English   /   Kannada   /   Nawayathi

ملک کے سیاسی منظر نامہ سےدلت ومسلم قیادت کا بکھرتا شیرازہ!

share with us

اس پس منظر میں اسیذہنی غلامی کی انتہا کہیں یا برہمنوں کی جانب سے مسلط کردہ چاتر ورنیہنظام کے غلبہ کے اسے اثرات قرار دیں کہ اس کی بدولت ذلت و حقارت کی اتاہ گہری و عمیق سماجی پسماندگی کی قبر میں دلیت سماج کو زندہ درگور کرنے کے باوجود مذکورہ سماج اس احساس سے عاری آج بھی منو واد کی عزت واس کا احترام قابل توجہ ہے کہ ان کے گھروں میں جنم لینے والے نو نہالوں کے نام برہمنوں کے تخلیق کردہ دیوی دیوتاؤں کے ناموں پر رکھنے کی روایتوں میں جھانک کر دیکھنے کی کوشش کریں تب ڈاکٹر امبیڈکر کے سرپرستوں کی جانب سے مہا بھارت کے کردار بھیم کی طاقت اور عقلمندی کی جھلکیاں ان کے کردار میں یقینی طور پر مل پانے سے قطع نظر بابو جگ جیون رام کے سرپرستوں کی اسے ضعیف الاعتقادی ہی کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے لاڈلے کے نام میں رام کی شمولیت کے ذریعہ اپنے اس تصور کو ممکن کر دکھایا۔خود بابو جگ جیون رام نے اپنی دختر نیک اختر کا نام میرا کماری رکھ کر برہمنوں کے آئیڈیل ہیرو کی جانب سے کنواری لڑکیوں کو فلرٹ کرنے والے شری کرشنا کی منظور نظر رادھا کی رقیب میرا کے نام پر رکھ کر اپنے آپ کو خوش نصیب تصور کرنے کی ان کی سوچ یا عقیدہ کی خوش بختی ہی کہہ سکتے ہیں کہ میرا کمار نے سابق یو پی اے حکومت میں مرکزی وزیر برائے سماجی بہبود کی ذمہ داریاں نبھائی تھیں ۔اطلاعات کے بموجب بہار میں ان کے برادری کے ووٹرس کی تعداد ستائیس لاکھ کے قریب رہنے پر پارلیمانی الیکشن میں ناکامی کے بعد وہ بھی اسمبلی الیکشن میں حصہ لینے کے لیے پر تولنے کی اطلاعات کے دوران شاید کانگریس کے کوٹے سے انہیں امیدواری مل ہی جائے ۔
بہار کا جب ذکر خیر آہی گیا تب کسی زمانہ میں پارلیمنٹ کے لیے سب سے زیادہ ووٹوں سے کامیاب ہونے والے امیدواروں میں رام ولاس پاسوان نے سر فہرست رہنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ان کے نام کا المیہ بھی جگ جیون رام کے سرپرستوں کو درپیش المیہ کیمطابقپسماندہ طبقات کو حقارت کی نظر سے دیکھنے کی روایات کے باوجود ان کے والد ین نے بھی ایودھیا کے ہیرو شری رام چندر جی کی عظمت کو ذہن میں رکھ کر اپنے لخت جگر کوان کے نام سے منسوب کرتے ہوئے اپنی برادری کا دم چھلہ ان کے نام کے آگے ثبت کر دیا۔رام ولاس پاسوان نے اپنے دلیت ہونے کا استعمال صرف اپنے خاندان کو فیض پہنچانے کی حد تک کیا۔یہ ان پر ہمارا اپنا الزام نہیں یہ الفاظ بہار کے سابق وزیر اعلیٰ نتین رام مانجھی کے ہیں جو اتفاقاً دلیت بھی ہیں اور ان کے نام میں بھی رام موجود ہے۔انہوں نے امیت شاہ سے نمائندگی کے ذریعہ بہار اسمبلی میں ان کی اپنی پارٹی ہندوستانی عوامی مورچہ کے بارہ اراکین کو دوبارہ ٹکٹ دینے کے علاوہ ان کی پارٹی کے لیے اطمینان بخش نشستیں الاٹ کرنے کی اپیل و اسمبلی الیکشن کے تناظر میں مانجھی کا یہ بھی دعویٰ قابل غور ہے کہ پاسوان کی برادری کے ووٹرس کی تعداد صرف چھبیس لاکھ ہے۔ جب کہ ان کی برادری کے چھتیس لاکھ ووٹرس ہیں۔دلیت سما ج کے ایک اور قائد کشواہا برادری کے اپیندر کمار بھی خم ٹھونک کر اپنی برادری کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹکٹ کے حصول کے لیے میدان میں اتر آئے ہیں۔جب کہ بہار میں بی جے پی انتخابی کمان کے ذمہ دار بھوپیندر یادو نے امیت شاہ کے دورہ بہار کے موقع پر پٹنہ ائیر پورٹ پر ان کی ملاقات لالو پرشاد یادو کے کسی زمانہ میں منہ چڑھے پپو یادو سے کروادی۔پپو یادو اپنی جن ادھیکار پارٹی کی معرفت اپنی واضح شناخت بنانے میں کامیاب ثابت ہو رہے ہیں۔دلیت اور پسماندہ برادریوں کے قائد کی حیثیت سے اسمبلی الیکشن کی معرفت صرف بہار ہی نہیں بلکہ قومی سطح پر اپنے موقف کے امکانات کو ذہن میں رکھ کر برادریوں کی چودھراہٹ کی آڑ میں اپنا اپنا موقف مستحکم کرنے کی منصوبہ سازی کی کڑیوں کا سلسلہ پارلیمانی الیکشن میں بہار کی چالیس نشستوں میں بی جے پی کی بائیس لوک جن شکتی کی چھ اور لوک سمتا پارٹی کی تین نشستوں کے حصول میں وہ اس بات کی آئینہ دار ہے کہ خلاف توقع پہلی مرتبہ بہار میں بی جے پی نے کانگریس کے روایتی دلیت ووٹ بنک میں بڑی حد تک سیندھ لگاکر اس پر اپنا جو قبضہ جمایا وہ اس کے روایتی ووٹ بنک میں دلیتوں اور پسماندہ برادریوں کے اشتراک کے اس نتیجہ کے تاثرات اور رجحان کو برقرار رکھنے کے لیے یہ دیکھنا ہے کہ بی جے پی کی کوششیں کس حد تک بار آور ثابت ہوتی ہیں۔
رام ولاس پاسوان کے سلسلہ میں حقائق یہ ہیں کہ پارلیمانی الیکشن سے قبل موصوف لالو پرشاد یادو کی معرفت کانگریس سے اتحاد کے لیے کوشاں تھے۔راہل گاندھی نے انہیں اہمیت نہ دی ۔ان کے صاحبزادہ چراغ پاسوان نے بہار کے سابق نائب وزیرسشیل کمار مودی سے رابطہ کے ذریعہ این ڈی اے کیخیمہمیں داخلہ حاصل کرنے میں نہ صرف کامیابی حاصل کی بلکہ الیکشن میں کامیابی کے انعام کے طور پر مرکزی کابینہ میں پاسوان اہم قلمدان وزرات کے حصول کے ذریعہ دلیتوں کے موقف کو مزید مستحکم کرتے ہوئے برہمنوں کے مسلط کردہ چاتر ورنیہ نظام کو نئی سیاسی شکل و ایک نیا روپ دینے میں وہ سرگرم عمل دکھائی دیتے ہیں۔آر ایس ایس کے فلسفہ کے بموجب بہار کے سترہ فیصد مسلم ووٹرس جن کی آبادی ایک کروڑ ہے اس کو بے اثر کرنے کے آغاز کی بہار سے شروعات کے پس منظر میں جھانک کر دیکھیں تو یہ نظر آئے گا کہ مولانا ابو الکلام آزاد سے لیکر غلام نبی آزاد کی کانگریس نے کیا درگت بنائی۔ملائم سنگھ یادو نے اعظم خان کو اپنی یادوی لکشمن ریکھا کو عبور نہ کرنے کا خصوصی خیال رکھا۔البتہ بہار میں مسلم ووٹوں کے حصول کے نام پر طارق انور کو بہار کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے پراجکٹ کرنے میں کہیں بی جے پی کے لیے ہندو ووٹرس کو متحد کرنے کی ان کی تو حکمت عملی نہیں؟وہیں نتیش کمار اور لالو پرشاد یادو کی ہمیشہ یہ کوششیں رہیں کہ ان کے زیر سایہ کوئی مسلم قیادت سر بلند نہ ہونے پائے بھارتیہ جنتا پارٹی کے سہارے مفتی محمد سعید نے اس کی خوش نودی کے حصول کے لیے کشمیر میں بیف پر جزوی پابندی عائد کردی۔پھر بھی ملک کی یہ توقعات ہیں کہ مسلمان سیکولر روایات کی پالکی کے بھوئی کی پاسداری کریں۔تو کیا ملک کے جمہوری نظام نے مسلمانوں کو بوجھ ڈھونے والا حمال تصور کر لیا ہے؟
جب کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ملک کی آزادی کے بعد دلیت طبقہ کی سماجی‘تعلیمی‘معاشی ترقی کے ریزرویشن کے حصول کی سہولت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔اس کا سارا کریڈیٹ ڈاکٹر امبیڈکر کے سر جاتا ہے۔جنہوں نے نا مساعد حالات کے باوجود محض اپنی ذہانت کے بل پر سب سے پہلے خود کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔جب دلیت طبقے کی سر بلندی کے لیے انہوں نے اپنے مشن کا آغاز کیا تب اس سماج نے ان کی قیادت میں اتحاد و اتفاق کے مظاہرہ کے ذریعہ خود کو داؤ پر لگاکر اس مشن کو کامیابی سے ہمکنار کروایا ۔دلیت سماج کی یہ خوش بختی ہے کہ انہیں بر وقت مخلص افراد کا بیش قیمت تعاون ملتا رہا۔ان میں کولہا پور کے شاہو مہاراج اور حیدرآباد کے آخری حکمراں نواب میر عثمان علی خاں کا انہیں خصوصی تعاون حاصل رہا۔ملک کی تقسیم کے بعد ہندو اور مسلمانوں کی آبادی کے موضوع پر کانگریس و مسلم لیگ کے مابین اختلافات پر1928 ؁ء میں پونے پیکیٹ کے نام پر ڈاکٹر امبیڈکر نے مہاتما گاندھی کی مشروط حمایت پر کانگریس کے حق میں فیصلہ کے ذریعہ آزادی کے بعد اس کی قیمت وصول کی۔اسی کے بل پر 1950 ؁ء میں صدر جمہوریہ نے خصوصی حکمنامہ کی اجرائی کے ذریعہ شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب طبقات کو ریزرویشن کا اہل قرار دیا تھا۔
دلیتوں کو ریزرویشن دیے جانے کے مرحلے کے دوران تکمیل حجت کے نام پر مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا تھا۔اس وقت کانگریس کی نام نہاد مسلم قیادت خصوصاً بیگم الیاس رسول کی آنکھوں پر پدرم سلطان بودکے چشمہ نے مستقبل میں ہندوستانی مسلمانوں کی صورتحال اور اس حقیقت کے ادراک سے محرومیت کی وجہ سے مسلمان آج دو چار ہیں۔دلیتوں کو ریزرویشن کا اہل قرار دینے کے چالیس سال بعد حسن اتفاق سے منڈل کمیشن کی سفارشات کی بنیاد پر پسماندہ مسلم پیشہ ورانہ برادریوں کو یہ موقع فراہم ہوا ۔مگر حکومت اور انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت اور ان کی ملی بھگت کے نتیجہ میں یہ برادریاں اپنے آئینی حقوق سے محروم رہنے کے تناظر میں خود ہماری ریاست مہاراشٹر میں اسی موضوع پر تشکیل کردہ تین تنظیمیں ان حقوق کی بازیابی کے بجائے خود کو نمائندہ تنظیم ہونے کے نام پر آپس میں بدست و گریباں ہیں جب کہ سچر کمیشن کے علاوہ دیگر کمیشنوں نے مسلمانوں کی ابتر صورتحال دلیتوں کے مقابلہ میں بد تر ہونے کی توثیق کی ۔اس رپورٹ پر عمل اور رد عمل پر یقین دہانیاں اور تیقنات پر صبر یہ سلطان جمہور کے روشن دور میں مسلمانوں کی تسلی کا صرف ساماں ہی نہیں بلکہ آج ملک کے سیاسی منظر نامہ سے مسلم قیادت کا شیرازہ بکھرنے کی وہ تصویر بنی ہوئی ہے!

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا