English   /   Kannada   /   Nawayathi

دیکھ کیسے دھیرے دھیرے مررہا ہے لکھنؤ

share with us

جبکہ 15 اگست 1947 ء کے بعد صوبہ کے بننے والے وزراء اعلیٰ پنڈت پنت، ڈاکٹر سمپورنانند، سی بی گپتا، چودھری چرن سنگھ، کملا پتی ترپاٹھی، نرائن دت تیواری، ہیم وتی نندن بہوگنا، مایاوتی، ملائم سنگھ اور موجودہ وزیر اعلیٰ اکھلیش سنگھ کوئی بھی کسی تقریب میں تھری پیس سوٹ میں نہیں دیکھا گیا۔
لکھنؤ سے لے کر دہلی تک کی خاموشی کا سبب صرف یہ ہے کہ ملک کا ایک بڑا سیاسی طبقہ اس کی بنیاد پر حکومت پر قبضہ کا دعویدار ہے کہ اس نے آزادی کی جنگ لڑکر ملک کو آزاد کرایا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آزادی حاصل کی نہیں ہے بلکہ انگریزوں نے ہمیں اپنی مجبوری کی وجہ سے آزاد کردیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کو اپنے ملک کا سنبھالنا ہی مشکل ہورہا تھا وہ اتنی بڑی سلطنت کو کیسے سنبھالتا جہاں سورج غروب ہی نہیں ہوتا تھا؟ ہندوستان کا آخری گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بناکر بھیجا گیا تھا۔ ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہ اسے اس وقت کی تاریخ کے تقاضوں کا کوئی شعور نہیں تھا۔ وہ دہلی پہونچتے ہی مختلف سرکاری و غیرسرکاری ذرائع سے ہندوستان کے اس وقت کے حالات کی رپورٹیں سن کر سراسیمہ ہوگیا۔ اس کی سمجھ میں صرف ایک ہی بات آئی کہ جتنی جلد ہوسکے یہاں سے بھاگو، دوڑو اور جان بچاؤ۔ بصورت دیگر برصغیر کا فرقہ وارانہ خانہ جنگی اور طبقاتی انقلاب کے شعلے نہ صرف برطانوی سامراج کو بلکہ اس کے اعتدال پسند دوستوں کو بھی جلاکر بھسم کردیں گے۔
اس کے بعد اقتدار کی منتقلی اور ملک کی تقسیم یا پاکستان کی تشکیل کے لئے نہ گولیاں چلیں نہ تلواروں سے گردنیں کٹیں نہ وائسرائے کو محل سے اٹھاکر باہر پھینکا گیا بلکہ اقتدار اس طرح منتقل ہوا جیسے شادی میں کنیادان ہوتا ہے کہ ماؤنٹ بیٹن زندہ باد کے نعرے بھی لگ رہے تھے اور جب وہ باعزت رخصت ہونے لگا تو نہرو نے اسے روک کر کہا کہ آپ ہی ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل بن جایئے تاکہ ہم سیکھ تو لیں کہ ہم ملک پر حکومت کیسے کریں؟
اس سے پہلے اقتدار کی ایک منتقلی اس وقت ہوئی تھی جب ہندوستان میں بابر آیا تھا۔ وہ جدھر سے گذرا پورے راستے میں لاشیں گراتا ہوا اور خون سے زمین کی پیاس بجھاتا ہوا آیا تھا۔ پھر جب اس کی نسل کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر سے انگریزوں نے اقتدار حاصل کیا تو دہلی سے لے کر الہ آباد تک ہر درخت میں لاشیں ٹنگی ہوئی تھیں اور دہلی کے ہر شریف مسلمان کا گھر قبرستان بن گیا تھا۔ رہے بادشاہِ وقت کے لختِ جگر تو اُن کے کٹے ہوئے سر باپ کو تحفہ میں دیئے گئے تھے اور خود بادشاہ کو رہنے کے لئے ہندوستان میں ایک جھونپڑی بھی نہیں دی گئی تھی۔
ظاہر ہے کہ جب اقتدار اس طرح منتقل ہو کہ جس سے حکومت لی جارہی ہے اس سے کہا جائے کہ حضور سال دو سال ہم اور غلام رہنا چاہتے ہیں آپ ہمارے سر کا تاج بن جائیں اور حکومت کریں تو پھر ہر وہ لعنت باقی رہے گی جس سے ان کی یاد وابستہ ہے۔ نہرو جیسوں کی یہی بہادری بہت ہے کہ انہوں نے ایسے کلب سے وہ بورڈ ہٹوا دیئے جن پر لکھا تھا کہ ’ہندوستانیوں اور کتوں کا داخلہ منع ہے۔ لیکن کیا یہ اس سے کم درجہ کی گالی ہے کہ ملک کو آزاد کرانے کے ہیرو گاندھی کو بتایا جاتا ہے کہ اس نے جنوبی افریقہ سے آنے کے بعد صرف لنگوٹی اور دھوتی پہن کر قیادت کی اور وہ 30 جنوری 1948 ء تک اسی لباس میں رہا۔ وہ اگر آج بھی زندہ ہوتا تو کیا محمد باغ کلب میں اس کو بھی روک دیا جاتا؟
ہر گفتگو میں کہا جاتا ہے کہ سر سے پاؤں تک یا اوپر سے نیچے تک اور یہ بگاڑ اوپر سے نیچے تک اس لئے ہے کہ صداقت آشرم پٹنہ میں زندگی گذارنے والے راجندر پرشاد نے صدر جمہوریہ بننے کے بعد اس قصر صدارت میں رہنے سے انکار نہیں کیا جس کی جب ایک ہتھنی بیمار ہوئی تو ملک کی خاتونِ اوّل صدر جمہوریہ کی پتنی اس بیمار ہتھنی کی صحت کے لئے دھوتی میں ملبوس اس کے پاس بیٹھی ہوئی پوجا کررہی تھیں اور جو اس محل کو چھوڑکر گیا تھا یعنی ماؤنٹ بیٹن اس کی پتنی لیڈی ماؤنٹ بیٹن نے حکومت کی منتقلی میں اپنے شوہر سے زیادہ حصہ لیا تھا۔ جب بات صدر سے اور پارلیمنٹ سے بگڑ جائے تو گاؤں کی پنچایت تک نہیں سنبھل سکتی۔ صدر کے محل میں حلف برداری کی تقریب ہو یا پارلیمنٹ کو صدر کے خطاب کی تقریب ہو اس وقت ان کو راشٹرپتی ہی کہا جائے گا لیکن وہ اپنی ہر ادا میں جارج پنجم کی نقل کریں گے اور ہندوستان کے سپوت فخر کریں گے کہ ہمارے گاؤں کا مکھیا جارج پنجم بن گیا۔
ہمارے جیسے ملک سے ہر محبت کرنے والے کو امید تھی کہ اگر نہرو کا بنایا ہوا سیاسی سماج ختم ہوجائے اور آر ایس ایس جیسی تنظیم کے ہاتھ میں ملک آجائے تو شاید انگریزوں کی غلامی کے یہ نشانات مٹا دیئے جائیں گے لیکن مودی کی حکومت کا ایک سال پورا ہونے اور سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کی طرف سے ان کی انگریزی مارکہ حکومت پر اطمینان کے اظہار کے بعد آخری امید بھی ختم ہوگئی۔ اب چاہے سوکھے کی وجہ سے ہر گاؤں سے خودکشی کی خبریں آئیں یا ہر طرف سے لوٹ مار کی پورے ملک میں وہی ہوتا رہے گا جو انگریز چھوڑ گئے ہیں۔ راشٹرپتی بھون ہو، پردھان منتری کا لباس ہو سپریم کورٹ سے چھوٹی عدالتوں تک ہر جگہ وہی ہوگا جو انگریز کے دکھائے گئے ہیں اور کس کی مجال نہیں ہے کہ ان کی چھوڑی ہوئی لعنتوں کو مٹانے کی ہمت کرے۔
محترم مولانا کلب صادق صاحب چاہے اس سے بھی کم یا اور زیادہ عبا و قبا میں ہوتے مگر ان کے ساتھ تام جھام ہوتا اے کے 47 ہاتھوں میں لئے کالے کمانڈو ہوتے تو ہر پھاٹک کھلتا چلا جاتا۔ ان خبروں سے چیف سکریٹری اور ڈی ایم کو اس لئے ڈوب مرنا چاہئے تھا اس لئے کہ بات لکھنؤ شہر کی ہے جہاں شاید ہی کوئی پڑھا لکھا ہو جو مولانا کلب صادق کے مقام سے واقف نہ ہو۔ وہ بلاشبہ سب سے ممتاز شیعہ عالم ہیں اور بیشک و شبہ مسلمانوں میں واحد مقرر ہیں جو لاکھوں کے مجمع کو اس وقت تک ہلنے نہیں دیتے جب تک وہ تقریر کررہے ہوں۔ یہ تو اترپردیش اور لکھنؤ کے لئے فخر کی بات ہے کہ وہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ہم تو حیران ہیں کہ اب تک یہ خبر کیوں نہیں آئی کہ وہ بورڈ اکھاڑکر پھینک دیا گیا اور کلب میں انگریزی کی یادگار شراب اور جوئے پر پابندی لگادی گئی؟ یہ بھی انگریزوں کی لعنت ہے کہ کہیں بھی جوا کھیلنا جرم ہے لیکن محمد باغ کلب اودھ جیم خانہ کلب اور لکھنؤ کلب میں چاہے جتنا کھیلا جائے جائز ہے۔
تین مہینے پہلے حیدر آباد میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس میں صدر محترم اور جنرل سکریٹری کی پیرانہ سالی، ان کی مصروفیات اور ملک کے حالات کے پیش نظر قیادت میں تبدیلی کی آواز اُٹھی تھی۔ اس کے بعد ہم نے صرف ایک صحافی کی حیثیت سے لکھا تھا کہ صدر مولانا رابع صاحب کی صحت اور ندوہ کی نظامت ہی بہت بڑا بوجھ ہے۔ اس لئے کہ ندوہ اب مدرسہ نہیں یونیورسٹی بن گیا ہے وہاں داخلہ صرف قسمت والوں یا مخصوص تعلق والوں کو ملتا ہے۔ نوبت یہ آگئی ہے کہ عا لمیت میں داخلہ کے امیدواروں سے فزکس اور کیمسٹری کے سوال پوچھ کر انہیں فیل کرکے واپس کردیا جاتا ہے۔ اسی بوجھ کو کم کرنے کے لئے ہم نے جو تجویز پیش کی تھی اس میں عرض کیا تھا کہ مولانا کلب صادق صاحب کو سب مل کر آمادہ کریں اور انہیں صدر بنادیں وہ نائب صدر ہیں لیکن جہاں کہیں اجلاس عام میں ان کی تقریر ہوتی ہے اس کے بعد کوئی دوسری تقریر نہیں سننا چاہتا اور یہ روایت بھی صحتمند نہیں ہے کہ جو صدر بن جائے وہ قبر میں جانے تک صدر رہے۔
ہمیں مسلمان وزیروں اور مسلمان ممبرانِ اسمبلی سے بھی شکایت ہے کہ انہوں نے اتنے اہم معاملہ کو اتنی بھی اہمیت نہیں دی کہ وہ وزیر اعلیٰ سے کہیں کہ وہ انتہائی سخت قدم اٹھائیں کسی بھی کلب کی انتظامیہ میں کیسے ہی لوگ ہوں) اور کلب اسکول نہیں ہوتے کہ ان کا یونیفارم مقرر کیا جاتا ہے اور مذہبی پیشوا اور راہ نما تو سوچ بھی نہیں سکتے کہ انہوں نے اپنے لئے جو لباس مقرر کیا ہے اس میں کسی بھی وجہ سے تبدیلی کردیں۔ پارلیمنٹ جو ملک کا سب سے بڑا کلب ہے اس میں مولانا اسرار الحق قاسمی، مولانا بدرالدین اجمل کا اپنا لباس ہے ساکشی مہاراج، سادھوی اوما بھارتی کا اپنا، اسد الدین اویسی کا اپنا اور وزیر اعطم کا اپنا۔ اس کے بعد کسی کلب کی حیثیت ہے کہ وہ لباس کا ضابطہ بنائے؟

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا