English   /   Kannada   /   Nawayathi

خون شہیداں رنگ لایا

share with us

جب فاتح قندوز کی تصویریں سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی تو ان کی سادگی اور پھٹے پرانے کپڑے نے یہ باور کرادیا کہ ہم حق پر ہیں اور ہم ہی غالب رہیں گے۔ نہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ 14سال کے طویل عرصے میں امریکہ اور اس کے ہم نواؤں نے طالبان کو ختم نہیں کرپائے بلکہ طالبان پہلے سے زیادہ مستحکم ہوگئے ہیں اور عوامی حمایت نے ان کی ہمت کو مزید دوبالا کردیا ہے قندوز فتح تو ایک ہراول ہے آگے کے جو عزائم ہیں اس سے یہی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ عنقریب ملا محمد عمر کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا اور باطل اپنے منہ کی کھائے گا۔ 
طالبان کے عزم آپریشن کے سلسلے میں رپورٹ کے مطابق طالبان کی کاروائیاں کٹھ پتلی فوجیوں کے خلاف صوبہ قندوز کے گرد ونواح میں جاری ہیں۔تفصیل کے مطابق بدھ کیروز 2015۔09۔30 مقامی وقت کے مطابق شام چار بجے کے لگ بھگ طالبان نے قندوز شہر کے قریب دشت ابدان کے علاقے میں واقع فوجی و پولیس اکیڈمی اور زرخرید کے علاقے میں قائم باچا قلندر نامی فوجی بیس اور پل الچین سے دشت ابدان تک پانچ چوکیوں پر اللہ تعالی کی نصرت سے قبضہ کر لیا اور وہاں تعینات بزدل جان بچانے میں کامیاب ہوگئے ۔ رپورٹ کے مطابق طالبان نے اکیڈمی میں 70 فوجی ٹینک اور رینجر گاڑیاں جبکہ باچاقلندر بیس میں 4 بکتربند فوجی ٹینک کے علاوہ کافی مقدار میں بھی غنیمت کرلیے۔وہیں دوسری رپورٹ کے مطابق بدھ کے روز سرک بالا کے علاقے غلام تپہ کے مقام پر واقع فوجی بیس کا کنٹرول حاصل کرلیا اور وہاں تعینات 33 سیکورٹی اہلکار گرفتار ہونے کے علاوہ 3 فوجی ٹینک، 3 رینجر گاڑیاں، ایک ایس پی جی نائن توپ، 2 مارٹرتوپ، ایک اینٹی ایئرکرافٹ گن، 33 کلاشنکوفیں، 5 ہیوی مشین گن،راکٹ لانچر اور کافی مقدار میں مختلف النوع اسلحہ غنیمت کرلیا۔ الامارہ ویب سائٹ کے نمائندے ضلع امام کی رپورٹ کے مطابق ضلعی مرکز، پولیس ہیڈکوار، تاشگذر بیس، دہقان قشلاق نامی فوجی بیس اور 12 چوکیاں تابڑتوڑ حملوں کے بعد بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب مقامی وقت کے مطابق رات آٹھ بجے کے لگ بھگ مکمل طور پر فتح ہوئیں۔ذرائع کے مطابق کاروائی کے دوران دشمن کو ہلاکتوں کا سامنا ہوا، لیکن تفصیل موصول نہ ہوسکی اور بزدلوں نے فرار کی راہ اپنالی، اسکے علاوہ طالبان نے 6 فوجی ٹینک تباہ، 15 رینجر گاڑیاں، اسلحہ و گولہ بارود بھری ہوئی ایک انٹرنیشنل نامی گاڑی اور کافی مقدار میں ہلکے و بھاری ہتھیار غنیمت کرلیے۔طالبان کی قندوز فتح کے متعلق ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے دشمن کی طرف سے پھیلائے گئے افواہ اور ان کی شکست کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’دشمن نے بعض ابلاغی ذرائع کے ذریعے دعویٰ کیا ہے کہ قندوز کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے آپریشن شروع کیا گیا ، سینٹرل جیل اور پولیس ہیڈ کوارٹر پر دوبارہ قبضہ کرلیاگیا ہے اوریا طالبان پر بمباری کی گئی ہے۔ہم دشمن کے اس دعوے کی پرزور الفاظ میں تردید کرتے ہیں۔ قندوز کے حالت معمول پر ہیں ۔ شہری پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ طالبان شہریوں کے استحکامات میں مصروف ہیں، دشمن کے آپریشن کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہے اور نہ ہی دشمن میں پلٹ کر وار کرنے کی کوئی سکت ہے۔ امریکی طیاروں نے دو مقامات پر بے ہدف بمباری کی، جس سے الحمدللہ طالبان کوکسی قسم کا نقصان نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کسی ٹارگٹ کو نشانہ بنایا گیا۔دوسری جانب دشمن نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ قندوز میں سرکاری املاک کو آگ لگا دی گئی ہیں ، یا کرنسی مارکیٹ ، سونے کی دکانیں اور بینکوں میں لوٹ مار کیا گیا ہے، ایسے پروپیگنڈوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ قندوز میں کسی کی سوئی بھی ضائع نہیں ہوئی ہے ۔۔۔ اور نہ ہی کسی کو ایسے اعمال سرانجام دینے کی اجازت دیجاتی ہے۔ دشمن ایسے پروپیگنڈوں سے طیالبان کو کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ہم اہل وطن کو قندوز کی حالت کے متعلق تسلی دیتے ہیں، دشمن کو مار بھگایا گیا، دوبارہ حملے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ مزدور فوجیوں کی کابل سے آنے والے کاروان پر صوبہ بغلان کے مختلف علاقوں میں طالبان کے تابڑتوڑ حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور دشمن آگے بڑھنے کی سکت نہیں کرسکتا۔ طالبان بہادری سے قندوز کا دفاع کریگا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ 
شہیدوں کا خون ہمیشہ رنگ لایا ہے ۔۔۔ شہادتوں کا یہ سفر ہمیشہ جاری رہا۔۔۔ یہ اور بات ہے کہ جو شہید ہوتے ہیں وہ اپنے خون کی سرخی سے سیراب زمین کو نہیں دیکھ پاتے لیکن ان کے ہم نشیں و ہم نوا اسے پایہ تکمیل تک پہنچا کر دم لیتے ہیں۔۔۔ یہی صورت ہمیں قندوز فتح کو دیکھ کر معلوم ہوتی ہے۔۔۔ تقریباً پندرہ سال قبل اسی قندوز کے مقام پر طالبان کے ساتھ جنرل رشید نے قرآن پاک پر جھوٹی قسم کھا کر اس بات کا عہد لیا تھا کہ میں نے امریکہ سے بات کرلی ہے تم ہتھیار ڈال دو میں تمہیں محفوظ راستہ سے باہر نکال دیں گے ۔۔۔ اس وقت طالبان محاصرے میں آگئے تھے اور ان کے پاس ہتھیاروں کی بھی کمی تھی جس کی بناء پر انہوں نے اس دغا باز فریبی کی باتوں میں آکر ہتھیار ڈال دئیے۔۔۔ جرمن رپورٹر اس منظر کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب ان طالبان کو قندوز سے شبرغان لے جانے کے لئے گنجائش سے زیادہ کنٹینروں میں ڈالا گیا اور ان سے یہ کہا گیا کہ تھوڑا راستہ آپ لوگوں کو اس طرح لے کر جائیں گے پھر آپ کو ان سے نکال لیں گے مگر جب بند کنٹینروں میں ان مظلوم طالبان کا دم گھٹنے لگا تو انہوں نے اپنے ساتھ ہوئے دھوکے کو بھانپ لیا۔۔۔ لیکن کر بھی کیا سکتے تھے مجبور ولاچار تھے۔۔۔ اسی لاچارگی ومجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امن عالم کے علمبردار وں نے کنٹینر کا دروازہ کھول دیا اور اور فائرنگ شروع کردی ۔ اس رپورٹر کے مطابق کہ میری گاڑی کنٹینر کے اس قافلے کے پیچھے جارہی تھی فائرنگ کی و جہ سے شہید طالبانیوں کے خون سے پورے راستہ سیراب ہوچکا تھا ۔ اسی طرح زیادہ طالبان کو کنٹینروں میں ہی شہید کردیا گیا، جو بچ گئے اس کو رشید دوستم جو آج کل موجودہ کٹھ پتلی حکومت میں مشیر اعلیٰ کے عہدہ ذلیلہ پر فائز ہے نے ہاتھ پاؤں باندھ کر دشت لیلیٰ میں زندہ درگور کردیا اور کچھ عرصہ بعد ان مظلوم مجاہدین کی بے گورو کفن لاشیں صحرا میں ظاہر ہونے لگی۔ لیکن شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جاتا ہے آج نہیں تو کل رنگ ضرور لاتا ہے ۔۔۔ آج جب طالبانی قندوز کے اےئر پورٹ پر فاتحانہ انداز سے پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ہوکر جشن فتح منارہے ہیں اور اپنے ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرررہے ہیں ، ان کی قربانیوں کو یاد کرکے رو رہے ہیں اور ا پنے لیے بھی شہادت کی تمنا کررہے ہیں اور اس بات کا عزم کررہے ہیں کہ آئندہ جلد ہی پورے افغان پر سیاہ پرچم لاالہ الا اللہ کند ہوا لہرا دیں گے۔ اور انشاء اللہ وہ دن جلد ہی آئے گا کیوں کہ جس طرح کے عزائم ، نصرت الہی اور عوامی حمایت ان کے ساتھ ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ جلد ہی اپنے شہداء کے خون کا وہ بدلہ لیں گے اور باطل ناکام ونامراد ہوکر روس کی طرح ہدیہ ہزیمت اٹھاتا ہوا فرار ہوجائے گا۔ پھر اسی آب وتاب سے وہی حکومت افغان میں خیمہ زن ہوگی جو 2001سے پہلے ملا محمد عمر کی قیادت میں تھی۔ انشاء اللہ اور وہیں سے اقصیٰ کی بازیابی کے لیے قافلے نکلیں گے اور اور حرمین شریفین کی حرمت کو برقرار رکھنے کے لیے دستے روانہ کیے جائیں گے۔ پھر نہ کوئی شام میں تڑپے گا اور نہ ہی برما میں کسی پر ظلم ہوگا ۔ انشاء اللہ العزیز۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا