہ حملہ اس سے پہلے ہوئے ایک واقعہ کے بعد منصوبہ بند طور پر بدلہ لینے کے لیے کیا گیا ہے۔ ان کے گھر کے سامنے پی سی آر پولیس تعینات ہونے کے باوجوداس دلت خاندان کو پولیس مناسب سیکوریٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے علاوہ انتظامیہ اس دلت خاندان کو مجبور کیا کہ اس المناک حملے میں جل کر مرنے والے بچوں کے آخری رسوم رات کے آخری حصے میں کریں جو ان دلت خاندان کے رسم و رواج کے خلاف تھا۔ مقامی دلتوں کے درمیان رنج اور غم کا ماحول ہے اور وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں۔ دریں اثناء مرکزی وزیر وی کے سنگھ نے جلتے پر نمک چھڑکنے کے مترادف اپنے نازیبا بیان میں کہتے ہیں کہ "اگر کوئی کسی کتے پر پتھر پھینک دے تو کیا آپ اس کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹہرائیں گے"۔مسٹر نریندر مودی نے ملک میں مسلمانوں کے قتل عام کے تعلق سے مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ "اگر کوئی کتے کا پلہ کسی گاڑی کے نیچے آکر مرجائے تو کوئی کیا کرسکتا ہے"۔ افسوس کا مقام ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک عملی طور پر عدم رواداری کا ایک عظیم مثال بن چکا ہے۔ اصلاحی ادیبوں اور سرگرم کارکنان فسطائی طاقتوں کے نشانے پر ہیں۔ امسال فروری میں گووند پنسارے او ر اگست میں ایم ایم کلبرگی کا قتل کردیا گیا۔ دونوں معروف ادیب مذہبی انتہا پسندی اور اندھ وشواسی عقائد کی مخالفت کے لیے مشہور تھے۔ اسی طرح دوانگیرا ، کرناٹک سے تعلق رکھنے والا ایک 23سالہ دلت نوجوان جو جرنلزم کا طالب علم ہے اور ایک کتاب 'Odala Kichchu'کا مصنف ہے۔اس طالب علم نے اپنی تصنیف کردہ کتاب میں ذات پات کے نظام کے خلاف لکھا ہے۔ اس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس پر حملہ کیا گیا اور حملہ آوروں نے اسے دھمکی دی کہ اگروہ ہندو ازم کے خلاف لکھے گا تو اس کے انگلیاں کاٹ دی جائیں گی۔ ایم ایم کلبرگی کے قتل کی مذمت کرنے میں حکومت کی ہچکچاہٹ سے ملک بھر کے ادیب پریشان ہوگئے ہیں۔ 
ملک بھر کے ادیب اس بات سے مطمئن نہیں تھے کہ 'کیندرا ساہتیہ اکیڈمی'نے ایم ایم کلبرگی کے قتل کی مذمت نہیں کی۔ ادیبوں کو خدشہ ہے کہ حکومت کی مدد سے چلائی جانے والی اکیڈمی اظہار رائے کی آزادی کا دفاع کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھا پارہی ہے۔ متعدد ادیب اور دانشوروں نے اظہار رائے کی آزادی کی حفاظت اور مذہبی رواداری کے تئیں حکومت کی ناکامی کے خلاف اجتماعی احتجاج کرنا شروع کردیا ہے۔ حکومت عوام کی رائے کو نظر انداز کررہی ہے۔ مسٹر ارون جیٹلی جو نریندر مودی کابینہ کے سینئر وزیر ہیں انہوں نے ادیبوں کے احتجاج کے معاملے میں مبینہ طور پر بیان دیا ہے کہ ادیب بغاوت کا ماحول پیدا کررہے ہیں اور بی جے پی کی مخالفت میں دانشورانہ عدم رواداری برت رہے ہیں۔ بی جے پی کے دیگر رہنما اس بات سے مطمئن ہیں کہ عدم رواداری کے خلاف ہورہے احتجاج سے مودی حکومت کو بائیں لیبرل اپوزیشن کی نظرسے چھٹکارا مل گیا ہے۔ اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آر ایس ایس نریندر مودی کا استعمال کررہی ہے اور ترقی کے نعرے محض کھوکھلے نعرے ہیں اور اس حکومت کا حقیقی ایجنڈا یہی ہے کہ اس ملک کو ایک ہندو راشٹرا میں تبدیل کردیا جائے۔ اس تجزیہ کی تصدیق اس بات سے ہوجاتی ہے کہ کٹر ہندو انتہا پسندوں کو سرکاری تعلیمی اداروں اور اکاڈمیوں میں شمولیت کی جارہی ہے۔ ان گروہوں کوبھارت میں ہندو تشخص قائم کرنے کے لیے تاریخ کی کتابوں کو تبدیل کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ بی جے پی نے اپنے انتخابی مہم کے دوران ہندوستانی شہریوں کو Raising India کا خواب دکھا یا تھا۔ لیکن حقیقت میں ہندوستان کمزور ہوتاجارہا ہے۔ آج دنیا بھر میں بھارت تین چیزوں یعنی انتہائی غربت، انتہائی بدعنوان اور انتہائی عدم رواداری کے لیے جانا جارہا ہے۔ بھارت میں آج جو ماحول بن رہا ہے وہ خوش کن ہے ۔ مضبوط رائے عامہ، ردعمل اور احتجاجات اس بات کا پیغام دے رہے ہیں کہ ایک انتخابات میں معمولی کامیابی حاصل کرکے حکومت پر بیٹھے انتہا پسندوں کو ہندوستانی عوام ملک کے سیکولر جمہوریت کو مسخ کرنے کا موقع نہیں دیں گے۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا