English   /   Kannada   /   Nawayathi

آگ بجھی ہوئی نہ جان آگ دبی ہوئی سمجھ

share with us

14 ستمبر کی شام کو این ڈی اے محاذ کی ریوڑیوں کا اعلان پارٹی کے صدر امت شاہ کو کرنا تھا۔ بی جے پی کے وہ تینوں ساتھی جو یہ سوچے بیٹھے تھے کہ ان کو اتنا ملے گا جتنا جے ڈی یو کو بی جے پی نے دیا تھا کہ نتیش کمار وزیر اعلیٰ تھے اور بی جے پی کے سُشیل مودی نائب وزیر اعلیٰ۔ لیکن امت شاہ اپنی تقریر کو لمبا کرتے جارہے تھے۔ وہ سارا زور اس پر دے رہے تھے کہ الیکشن تو صرف مودی جی کے نام پر لڑا جائے گا اس لئے بی جے پی ہی اصل پارٹی ہے اور اپنے کو اصل سمجھنے والے پاسوان اور مانجھی کا بلڈ پریشر بڑھتا چلا جارہا تھا اور وہ جاننا چاہ رہے تھے کہ انہیں سیٹیں کتنی کتنی مل رہی ہیں؟ خدا خدا کرکے آدھے گھنٹہ تک ساتھیوں کے صبر سے کھیل کر امت شاہ نے مسکراتے ہوئے اعلان کیا کہ بی جے پی 160 سیٹوں پر لڑے گی۔ پاسوان صاحب 40 پر کشواہا صاحب 23 پر اور وہ مہادلت جن کے اوپر نتیش کی طرف سے ہونے والے مظالم کو بیان کرتے ہوئے نریندر بھائی مودی بھائی کی آواز بھراّ جاتی اور آنکھوں میں آنسو بھرجاتے تھے انہیں پاسوان سے آدھی یعنی صرف 20 سیٹیں عطا کردیں۔
اس اعلان کے بعد وہی ڈرامہ کہ سب نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑکر بلند کرکے یہ ثابت کیا کہ فیصلہ ہم سب کو منظور ہے اور اس سے پہلے اور اس کے بعد یہ ڈرامہ بھی دکھایا گیا کہ سب ایک دوسرے کے منھ میں مٹھائی ڈال رہے ہیں لیکن جب پردہ گرا تو کانا پھوسی شروع ہوئی۔ وجہ یہ ہے کہ وہ رام ولاس پاسوان جو لالو یادو اور کانگریس کو چھوڑکر 2014 ء میں مودی کے ساتھ گئے تھے وہ دشمنوں کے ٹولے میں وزیر بننے نہیں گئے تھے بلکہ اس دن کے لئے گئے تھے کہ مودی صاحب انہیں بہار کا راجہ بنا دیں گے اور وہ پانچ برس حکومت کرکے اپنی ساری حسرتیں نکال لیں گے۔ اسی لئے سیٹوں کی تقسیم سے پہلے انہوں نے کہا تھا کہ بی جے پی کو 102 سیٹوں پر لڑنا چاہئے لیکن وہ جہاں گئے ہیں وہ کانگریس کی طرح ڈوبتا جہاز نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت اپنے ملک میں وہ ہے جو دنیا میں امریکہ کی ہے۔ ایسی صورت میں پاسوان کا یہ مطالبہ بھی شاید نہ مانا جائے کہ ان کے فرزند چراغ پاسوان کو نائب وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے۔
جیتن مانجھی پہلے دن سے اس پر اَڑے ہوئے تھے کہ وہ پاسوان سے بڑے دلت لیڈر ہیں آخر میں وہ اس پر آگئے تھے کہ جتنی سیٹیں پاسوان کو دی جائیں اتنی ہی انہیں دی جائیں۔ وہ ایک تو مہادلت ہیں دوسری کمزوری یہ ہے کہ سیاست کے پرانے کھلاڑی نہیں ہیں۔ ان کے کانوں میں مودی صاحب کی جو پیار بھری باتیں گونجا کرتی تھیں وہ ان کی اس نفرت کو ہوا دینے کے لئے ہوتی تھیں جو انہیں نتیش کمار سے ہے اور ان کی صرف یہی ادا مودی کو پسند تھی کہ وہ دشمن کے دشمن ہیں۔ اتنہا یہ ہے کہ مودی صاحب نے ان کی مسکراہٹ کی تعریف کرکے انہیں ایسے ہی بانس پر چڑھا دیا تھا جیسے کسی نے کہا ہے ؂
بھینسے کی کمر پر خطِ لاٹھی سے لکھا تھا
قربان مری جان تیری پتلی کمر پر
ظاہر ہے کہ 125 کروڑ انسانوں کے ملک کا وزیر اعظم اگر جیتن مانجھی کی مسکراہٹ کی تعریف کردے تو برسوں لگیں گے ان ہونٹوں کو بند ہونے میں اور ان کے یہ سمجھنے میں کہ مودی صاحب میری کمر پر کھڑے ہوکر نتیش کمار کے سینے میں تیر مار رہے تھے۔
بی جے پی ہو یا پاسوان کی پارٹی وہ جن ہتھیاروں سے لڑنے جارہے ہیں ذرا اُن کی دھار تو دیکھ لیں! مودی صاحب نے لوک سبھا کے الیکشن میں نوجوانوں کو آواز دی تھی اور انہیں روزگار کا خواب دکھایا تھا۔ کیا وہ اپنے جلسوں میں بتائیں گے کہ انہوں نے کس ضلع کے کس ذات کے اور کس مذہب کے کتنے بے روزگاروں کو روزگار سے لگا دیا؟ رہی وہ پندرہ لاکھ کی بات تو وہ تو بچہ بچہ کو یاد ہے اسے کیا یاد دلائیں لیکن یہ اس کا تو جواب دیں کہ ایک لڑکے کو سیلاب میں اس کا گھر بار بہہ جانے کے معاوضہ کے طور پر 14 ہزار کا ایک چیک ملا ہے وہ ہر بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے میں ناکام ہوکر میرے نواسے کے پاس آیا جس کی کمپنی کا لاکھوں کا ایک بینک سے لین دین ہوتا ہے۔ اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو اس کے ساتھ بھیج دیا کہ ہماری ضمانت پر اکاؤنٹ کھول دیا جائے۔ متعلقہ کلرک نے میرے چھوٹے نواسے فیصل سے معلوم کیا کہ آپ کو اس سے کتنا کمیشن ملا ہے؟ یہ ہے اس جن دھن کا انجام جس کے لئے وزیر اعظم نے اتنے ڈھول بجائے کہ وہ پھٹ گئے۔
وہ رام ولاس پاسوان جو 2014 ء میں جب وزیر بنے تھے تو ارہر کی دال 80 روپئے کلو تھی اور پیاز 20 روپئے کلو آج دال 150 روپئے میں ہے اور پیاز 100 روپئے میں یہ وہ مہنگائی ہے جس کے لئے ان کے آقا نریندر بھائی مودی نے کہا تھا کہ جس دن ہماری سرکار بن جائے گی اسی دن مہنگائی آدھی ہوجائے گی۔
سال بھر پرانی باتیں تو بچوں کو بھی یاد رہتی ہیں اور جو روٹی کپڑے اور مکان سے پریشان ہو اُسے تو دن اور رات میں دس دفعہ یاد آجاتا ہے کہ کس نے انہیں یقین دلایا تھا کہ ہمارا نعرہ ہے سب کا ساتھ سب کا وکاس اور ہو یہ رہا ہے کہ وکاس کے نام پر انہیں کہیں کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ اب پھر ان سے وکاس کا وعدہ کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ نتیش کمار کی حکومت بدل جائے تو ہم وکاس کریں گے۔ اس وقت بہار والوں کے دماغ میں یہ سوال اُٹھے گا کہ اپریل 2014 ء میں کیوں نہیں کہا تھا کہ جب تک دہلی اور پٹنہ دونوں جگہ ہماری حکومت نہیں ہوگی وکاس نہیں ہوسکتا؟
16 مہینہ میں پورے ملک نے دیکھ لیا کہ وکاس صرف ایک کھوکھلا نعرہ ہے اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ جو وکاس وکاس گا رہے ہیں ان کے پاس خود وکاس کا کوئی نقشہ نہیں ہے۔ حد یہ ہے کہ گجرات مدھیہ پردیش راجستھان اور جھارکھنڈ میں کہیں وکاس نظر نہیں آتا۔
عمر بھر ہم نے الیکشن میں دلچسپی لی ہے۔ محاذ کی سیاست کا بھی ہم نے بار بار انجام دیکھا ہے۔ اسی کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ این ڈی اے صرف اس محاذ سے نہیں لڑے گی کہ سامنے نتیش، لالو اور سونیا ہوں گے۔ بلکہ مانجھی اور پاسوان کے درمیان بھی ایک الیکشن ہوگا کہ کون بڑا دلت لیڈر ہے؟ اور پاسوان کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اگر این ڈی اے یہ اعلان کرکے الیکشن لڑتا کہ ہمارا وزیر اعلیٰ رام ولاس پاسوان ہوگا تو جیت یقینی تھی انہیں یہ بھی دکھانا ہوگا کہ 2014 ء میں مودی صاحب نے جو سنہرے وعدے کئے تھے ان میں یہ بھی تو نہیں ہوا کہ ڈالر کے مقابلہ میں روپئے کی قیمت کچھ سنبھل جاتی اور ایک بھی وعدہ تو پورا کیا ہوتا اس کی ابتدا بھی نہیں ہوئی تو کیسے اپنی حکومت بنتی؟
معلوم نہیں بہار کے لوگ پاسوان صاحب کو کتنا جانتے ہیں؟ لیکن ہم نے یہ دیکھا ہے کہ انہیں ایک بار تقریر کرنے کے لئے سنبھل بلایا گیا تھا۔ تقریر کے بعد کھانے میں تیتر اور دیسی مرغ بھی تھے۔ پاسوان نے انتہائی شوق سے کھائے۔ بعد میں امیدوار نواب زادہ اقبال محمود سے کہا کہ آپ نے مرغ کھلاکر میرے دانت خراب کردیئے اب ان کی صفائی کرانا پڑے گی۔ نواب زادہ نے نیا ٹوٹھ برش اور پیسٹ خدمت میں پیش کردیا۔ انہوں نے کہا اس سے نہیں دانتوں کے ڈاکٹر سے صفائی کرانا پڑے گی جو دو ہزار روپئے میں ہوتی ہے۔ نواب صاحب نے فوراً دو ہزار روپئے جیب میں ڈال دیئے۔ بہار کے غریب اگر انہیں وزیر اعلیٰ بنادیں تو اس کا خیال رکھیں کہ ان کی دعوت کرنے سے پہلے معلوم کرلیں کہ وہ ایسی کون سی چیز کھائیں گے جس کے بعد دانتوں کے ڈاکٹر سے صفائی نہ کرانا پڑے۔ اس لئے کہ شاید اُن کی فیس پانچ ہزار روپئے ہوچکی ہوگی۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا