English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہم سے سیکھے کوئی اندازِ حکومت ناظمؔ

share with us

ہم یہ سمجھے کہ یہ بہار کی کسی پارٹی کے امیدوار ہیں جن کا ٹکٹ کاٹ دیا گیا ہے۔ لیکن تعجب اس پر تھا کہ اس خبر کے پس منظر میں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال اور منیش سیسودیہ کا چہرہ بھی دکھایا جارہا تھا۔ ہم نے چینل بدلا تو اس پر بھی وہی خبر اور مزید چینل بدلے تو ان پر بھی۔ اس کے بعد دلچسپی بڑھی تو سنجیدگی سے اسے سنا تب معلوم ہوا کہ وہ دہلی کے ایک محترم وزیر ہیں جن پر کوئی سنگین الزام لگا اور اروند کجریوال نے برق رفتاری سے اس کی تحقیق کرائی اور ثابت ہوگیا کہ ان کے خلاف جو کہا گیا ہے وہ صحیح ہے۔ تو کجریوال کا دریائے انصاف جوش میں آیا اور انہوں نے بدعنوان وزیر کو بیک جنبشِ قلم سابق بنا دیا اور ایک دن بھی ضائع کئے بغیر دوسرے ممبر کو حلف دلا دیا۔ اروند کجریوال کو دشمنوں کی نظر نہ لگے کہ انہوں نے جس اپنے وزیر کو ہٹایا وہ اتفاق سے مسلمان تھے اور کجریوال نے جسے ان کی جگہ وزیر بنایا وہ بھی مسلمان ہیں۔ وہ اپنے کو اس الزام سے صاف بچالے گئے کہ مجھے مسلمان سمجھ کر ہٹا دیا اور ان کی تائید کرنے والے ہزاروں کم عقل کھڑے ہوتے ہوتے رہ گئے۔
کجریوال صاحب کے اس فیصلہ نے بی جے پی اور کانگریس کی پگڑیاں ہوا میں اُچھال دی ہیں اور ہماری طرح لاکھوں ملک کی سیاسی سرگرمیوں سے دلچسپی رکھنے والے دم بخود ہیں کہ پیدا کرنے والے نے جن صلاحیتوں کے ساتھ اروند کجریوال کو پیدا کیا ہے ان میں سے کوئی ایک صلاحیت بھی سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کو کیوں نہیں دی؟ وہ کون سیاست سے دلچسپی رکھنے والا ہے جس نے اسی دہلی میں کانگریس کے زمانہ میں کامن ویلتھ گیم کی تیاری میں کانگریسی لیڈر سریش کلماڈی کو وزیر اعظم اور شیلا دکشت سے ہزاروں کروڑ روپئے لیتا ہوا اور انہیں پوری بے شرمی کے ساتھ لٹاتا ہوا اور غبن کرتا ہوا نہ دیکھا ہو۔ اور کون ہے جسے یہ یاد نہ ہو کہ پورے حزب مخالف اور پوری میڈیا برادری کا چلاّتے چلاّتے جب گلا بیٹھ گیا تو قسطوں میں انہیں پارٹی سے نکالا اور سونیا گاندھی نے دل پر پتھر رکھ کر انہیں جیل بھجوانے کی اجازت دی اور کون ہے وہ جسے یہ یاد نہ ہو کہ ایک لاکھ 70 ہزار کروڑ کے گھوٹالے میں اے. راجہ نام کے وزیر کو استعفے پر آمادہ کرنے میں پوری کانگریس اور کرونا ندھی کو ایک مہینہ لگا جس میں کروناندھی جیسے قومی لیڈر کا یہ عذر بھی تھا کہ میرے پوتے کی شادی ہونے والی ہے اس لئے میں پندرہ دن کسی معاملہ پر غور نہیں کروں گا۔
بات صرف دو کی ہی نہیں، کپڑے کے وزیر ریلوے کے وزیر اور ہر وزیر کو کئی کئی ہفتے اس پر آمادہ کرنے میں لگے تھے کہ وہ استعفیٰ دے دے اور وزیر اعظم منموہن سنگھ کی اپنی پوری مدت میں کسی ایک وزیر کو اروند کجریوال کی طرح بیک جنبش قلم نکالنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
اور یہ تو صرف دو مہینے پہلے کی بات ہے کہ سات سو کروڑ کالا دھن لے کر بھاگنے والے اور پوری حکومت کو ذلیل کرنے والے للت مودی نے وزیر خارجہ سُشما سوراج پر زور ڈالا کہ سونیا حکومت نے جو اس کا پاسپورٹ کینسل کردیا تھا اسے بحال کردیں کیونکہ وہ اپنی بیوی کے آپریشن کی اجازت دینے کے لئے دوسرے ملک جانا چاہتا ہے۔ قاعدے میں تو للت کو گڑگڑاکر درخواست کرنا چاہئے تھی لیکن سُشما صاحبہ کے شوہر اور ان کی بیٹی للت کے اوپر لگے داغ دھبے دھوکر انہیں قانون کی نظر میں پاک صاف کرنے کے وکیلوں کی حیثیت سے خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور بہت معقول فیس لے رہے ہیں اس لئے للت نے دباؤ ڈالا اور سُشما جی نے اس کا پاسپورٹ بحال کردیا۔ حزب مخالف میں صرف کانگریس نہیں بلکہ تمام پارٹیوں کے ممبروں نے وزیر خارجہ کا استعفیٰ مانگا اور مودی پر زور ڈالا کہ انہیں نکالو لیکن مودی کی حمایت کرنے والے تین سو ممبر ہیں اس لئے ان کے اوپر اکثریت کا نشہ چڑھا ہوا تھا وہ ہر مطالبہ کے جواب میں ایک ہی رٹ لگائے رہے کہ سُشما جی بیان دیں گی اس پر بحث کرالو اور پھر رائے شماری کرالو۔ اپوزیشن نے اسے منظور نہیں کیا اور حکومت نے پورا سیشن برباد ہونا گوارہ کرلیا جس پر مودی کے کہنے کے مطابق 50 ہزار کروڑ ہم غریبوں کے برباد ہوگئے۔ مودی صاحب نے صرف سُشما کو ہی نہیں بچایا بلکہ ان کی منھ بولی بہن اسمرتی ایرانی جو 2004 ء سے ہر الیکشن کے حلف نامہ میں اپنی ڈگری مختلف لکھتی رہی ہیں اور جن کے خلاف پورے ملک میں شور ہے یا مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کے اربوں کھربوں روپئے کے ویاپم گھوٹالے میں جس میں وہ خود اور وہاں کے گورنر بھی گلے گلے تک ڈوبے ہوئے ہیں ان کے خلاف بھی کم از کم اس وقت تک جب تک سپریم کورٹ کی نگرانی میں سی بی آئی کی انکوائری پوری نہ ہو عہدے سے ہٹانے پر مودی صاحب تیار نہیں ہوئے اور بی جے پی کی طرح مخالفت کرنے والی پارٹی کانگریس کے 25 ممبروں کو پارلیمنٹ سے معطل کرادیا۔ لیکن کسی وزیر کے خلاف کارروائی نہیں کی۔
اروند کجریوال کے اس بے نظیر فیصلے نے ایسے ہر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے جس نے اپنے ہر وزیر کو داماد کی طرح اس کے باوجود بچایا کہ وہ بھی جانتے تھے کہ انہوں نے غلطی کی ہے۔ساڑھے تین سال پہلے مس مایاوتی نے اپنے کئی بے ایمان وزیروں کو اس وقت ہٹایا جب وہ 2012 ء کا الیکشن لڑنے جارہی تھیں اور یہ ثابت کرنے کے لئے ہٹایا کہ یہ بے ایمان تھے جبکہ یہ بات انہیں برسوں سے معلوم بھی تھی اور وہ سب وزیر بہن جی کا حصہ بھی دے دیتے تھے۔ غرض کہ 68 برس میں سیکڑوں وزیر اعلیٰ اور درجنوں وزیر اعظم بننے والوں میں کوئی ایک بھی وہ ہمت اور جرأت نہ دکھا سکا جو ایک چھوٹی سی ریاست دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال نے دکھائی کہ جس وقت انہیں یقین ہوگیا کہ الزام صحیح ہے تو انہوں نے اس داغ کو دھونے کے لئے نہ انکوائری نام کا صابن منگوایا نہ وزیر کا بیان اس پر بحث اور ووٹنگ نام کا لوشن لگایا بلکہ اس داغ کو نشتر کی طرح دھار والے قلم سے کاٹ کر پھینک دیا اور اپنے ہر وزیر کو دکھا دیا کہ قدرت نے انہیں جن صلاحیتوں سے نوازا ہے یہ ان کا ہی طفیل ہے کہ ملک کی جو دو قومی پارٹیاں ہیں ان دونوں کو انہوں نے دہلی میں اچھوت بنا دیا اور ان سے اندازِ حکمرانی آدابِ شاہجہانی سیکھنے کے بجائے ان دونوں کو دکھا دیا کہ ؂ دیکھ اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا۔
بے مثال وزیر اعلیٰ اروند کجریوال نے کوئی بھی محکمہ اپنے پاس نہ رکھ کر جو ہر حکومت کو چونکا دیا تھا اور جس کی ہم نے اسی وقت دل کھول کر اس لئے تعریف کی تھی کہ وزرائے اعلیٰ تمام ایسے محکمے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں جو انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ پھر انہیں اس کا موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ یہ دیکھیں کہ دوسرے وزیر کیا کررہے ہیں؟ جبکہ وزیر اعلیٰ کو صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ ان کے وزیر کیا کررہے ہیں افسر کیا کررہے ہیں اور جنہوں نے حکومت بنوائی ہے وہ کیا محسوس کررہے ہیں؟
مسٹر کجریوال کے اس فیصلہ سے رپورٹر بھی حیران ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ہر وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اور کوئی شک نہیں کہ کسی کو ہفتوں کے احتجاج کئے بغیر ہٹاکر حزب مخالف کو ایک ہتھیار دے دیا ہے اور اپنے ایک وزیر کو منٹوں میں سابق بنا دیا ہے جس کے متعلق کسی نے کہا ہے۔ سابق منسٹر اللہ اکبر ہاتھوں میں کھرپی ٹانگوں میں نیکر۔ کمرے کے اندر کرسی سے باہر بوئے چقندر، کھائے ٹماٹر سابق منسٹر اللہ اکبر۔(

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا