English   /   Kannada   /   Nawayathi

بہار الیکشن اور گٹھ بندھن

share with us

پھر پوچھا جاتا ہے اتنا کافی ہے یا کچھ اور دیا جائے ۔ انداز ایسا جیسے کوئی راجہ اپنی پرجا پر مہربان ہو کر دولت لٹا رہا ہو ۔ یہ پوچھنے کے بجائے کہ اپنے کو پردھان سیوک کہنے والے داتا کیسے بن گئے ۔ عوام تالیاں بجاتے اور نعرے لگاتے ہیں۔
دوسری طرف یہ سوال کرنے کے بجائے ہماری ہی کمائی ہم کو دے کر احسان کیسا ؟ کہا جا رہا ہے کہ اتنا پیسہ دیں گے کہاں سے بجٹ میں یہ رقم شامل نہیں ہے ۔ ان کا پٹارا خالی ہے یہ بات صحیح ہے کہ یہ اسی طرح کا اعلان ہے جیسا کہ پارلیمنٹ الیکشن کے وقت کیا گیا تھا کالی دولت دیش میں واپس لائیں گے ۔ ہر خاندان کو کم از کم 15لاکھ ملیں گے بعد میں کہدیا گیا کہ وہ توچناوی جملہ تھا ۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے جموں کشمیر کو بھی اسی طرح کا پیکج دیا گیا تھا ۔عوام نے الیکشن جتا دیا لیکن پیکج کہا گیا کوئی نہیں بتا سکتا ۔بہار میں یہ خود بی جے پی کے ساتھ مل کر سرکار چلا چکے ہیں ۔در اصل بہار کے لوگوں کو بھرمانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو کیا یہاں کے لوگ اس جھانسے میں آئیں گے ؟ عوام تو دونوں کی ریلیوں میں تالیاں بجاتے ہیں ۔ نہ تو کوئی یہ پوچھتا ہے کہ دس سالوں میں ریاست کی کتنی ترقی ہوئی جو وعدے کئے گئے تھے وہ کتنے پورے ہوئے اور نہ یہ خود بتاتے ہیں کہ آئندہ پانچ سالوں کے لئے ان کا منصوبہ کیا ہےَ ؟۔
عوام کا مجمع جڑتا ہے لطیفے سنتا ہے وہ کبھی اس کا کبھی اس کا کھیل دیکھتا اور اپنے اپنے گھروں کو چلا جاتا ہے ۔ برسوں سے یہ سلسلہ جاری ہے ۔ سیاسی لیڈران آتے ہیں بھاشن سناتے ہیں چلے جاتے ہیں ۔ عوام ادھر سے سن کر ادھر نکال دیتے ہیں ابھی کوئی ذہن پر زور نہیں ڈال رہا ۔ انہیں معلوم ہے کہ ووٹ دینے کا فیصلہ کب کرنا ہے ۔ ابھی الیکشن کی خماری چڑھ رہی ہے یا چڑھائی جا رہی ہے ۔ تین مہنے غریب ، مزدور ، کمزور ، پسماندہ برابر کے شہری ہونے کے احساس میں جئیں گے ۔ ریلیوں میں یہی بھیڑ کا حصہ بنیں گے کبھی پیسے لے کر کبھی شہر گھومنے اور مفت کی سواری کے لالچ میں تو کبھی بیگار میں سیاسی لوگ بھی جانتے ہیں کہ انہیں کب اور کیا قدم اٹھانا ہے اور ان کی گانٹھ میں بندھا قیمتی ووٹ کیسے نکلوانا ہے ۔
بہار کا انتخاب ویسے تو اتحاد اور عظیم اتحاد کے بیچ ہونے والا ہے ۔ لیکن حقیقت میں یہ ایک نظریے اور سیاسی پارٹیوں کے وفاق کے بیچ ہوگا ۔ اس لئے یہ الیکشن مودی اور ان کی تنظیم کے لئے ناک کا سوال بنا ہوا ہے ۔ ان کے نعروں میں دہلی والوں کے لئے کوئی کشش نہیں تھی ۔ جس کی وجہ سے دہلی میں ان کا جادو نہیں چل سکا ۔ اگر یہ طلسم بہار میں بھی ٹوٹ جاتا ہے تو اس کا اثر آئندہ آنے والی پانچ ریاستوں کے انتخابات پر پڑے گا اس لئے بہار میں سام ، دام ، ڈنڈ ، بھید سارے حربے استعمال کرنے کی تیاری ہے ۔ ذات برادری کے سمیکرن کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے رام ولاس پاسوان ، جتین رام مانجھی اپیندر کشواہا اور پپو یادو کو اپنے اتحاد کا حصہ بنایا ہے ۔ برہمن ، ٹھاکر ، بنیا ، چھتری ووٹ کو تو وہ اپنا مانتی ہے دلت ، مہا دلت ، پسماندہ اور انتہائی پسماندہ ووٹ حاصل کرنے کے لئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے ۔بھاجپا جانتی ہے کہ پسماندہ ووٹ حاصل کئے بغیر اقتدار کی کرسی تک پہنچا ممکن نہیں ۔ امت شاہ کا بیان کہ وزیر اعظم نریندر مودی او بی سی سے تعلق رکھتے ہیں اپنے آپ میں اس کا ثبوت ہےْ ۔ مسلم ووٹوں کو حاصل کرنے یا بے اثر کرنے کی بھی منصوبہ سازی کی جا رہی ہے ۔ الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہونے سے عین پہلے سا بق فوجیوں کے لئے ون رینک ون پینشن کا اعلان بھی چناؤ کے پیش نظر کیا گیا ہے ۔
مانجھی اور کشواہا کا بی جے پی کے ساتھ ہونا حیرت کی بات ہے کیونکہ جس برہمن واد نے ملک کے کامگاروں کو دلت اور پسماندہ کے زمرے میں بانٹا اور صدیوں تک ان کا استحصال کیا ان کے بزرگوں کی بے عزتی کی عورتوں کی عصمت دری یہ خود دلت و پسماندہ کے حق کی لڑائی کے بل پر اس مقام تک پہنچے۔ کیا سیاسی مفاد ان پر اتنا حاوی ہو گیا کہ یہ اسی منو وادی چھاتے کے نیچے جا کھڑے ہوئے جس سے بچپن سے نفرت کرتے آئے تھے ۔ یہ اپنی ہی قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔برہمن وادیوں کا جھنڈا اٹھاکر آخر ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں یہی کہ وہ منو وادیوں کے حامی ہیں یا یہ کہ وہ خود ہی اپنی قوم میں برہمن بن گئے ہیں ۔ کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ بی جے پی ذات کی بنیاد پر ریزرویشن کے خلاف ہے ۔ وہ چاہتی ہے کہ ریزرویشن معاشی بنیادپر ہو یا پھر ریزرویشن ہوہی نہ ۔ کیا پاسوان ، مانجھی اور کشواہا بی جے پی کے اس نظریہ کو بدل سکیں گے ۔ایسا لگتا ہے کہ ان کو اپنی قوم پر بھروسہ نہیں ہے اس لئے وہ سیاسی مفاد کی خاطر بی جے ہی کا دامن تھامنے کو مجبور ہوئے ۔ 
خیر بی جے پی سابق کی طرح وکاس اور گڈ گورننس کے نعرے کے ساتھ چناوی میدان میں ہے اس کے لئے خود وزیر اعظم نریندر مودی ریلیاں کررہے ہیں بالفاظ دیگر یہ الیکشن بھی مودی کے نام پر ہی لڑا جانے والا ہے کیونکہ ابھی تک بی جے پی نے وزیر اعلیٰ کے لئے کسی کا نام آگے نہیں کیا ہے مانجھی اور پاسوان خود اس ڈور میں شامل ہیں جبکہ سیٹوں کو لیکر یہ آپس میں دست و گریباں تھے بی جے پی کی سخت نظر کی وجہ سے یہ معاملہ فی الحا ل تھم کیا ہے البتہ یہ دونوں یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ بی جے پی کے زیادہ معتمد ہیں ۔ کیا یہ بھی کوئی سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ ہے جیسے چھوٹی پارٹیوں کے محاذ بنائے جانے ، مسلم فرنٹ کی بات کا اٹھنا اویسی کا اپنے امیدواروں کو کھڑا کرنا یا پھر ملائم سنگھ کا عظیم اتحاد سے ناطہ توڑنا وغیرہ ۔ چناوی منصوبہ بندی کا حصہ ہے ۔ملائم سنگھ ، مانجھی ، اویسی ، پپویادو اور اگر مسلم فرنٹ یا چھوٹی پارٹیوں کا کوئی محاذبنتا ہے تو یہ بہار کے چناؤ میں ووٹ کٹوا پارٹی کا رول ادا کریں گے ۔ بارہا یہ بات سامنے آچکی ہے کہ اگر مقابلہ تین طرفہ یا چوطرفہ ہوتا ہے تو اس کا فائدہ بی جے پی کو جاتا ہے ۔ سیدھے مقابلہ میں اس کی جیت کے امکانات کم ہو جاتے ہیں ، مہاراشٹر ، ہریانہ میں اس کا تجربہ کیا جا چکا ہے ۔
بہار چناؤ جنتا پریوار یعنی کبھی جنتا دل میں رہے مگر بعد میں الگ الگ پارٹیوں میں بکھر گئے نیتاؤں کے اتحاد کا بھی امتحان ہے ۔اس اتحاد کے مرکز میں رہے ملائم سنگھ نے عظیم اتحاد سے رشتہ توڑ کر الگ الیکشن لڑ نے کا فیصلہ کیا ہے پارلیمنٹ الیکشن سے پہلے تیسرے مورچے کی کوششوں کو بھی ملائم سنگھ کی وجہ سے اس وقت دھکا لگا تھا جب وہ بی جے پی کے منچ پر جا بیٹھے تھے ۔ اب بھی کہا جا رہا ہے کہ پروفیسر رام گوپال یادو سے امت شاہ کی ملاقات کے بعد یہ فیصلہ لیا گیا ہے واضح رہے کہ عظیم اتحاد نے سماج وادی پارٹی کو پانچ سیٹیں دی تھیں جن میں سے تین این سی پی کی جو اتحاد سے پہلے ہی الگ ہو چکی ہے اور دو لالو پرساد نے اپنے کوٹے سے ۔ پریس کے لوگو ں سے بات کرتے ہوئے پروفیسر صاحب نے سیٹوں کے بٹوارے میں ملائم سنگھ سے صلاح نہ کرنے پر ناراضگی ظاہر کی تھی اور اسی کو اتحاد سے الگ ہونے کی وجہ قرار دیا ۔سماج وادی پارٹی چاہتی ہے کہ وہ پچاس سیٹوں پر الیکشن لڑے پچھلے چناؤ میں 146سیٹوں پر اس نے اپنی امیدوار اتارے تھے سماج وادی کو سیٹ تو کوئی نہیں ملی لیکن ان سیٹوں میں یادو ووٹ بٹنے سے بی جے پی کو فائدہ ضرور ہوا تھا ۔
ملائم سنگھ کی بہار میں نہ پکڑ ہے نہ اثر پھر دو طاقتور اتحاد آمنے سامنے ہوں گے تو وہاں سماج وادی پارٹی اکیلے کیا کر پائے گی البتہ اس سے عظیم اتحاد کو نقصان ضرور ہوگا ۔ ٹکٹ نہ ملنے سے ناراض جے ڈی یو اور آر جے ڈی کے لوگ سماج وادی کا دامن تھام سکتے ہیں یہ لالو نتیش کے لئے فکر کی بات ہے اسی لئے شرد یادو ملائم سنگھ کو منانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ملائم سنگھ مان جائیں اس کی امید کم ہے ۔ سماج وادی پارٹی بہار میں حاشیہ کی کھلاڑی ہے پھر بھی وہ لالو نتیش کا کام خراب کر سکتی ہے ۔ملائم سنگھ شاید یہ سوچ رہے ہوں گے کہ لالو نتیش سے سماج وادی کو یو پی میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ ان کا اثر بہار تک محدود ہے اگر بہار میں لالو نتیس کو نقصان پہنچا تو اس کا صاف مطلب ہے کہ بھاجپا مضبوط ہوگی اس کا خمیازہ دیر یا سویر سماج وادی پارٹی کو بھی بھگتنا پڑے گا ۔
بھاجپا نے جے ڈی یو سے رشتہ توڑنے کے بعد سے ہی اپنے حق میں ماحول بنانا شروع کردیا تھا ۔ جنوری 2010سے جون 2013تک جے ڈی یو کی صوبہ میں ساجھا سرکار تھی اس دوران 226فرقہ وارانہ وارداتیں درج ہوئیں تھیں ۔ فرقہ وارانہ واردات ان کو کہا گیا جن میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی ہوئی ۔جو ن2013کے بعد سے جولائی 2015تک لگ بھگ 667وارداتیں ریکارڈ کی گئیں ہیں ۔ انڈین ایکسپریس نے اپنی رپورٹ میں 38اضلاع میں سے 18میں فرقہ وارانہ وارداتوں میں ستر فیصد کا اضافہ نوٹ کیا ہے اخبار کا کہنا ہے کہ زیادہ تر واقعات منصوبہ بند سازش کے تحت کئے گئے ہیں یا بہت معمولی وجہوں سے دنگا بھڑکانے کی کوشش کی گئی ۔ ان وارداتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر ووٹوں کو اکٹھا کرنے کی بھی کوشش کی گئی ۔ 
بہرحال یہ سچائی ہے کہ نتیش کمار نے عرصہ کے بعد بہار کو ترقی کی راہ دکھائی تھی اس وقت ملک کے جو حالات ہیں شاید انہیں نے دو مخالفوں کو تیسرے مخالف کے ساتھ آنے پر مجبور کیا اور مہا گٹھ بندھن بنا ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بی جے پی کا ساتھ چھوڑنے کے بعد نتیش کمار کو کئی پریشانیوں اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ ترقی کی رفتار بھی دھیمی ہوئی اور فرقہ وارانہ کشیدگی میں بھی اضافہ ۔ ان سب حالات کے با جود انہوں نے ریاست کو محفوظ رکھا ۔ پسماندہ طبقات کو ساتھ لیکر چلنے کی انہوں نے مثال قائم کی ہے ۔ بہار کے عوام سیاست کی کئی دوسری ریاستوں سے بہتر سمجھ رکھتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ ان کے صوبہ کے لئے کیا بہتر ہے اس انتخاب میں بہار کے عوام کا بھی امتحان ہوگا کہ وہ سیکولر اتحاد کو چنتے ہیں یا پھر ان کو جو نام تو دیش کا لیتے ہیں لیکن کام کارپوریٹس کے لئے کرتے ہیں اور برہمنت کو غالب کرنا چاہتے ہیں وہی برہمنت جس نے اس ملک کو بانٹنے کا کام کیا اور لوگوں کو دلت و پسماندہ بنایا تاکہ ان کا استحصال کیا جا سکے ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا