English   /   Kannada   /   Nawayathi

چنئی ہائی کورٹ کے جج کے اہم فیصلہ کی روشنی میں

share with us

ایسی ہی دردناک ایک خبر یہ ہے کہ بارہ بنکی میں 17 فروری کو ایک لڑکی کی آبرو ریزی کی گئی۔ غریب ماں باپ کی حقیر بچی کو ظالموں نے ڈرا دھمکاکر خاموش رہنے کا حکم دے دیا تھا۔ بچی کے جسم کے اندر کی تبدیلی کو دیکھ کر والدین سمجھ گئے اور انہوں نے اسقاط حمل کے لئے کوئین میری اسپتال میں بچی کو داخل کرایا۔ عدالت کے حکم کے مطابق تین ممبران نے لڑکی کا معائنہ کرنے کے بعد اسقاط کرانے کے فیصلے کو ردّ کردیا۔ اس کے بعد اسپتال میں 13 سالہ لڑکی نے ایک بچہ کو جنم دیا۔ بعد میں بتایا کہ دونوں کی صحت ٹھیک ہے۔
اب صدر جمہوریہ سے لے کر بارہ بنکی کے ڈی ایم تک اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کریں کہ کیا یہ قتل سے کہیں زیادہ بڑا جرم نہیں ہے؟ یہ 13 سالہ بچی یا تو یوں ہی رو روکر زندگی گذار دے گی یا کسی دو ہاجو کے گھر دُلہن کے روپ میں نوکرانی بن کر چلی جائے گی جہاں وہ کسی کے تین چار بچوں کو پالے گی اور خود بچے پیدا کرے گی اور ساری عمر اسی طرح مر مر کے زندگی گذار دے گی اور یہ اس کے اس قصور کی سزا ہوگی جو اس نے خود نہیں کیا بلکہ اس کی غربت نے کرادیا۔
اب ذرا اس بچہ کی زندگی کا تصور کیجئے جو اسلامی شریعت کی اصطلاح میں ولدالزّنا کہا جائے گا اور عام بول چال میں حرامی۔ اور یہ دونوں گالیاں وہ ہیں جس میں کہیں سے کہیں تک نہ اس کا قصور ہے اور نہ اس کی ماں کا۔ اور یہ صرف اس لئے ہورہا ہے کہ ایسے مظالم غریب بچیوں کے ساتھ کئے جاتے ہیں۔ اور حکومت یا عدالت جو سزا دیتے وقت رحم کی چادر میں منھ چھپا لیتی ہیں وہ درحقیقت رحم نہیں بلکہ وہی لعنت ہے کہ وہ اونچے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور مظلوم نیچے والے طبقہ سے جنہیں وہ اپنی پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں اور ان کا ایمان دھرم یہ ہے کہ وہ کیا اور ان کی عزت کیا؟
ملک کی حکومت کو جس نام سے پکارنا چاہیں پکارلیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ملک میں جمہوریت صرف ووٹ کی حد تک ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہر اس طرح کے جرم کے بعد صرف ایک آواز آتی ہے کہ پہلے تو پولیس نے رپورٹ لکھنے سے انکار کردیا۔ یا پھر روتے ہوئے ماں باپ پر پھٹکار پڑی کہ اپنی لڑکی کو قابو میں نہیں رکھتے اور اگر ایس پی یا کسی بڑے افسر کے حکم کے بعد رپورٹ لکھی جاتی ہے تو ہر طرف سے آواز آتی ہے کہ ملزم آزادی سے گھوم رہے ہیں اور پولیس کہتی ہے کہ وہ فرار ہیں۔
ایسی ہی حرکت اگر کوئی غریب کسی بڑے آدمی کی لڑکی سے کرتا ہے تو اس کا حشر وہ ہوتا ہے جو گریٹر نوئیڈا کی 13 سالہ آروشی مرڈر کیس میں اس نیپالی کا ہوا جسے پولیس اور سی بی آئی کی تحقیقات کے مطابق آروشی کے ساتھ باپ نے دیکھا تھا اور دونوں کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔ یہ ہے اس تکلیف کا نمونہ جو ہر گاؤں کی لڑکیوں کے ماں باپ کو آئے دن بھگتنا پڑرہا ہے اور وہ قسمت کو روکر پھر مالکوں کے جوتے صاف کرنے میں لگ جاتے ہیں اس لئے کہ وہ بڑوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔
ہندو حکمراں ٹولے کو جب مسلمانوں سے ہی نفرت ہے تو وہ اسلامی شریعت کے قانون کو کیوں پڑھیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک بار ہر ہندو لیڈر اسے پڑھ لے۔ اس کے بعد انہیں معلوم ہوجائے گا کہ سعودی عرب میں قتل کے الزام میں تو گردن مارنے کی خبریں آئے دن آتی ہیں لیکن زانی اور زانیہ کو 100 کوڑے مارنے یا سنگسار کرنے کی خبریں نہیں آتیں؟ اگر وہ پڑھ لیں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ قانون کی موٹی موٹی کتابوں میں سزا لکھ دینا اور سزا دینا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ ہندوستان میں ہر کسی کو معلوم ہے کہ سزا دینے کے جتنے قانون ہیں اس سے کہیں زیادہ سزا سے بچنے کے طریقے وکیلوں کو معلوم ہیں۔
ہم 25 سال پہلے مدینہ طیبہ میں تھے دل کی تکلیف کے معاملہ میں شاہ فہد اسپتال میں بھرتی کردیئے گئے۔ ایک ہندوستانی ڈاکٹر مسیح صاحب نے ہمارے وارڈ میں چنئی کی ایک ہندو نرس کی ڈیوٹی صرف اس لئے لگادی کہ ہم اسے اپنی بات سمجھا سکیں۔ وہ ہندی خوب بولتی تھی۔ ہم سے ملنے کے لئے بہو اور بیٹی اس کے شوہر اور بیٹے آتے رہتے تھے۔ دس بارہ دن کے بعد ایک موقع پر نرس نے کہا کہ میں ایک سال کے بعد گھر چلی جاؤں گی۔ من کرتا ہے کہ ایک دفعہ وہ دیکھوں جسے دیکھنے لاکھوں مسلمان ہر سال آتے ہیں اور ساری دنیا سے آتے ہیں۔ ہم نے کہا ہر دن شام کو بہو اور بیٹی آتی ہیں ایک دن ان میں سے کسی کا برقعہ پہن کر چلی جانا۔ ہم تو کئی مہینے سے ہیں۔ کسی نے ایک بار بھی پاسپورٹ یا اقامہ نہیں دیکھا۔ یہ سن کر وہ کانپ گئی اور اس نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ہچ کی آواز نکالی اور کہا یہاں مقدمہ بازی نہیں ہوتی چند دنوں میں فیصلہ ہوجاتا ہے۔ یہ بھی اس نے دکھایا کہ غیرمسلموں کو جو اقامہ دیا جاتا ہے اس کا رنگ گہرا سرخ ہوتا ہے اور سعودی عرب میں حکم ہے کہ کوئی بھی غیرملکی گھر سے باہر نکلے تو اپنا اقامہ ساتھ لے کر نکلے۔ اس لئے قانون کی خلاف ورزی کے بارے میں کوئی سوچ ہی نہیں سکتا۔
ہندوستان میں دو چار یا دس بیس نہیں۔ سیکڑوں بندے ممنوعہ علاقہ میں جاتے ہیں اور ایسے بھی ہیں کہ کمپیوٹر انتظام سے پہلے جن کے پاس کئی کئی پاسپورٹ رہتے تھے یا اب جو چھوٹا راجن پکڑا گیا ہے اس کے پاس تین پاسپورٹ تھے۔
ہم نے بات شروع کی تھی چنئی سپریم کورٹ کے جج صاحب کے تبصرہ سے۔ ان کا یہ فرمانا کہ ایسے ظالموں کو نامرد بنا دیا جائے۔ کا مقصد یہ ہے کہ سخت سے سخت سزا قانون کی کتاب میں صرف لکھی نہ جائے بلکہ دی جائے۔ اب تک جن پارٹیوں کی بھی حکومت رہی اب ان کا ذکر کرنے سے کیا فائدہ۔ آج اقرار کریں یا انکار آر ایس ایس کی حکومت ہے۔ جن کے قانون میں سنیل جوشی کی طرح منٹوں میں راستہ سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ یا بابا آسارام کے کمانڈو ہیں جو بابا کے خلاف گواہی دینے والے کو جب چاہتے اور جہاں چاہتے ہیں اوپر پہونچا دیتے ہیں اور پکڑے اس لئے نہیں جاتے کہ پولیس انہیں گناہگار نہیں مانتی۔
عدالت کے طریقوں کو تو بدلنے کا اب کوئی سوال ہی نہیں۔ وہ کچھوے کی جس چال کی عادی ہوچکی ہیں انہیں صرف ایمرجنسی خرگوش کی طرح دوڑا سکتی ہے یا فوج۔ اور اس ملک میں حکومت کے مزے لوٹنے اور چالیس روپئے کی سستی دال ڈھائی سو گرام کھاکر مزدور کا بھی انقلاب کے بارے میں نہ سوچ کر مقدر کو کوسنے کی فطرت کا ہی نتیجہ ہے کہ وزیر اعظم چالیس روپئے میں ڈھائی سو گرام دال کی فکر کرنے کے بجائے بہار میں اپنی پارٹی کی حکومت کے لئے گری سے گری زبان بولنے میں شرم محسوس نہیں کررہے۔ اور رات دن اس میں وقت صرف کررہے ہیں کہ چاہے ملک برباد ہوجائے مگر نتیش اور لالو کو ذلیل کردوں۔
اُترپردیش کے نئی امنگوں والے وزیر اعلیٰ جہاندیدہ ان کے پتاجی انتہائی سنجیدہ ان کی بیوی ڈمپل بی بی کو جو کچھ بھی کرنا پڑے کریں لیکن غریبوں کی عزت سے کھیلنے والے شرابیوں اور نودلتوں کو ایسی حرکتوں کی ایسی سزا پولیس سے دلائیں جس سے وہ عمر بھر کے لئے ناکارہ ہوجائیں۔ تلاش کرائیں کون ہے وہ بارہ بنکی کا منھ کالا کرنے والا وہ چاہے جس ذات کا ہو جس خاندان کا ہو اور جس پارٹی کا ہو اسے یا تو مجبور کرکے اس لڑکی کی شادی کرائیں یا مار مارکر اسے ایسا کرادیں کہ وہ زندگی بھر رحم کی بھیک مانگ مانگ زندگی گذارے۔ ہر دردناک واقعہ کے بعد چند دن نوٹنکی ہوتی ہے۔ حکومت سخت اور سخت قانون بنانے کا اعلان کرتی ہے اس کے بعد ہر کوئی کسی اور شرمناک واقعہ کا انتظار کرتا ہے اور پھر موم بتیوں کی بکری شروع ہوجاتی ہے۔ کاش دس بیس کو نامرد ہی بنا دیا جائے تو یقین ہے کہ ایسی وارداتوں میں کمی آجائے گی۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا