English   /   Kannada   /   Nawayathi

حقیقی جمہوریت کیلئے متناسب نمائندگی کا طریقہ اپنایا جائے

share with us

لیکن ہندوستان میں سیاسی جماعتوں کی زیادتی کی بناء پر کئی دہائیوں سے اقلیتی ووٹوں پر حکومتیں تشکیل پارہی ہیں کیونکہ اکثر انتخابی دوڑ میں سبقت لے جانے والی جماعتیں یا امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں سے کہیں زیادہ ووٹ اپوزیشن کی مختلف جماعتوں میں تقسیم ہوکر ضائع ہوجاتے ہیں، اور حکمراں جماعت پڑنے والے مجموعی ووٹوں کا ۳۵ سے ۴۵ فیصد کے درمیان حاصل کرکے بھی سرخرو رہتی ہے۔ 
غالباً اسی پہلو سے متاثر ہوکر قانون ساز اداروں میں تناسب کی بنیاد پر نمائندگی کی ضرورت پر زور دیاجاتا رہا ہے جو کئی ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہے اور جس کے حاصل شدہ ووٹوں پر نمائندگی کا طریقہ اپنا کر ان رائے دہندگان کی طمانیت قلب کا سامان بھی ہوسکتا ہے جو انتخابات سے محض اس لئے کتراتے ہیں کہ اکثریتی ووٹوں کے آگے ان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور ان کے نقطہ نظر سے خود ان کا ووٹ بیکار ہوجاتا ہے ظاہر ہے کہ متناسب نمائندگی کا طریقہ ایسے رائے دہندگان کیلئے ان کی رائے دہی کی ترغیب کا موثر سبب ثابت ہوگا کیونکہ اس طرح انہیں یقین ہوجائے گا کہ ان کی ترجمانی کرنے والی جماعت بھی قانون ساز اداروں میں موجود ہوگی یا ان کی آواز حکمرانوں تک پہونچ سکے گی۔
اس پس منظر میں متناسب نمائندگی کے طریقہ کار کو اپنانا جہاں ملک کے قومی مفاد میں ہے وہیں حزب اختلاف کا اتحاد کسی قومی ضرورت سے کم نہیں، تجربات شاہد ہیں کہ جمہوری مشنری انہیں ممالک میں کامیاب رہتی ہیں جہاں حکمراں جماعت کے مقابلے میں اپوزیشن طاقت ور ہو کیونکہ جمہوریت کامقصد صرف انتخابات کرانا ہی نہیں ہے بلکہ انتخابات کو جمہوریت میں چنداعلیٰ مقاصد کے ذریعہ کی حیثیت حاصل ہے جو عوامی مفادات کی نگراں ایک عوامی حکومت کی تشکیل سے ہی پورا ہوسکتا ہے۔
کسی بھی ملک میں جمہوریت کی کامیابی کا انحصار دو اہم باتوں پر ہوتا ہے ایک تو وہاں کوئی ایسی مضبوط سیاسی جماعت ہو جو بہتر طور پر حکمرانی کا کام انجام دے سکے کیونکہ غیر مستحکم حکومت خواہ وہ ریاستی سطح پر ہو یا مرکزی پیمانے پر اسلئے نقصان دہ ہے کہ اس سے ملک میں غیر یقینی کی حالت پیدا ہوتی ہے اور جمہوری اقدار پر سے عوام کا اعتماد ختم ہونے لگتا ہے۔ خاص طور پر ہندوستان جیسے وسیع وعریض اور مختلف تہذیبوں کے نمائندہ ملک میں مستحکم مرکزی حکومت کی اشد ضرورت ہے کیونکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہاں جب بھی مرکز کمزور ہوا ملک کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا عمل شروع ہوگیا۔ دوسری ضرورت ایسی مضبوط اپوزیشن ہے جو رائے عامہ کی عکاس ہو اور کسی ہنگامی صورت ھال میں خود اقتدار حاصل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو، آزادی کے بعد کے ۳۹ برسوں میں مرکزی حکومت کو استحکام تو ملا لیکن طاقتور اپوزیشن ابھر نہیں سکی جس کا سارا الزام حکمراں جماعت پر عائد کردینا ایک سہل سی بات تو ہوگی مگر حقیقت نہیں کیونکہ حزب اختلاف کے اکثر رہنماؤں کے غور وفکر کا دائرہ صرف اقتدار تک محدود رہا ہے وہ اکثر ملک کے وسیع ترمفاد کے بجائے نجی مصالح یا گروہی حکمت عملی کوزیادہ اہمیت دیتے رہے ہیں۔ اگر متناسب نمائندگی کا طریقہ اپنا کر الیکشن کرائے جاتے ہیں تو ملک کی مختلف تہذیبی اکائیوں، گروہوں اور علاقوں کو نہ صرف اہمیت ملے گی بلکہ قانون ساز اداروں میں ان کو مناسب نمائندگی بھی مل جائے گی اور یہی جمہوریت کی حقیقی تصویر ہوگی۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا