English   /   Kannada   /   Nawayathi

مہا راشٹر میں کسانوں کی خودکشی معاملہ۔۔۔’احتیاط علاج سے بہتر ہے‘

share with us

مختلف سماجی تنظیموں اور فلمی ہستیوں کی جانب سے خودکشی سے متاثرہ خاندانوں کو دی جانے والی امداد کی ضرور قدر ہونی چاہیے۔سماج کے سبھی طبقوں کی جانب سے اس قسم کے امدادی کاموں میں معاونت کی ضرورت بھی محسوس کی گئی ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گذشتہ کئی ماہ سے امداد کے شروع اس مہم کے بعد کیا کسانوں کی خود کشی کے معاملات ختم ہوئے ہیں یا کم از کم اس معاملے کے تناسب میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے تو اس کا جواب ہمھیں نفی میں ہی ملے گا بلکہ خودکشی کے معاملات میں اضافہ کی سی صورتحال نظر آتی ہے۔
کسانوں کی خود کشی کے معاملات کا تجزیہ کرنے سے قبل مندرجہ ذیل نکات کا بھی جائزہ لینا ہوگامثلاً مہاراشٹر میں 1972ء میں بھیانک قحط رونما ہوا تھا اس وقت لوگوں کو شدید غریبی،پانی، کھانے کی اشیاء اور اناج کی کمی کے ساتھ کپڑوں کی تنگد ستی سے گذرنا پڑا ۔اس وقت کے عینی شاہدین کے مطابق لوگوں نے ’سکڑی پاوڈر‘ کھا کر دن گذارے زندگی کے ساتھ جدو جہد کی لیکن قابل ستائش بات یہ رہی کہ اس دوران کسانوں نے خودکشی کا راستہ نہیں اپنایا۔اب سے دو تین دہائیوں قبل لوگوں نے خاص کر دیہاتوں میں ایک وقت کا کھاناکھا کر اور پیوند لگے لباس پہن کر زندگی گذاری لیکن خودکشی کا راستہ اختیار نہیں کیا۔مختلف اخباروں کی رپورٹس کے مطابق90کی دہائی سے کسانوں کی خودکشی کے معاملات بڑھتے ہوئے محسوس کئے گئے ہیں۔پہلے گجرات ،آندھرا تلنگانہ پھر مہاراشٹر کے ودربھ اور اب مراٹھواڑہ کے بیڑ ،عثمان آباد ،لاتور ،اورنگ آباد و دیگر اضلاع میں کسانوں کی خود کشی کے معاملات آئے دن سامنے آ رہے ہیں اور اب امسال بھی مہاراشٹر کے وسظی علاقے خاص طور پر مراٹھواڑہ میں بارش کے نہ ہونے یا اوسط سے کم ہونے کے سبب مراٹھواڑہ میں کسانوں کی خود کشیاں کافی بڑھ گئیں ہیں۔اب جبکہ آئے دن اخباروں میں کسانوں کی خودکشی کی خبریں شائع ہو رہی ہے تب یہ جاننا بھی ضروری ہو چلا ہے کہ ہر وہ خودکشی کا معاملہ جسے ’کسان خود کشی ‘کے نام سے درج کیا جا رہا ہے اس میں کتنی حقیقت ہے؟ کیا دیگر معاملات کی وجہ سے خودکشی کرنے والے افراد کو بھی ’کسان خودکشی ‘ کی فہرست میں شامل کیا جا رہے ہے۔کیا حکومت یا پھر دیگر سماجی تنظیموں کی جانب سے د ی جانے والی مدد کی امید میں دیگر معاملات کو کسان خودکشی کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ کسانوں کی خود کشی کے نام سے منسوب 50فی صد معاملات ہی صحیح ہوتے ہیں دیگر کچھ ایسے معاملات بھی ہیں مثلاً کسی دیگر معاملے میں کسان کے ایک 22سالہ لڑکے نے خود کشی کی اور میڈیا کے ذریعے یہ خبر بھی منظر عام پر آ گئی کہ قحط سالی کی بناء پر ایک نوجوان ’کسان کی خودکشی ‘ ۔ایک 77سالہ ضعیف نے خود کشی کی تب بھی اسی طرح کی خبرعام ہوئیں کہ’ پھر غریب کسان نے کی خودکشی‘۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مہاراشٹر میں 77سال کی عمر تک کوئی فردکھیت میں محنت کرنے والے کسان کی حیثیت اپنی زندگی جیتا ہے ؟۔حد تویہ ہے کہ کسی مقام کے ایک قتل معاملے کو بھی ’کسان خود کشی ‘ معاملہ کے طور پر درج کیا گیا! اب آئیے اس نکتہ کی طرف کہ جہاں کسان کی خود کشی قحط سالی یا پھر اس کی بوئی ہوئی فصل برباد ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔کسانوں کی خود کشی کے معاملات کی جانکاری رکھنے والے رپورٹرس حضرات سے گفت شنید کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ آج کے دور میں کسان بھی دیگر نوکر پیشہ افراد کی طرح زندگی جینے یا پھر آرام دہ اشیاء اپنے لئے بھی ضروری سمجھنے لگا ہے اور اس یہ خواہشات پوری نہ ہونے کی صورت میں وہ تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے جس کے چلتے ہی وہ خودکشی جیسے راستہ کو اختیار کرتا ہے۔ایک مشاہدہ یہ بھی ہے کہ اکثر کسان اپنی بیٹیوں کی شادی نہ ہونے کی صورت میں ،اپنے بوڑھے ماں باپ کی دوائیوں وغیرہ کے خرچ کو نہ برداشت کرنے یا پھر اپنے بچوں کو اچھے اسکول میں یا اعلیٰ تعلیم نہ دے پانے کے سبب بھی Dipression یا Stress کا شکار ہوتے ہیں۔کسانوں کی خود کشی کی ایک اہم وجہ کپاس کی فصل کی کاشت بتائی جاتی ہے کپاس کی پیداروار کے لئے ہونے والا خرچ اور اس سے ہونے والے منافع میں بہت بڑا فرق ہوا جا رہا ہے جو کہ کسانوں کے لئے نا قابل برداشت ہوتا ہے حالانکہ اچھی آمدنی کی امید میں ہی کسانوں کی جانب سے کپاس کی بوائی کی جاتی ہے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1996ء میں 01لاکھ 35ہزار ہیکٹر زمین پر کپاس کی کاشت کی جاتی تھی جوکہ اب حیرت انگیز طور پر 5لاکھ ہیکٹر زمین تک پہنچ گئی ہے لیکن اس پر ہونے والی آمدنی کا تناسب بہت کم ہے ۔گناّ اور کپاس جیسی نقد فصلوں کی چاہ میں بوائی تو ہوتی ہے لیکن ان فصلوں کو درکار پانی مہیا نہیں کر پاتے جس کے سبب یہ فصل برباد ہو جاتی ہے گنیّ سوکھی لکڑیوں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔یہ ہوئی کسانوں کی خود کشی کی وجوہات پر بات اب آئیے اس کے ممکنہ حل کے بارے میں بھی گفتگو کرتے ہیں۔اکثر یہ ہوتا ہے کہ ان معاملات میں کسانوں کی خود کشی کے بعد اس کی متاثرہ خاندان کو مدد پہنچائی جاتی ہے اور وہ مدد بھی اتنی کم ہوتی ہے کہ مذکورہ خاندان کو اس سے کوئی مستقل راحت نہیں پہنچتی۔حکومتی ادارہ ہو ہو یا پھر غیر سرکاری ادارے ان کی جانب سے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کسانوں کو خود کشی کرنے سے ہی کس طرح روکا جائے ؟کسانوں کی خود کشی کے بعد اس کا علاج کرنے کے بجائے خود کشی نہ ہو اس بات کی احتیاط کی گئی تو مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ کسانوں کی مناسب Counsling ہو ان میں زندگی جینے کا، مسائل کو حل کرنے کا ،حالات سے مقابلہ کرنے کا جذبہ پروان چڑھانا ہوگا۔زندگی کے تعلق سے ان میں مثبت سوچ پیدا کرنی ہوگی۔انھیں یہ بتانا ہوگا کہ زندگی دوبارہ ملنے والی نہیں ہے۔مسائل تو سب کو ہیں ،کوئی بھی مسائل سے بچا ہوا نہیں ہے۔لیکن ان مسائل کو حل کرنے کی خاطر جدو جہد کرنا ضروری ہوتا ہے۔کسانوں میں مذہبی رجحان کے ذریعے بھی موثر تبدیلی لائی جا سکتی ہے اس کی مثال گذشتہ دنوں فلمی شخصیت نانا پاٹیکر نے مراٹھواڑہ کے لاتور شہر میں کسانوں کی امدادی پروگرام میں یہ بات واضح کی کہ خود کشی کرنے والے کسانوں میں مسلم کسانوں کی تعداد’ نا ‘کہ برابر ہے ،کیا وجہ ہے کہ مسلم کسان خود کشی نہیں کرتے ؟ اس کا جواب بھی انھوں نے ہی دیا کہ اس کی وجہ اسلامی تعلیمات ہیں قرآنی ہدایات ہیں۔
میڈیا کہ ذریعے ا مداد کی تشہیر نہ ہو بلکہ میڈیا کسانوں کو حکومتی اسکیمات کا فائدہ پہنچانے والے واسطہ کے طور پر کام کرے۔حکومت ،انتظامیہ اوراخبارات بھی یہ فکر کریں کہ اپنے ضلع کے کسان خود کشی نہ کریں وہ خود کشی کے راستہ پر نہ جائیں اس سمت میں کوشش ہو۔حکومت کسانوں کو قرض کے بوجھ سے آزاد کر کے انھیں تناؤ سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔
جس کسی کسان کا خاندان خودکشی کے معاملے سے متاثر ہوا ہو وہاں مدد کرنا ضروری تو ہے لیکن جنھیں بھی مدد کا ہاتھ بڑھانا ہو وہ خاموشی کے ساتھ اسے انجام دیں۔میڈیا وغیرہ میں اس کی تشہیر نہ کریں۔ حکومت ندی جوڑنے کے منصوبہ کے تحت پانی کے مناسب استعمال کے ذریعے کسانوں کوراحت پہنچا سکتی ہے۔یہ قحط سالی قدرتی طور پر نمودار ہونے و الی کم اور انسانوں کی کرتوتوں سے پیدا ہونے والی زیادہ ہے۔آج انسانوں نے ندی میں ریت نہیں چھوڑی،جنگلوں میں درخت نہیں چھوڑے ،پہاڑوں پر ’مرم ‘ نہیں چھوڑا ،تب کیوں کر ہوگی قدرتی طور پر یقینی بارش وہ بھی با قاعدہ۔ آج بھی جن علاقوں میں قدرتی جنگلات کا وجود ہے وہاں بارش با قاعدگی سے ہوتی ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ قدرتی نظام کے ساتھ کھلواڑ نہ ہو اور ماحول کو متوازن رکھا جائے ،ماحول متوازن رہنے پر ہی کسان خوشحال رہ سکے گا اور ہمارے ملک کی خوشحالی بہت حد تک کسان کے خوشحال رہنے پر منحصر ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا