English   /   Kannada   /   Nawayathi

ملک کی سالمیت اور اس کی قوت کا راز

share with us

کسی بھی ملک کے انفرا اسٹرکچر کے استحکام میں وہاں کے عوام میں صد فی صد تعلیم ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہوتی ہے۔ لیکن اس ہدف کے حصول کے لیے حکومت نے ہمیشہ Elite کلاس کو ترجیح دی۔ عوام کی تعلیم کا مسئلہ اتنا چھوٹا نہیں کہ اسے ریاستی حکومتوں پر چھوڑا جاتا۔ اس مسئلے کا براہ راست تعلق ملک کی سالمیت اور اس کی افرادی و معاشی قوت سے ہے۔ ملک کی سالمیت اور اس کی قوت کا راز تعلیم یافتہ عوام میں مضمر ہے۔ تعلیم یافتہ عوام ہی ملک کے قانون کی پاسداری بھی کرتے ہیں اور طے شدہ ڈسپلن کے مطابق ملک کی ترقی میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک کے عوام کی اکثریت ان جوہری صفات سے خالی نظر آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک کے سیاسی حکمرانوں نے مٹھی بھر اعلیٰ طبقے کی حکومت کو مستحکم رکھنے کے لیے ابتدا ہی سے عوام کو جہالت کے سحر میں مبتلا رکھا۔ اس سحر کی شدت اس قدر ہے کہ آج بھی اس کے اثر سے عوام نکلنے کو تیار نہیں۔ ہمارے ملک کی ستّر فی صد سے زیادہ آبادی گاؤں میں رہتی ہے اور زراعت ہی سے اس کی معاشی کفالت ہوتی رہی ہے۔ ملک کو وافر مقدار میں اناج اسی آبادی سے میسر آتی ہے۔ سبز انقلاب (Green Revolution) کے ذریعہ اس کثیر آبادی کو معاشی جانور تو بنایا گیا لیکن اس کی تعلیم اور تہذیب و تمدن کی طرف حکومت نے کوئی توجہ نہ دی۔ آج بھی اس طبقہ کے ہزاروں کسان خودکشی کر رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ اگر حکومت ابتدا سے ہی ملک کے ہر فرد کے لیے تعلیم کو لازم قرار دیتی اور اس کے لیے یکساں مواقع فراہم کرتی تو ملک کے متعدد مسائل ایک ساتھ حل ہوجاتے۔ بدقسمتی سے حکومت کی چشم پوشی یا غفلت کے سبب کروڑوں عوام کی حالت ناگفتہ بہ ہوگئی۔ اندازہ کیجیے کہ ساٹھ ستّر برسوں میں تین نسلیں تیار ہوجاتی ہیں۔ یہ تین نسلیں آج بھی بنیادی انسانی ضرورتوں مثلاً تعلیم، روزگار، ہسپتال، پینے کا پانی، بجلی، سڑک، آمد و رفت کے ذرائع، حتیٰ کہ رفع حاجت کے لیے مناسب جگہ سے بھی محروم ہیں۔ ان کی محرومی یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ذات پات اور چھوت چھات کی سیاست میں پھنساکر ان کے اتحاد کو بھی پارہ پارہ کردیا گیا۔ وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ توہم پرستی میں مبتلا ہوکر مذہبی رواداری گم کربیٹھے۔ محرومی نے انہیں کہیں کا نہ رکھا، یہاں تک کہ محروم و مظلوم افراد دہشت گردی میں بھی ملوث ہوگئے۔ 

مرکزی حکومت اگر ملک میں آزادی کے بعد ہی سے عوام میں معیاری تعلیم کو فوقیت دیتی اور ناگزیر خیال کرتی تو یقینی طور پر یہاں کا تعلیمی نظام پورے ملک کے لیے یکساں ہوتا۔ 'Right to Education' تو انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح اہل وطن کی جان و مال کی حفاظت، انہیں ظلم سے نجات دلانا اور عدل و انصاف کو یقینی بنانا حکومت کا بنیادی فرض ہوتا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر انہیں دنیا میں عزت وقار کے ساتھ سر اٹھاکر جینے کی ترغیب دینا بھی ناگزیر ہے۔ اس کے لیے اگر مرکزی حکومت کی سطح پر پورے ملک میں 'Equal Right to Education' کو یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی تو نہ وقت ضائع ہوتا اور نہ ہی آج بھارت تعلیمی، تہذیبی، تمدنی اور اقتصادی اعتبار سے تباہی کے دہانے پر ہوتا۔ ’تعلیم کے یکساں حق‘ کا مفہوم یہ ہے کہ آج سے ساٹھ برس قبل ہی مرکزی سطح پر پورے ملک میں یکساں معیار کے نصاب تعلیم، یکساں معیار کے اساتذہ اور ایک ہی انداز کے معیاری اسکول قائم کیے جاتے تو ملک میں تعلیمی و اقتصادی بحران پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس ملک میں تعلیم کے نام پر اتنی قسموں کے ادارے قائم کیے گئے جتنی صورتیں یہاں ذات برادری کی پائی جاتی ہیں۔ شہر کی صفائی کے محکمہ یعنی میونسپلٹی یا کارپوریشن کو اسکول چلانے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ اس طرح کے سرکاری اسکولوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ایک ادنیٰ سرکاری ملازم بھی اپنے بچوں کا داخلہ وہاں پسند نہیں کرتا۔ تیس فی صد آبادی والے شہروں کے مقابلے میں ملک کے ستر فی صد زراعتی علاقوں میں گھٹیا درجے کے تعلیمی اداروں کا بھی کوئی تناسب نہیں ہے۔ کیا ملک کے دیہی علاقوں میں رہنے والے ستّر فی صد عوام ہندوستان کے شہری نہیں ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے عوام بالخصوص دیہی علاقوں میں رہنے والے یہاں کے ’جمہوری حکمرانوں‘ کے لیے ہمیشہ تر نوالہ کی حیثیت رکھتے رہے ہیں۔ وہ ظلم کی ایسی چکی میں پیسے جاتے رہے ہیں جن کا ’شعوری انقلاب‘ ہمیشہ انتقام پر مبنی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ’ریزرویشن‘ کے نام پر جغرافیائی اعتبار سے بھی ملک تقسیم ہوتا جارہا ہے اور ہر آنے والا دن یہاں کے باشندوں کے لیے مزید سخت سے سخت تر ہوتا جارہا ہے۔ 
حیرت ہے کہ مرکزی حکومت کی سرپرستی میں ’کیندریہ ودّیالیہ‘ (سنٹرل اسکول) صرف ان کے لیے کھولے گئے جن کی وجہ سے حکومت کی بیوروکریسی مضبوط رہے۔ اس اسکول کو ملک میں اساتذہ اور طلبا دونوں لحاظ سے بڑی حد تک معیاری کہا جاسکتا ہے۔ اگر اس اسکول کو فی الحال ’ماڈل‘ مان لیا جائے تو کوئی سبب نہیں کہ مرکزی حکومت پورے ملک میں تمام دہقانی اور پس ماندہ سرکاری اسکولوں کو ختم کرکے صرف اسی ماڈل کو ہر ریاست کے لیے لازم قرار دے تاکہ ملک کا ہر بچہ یکساں نصاب، ماحول اور معیاری اساتذہ کی صحبت میں یکساں تعلیم حاصل کرسکے۔ اساتذہ کے تقرر کا نظام بھی کل ہند سطح پر یکساں اور شفاف ہو تاکہ ذہنی طور پر پس ماندہ افراد ٹیچنگ کے مقدس پیشے سے وابستہ نہ ہوسکیں۔ 
گزشتہ دنوں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے سنگل بنچ کا جو فیصلہ منظرعام پر آیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جسٹس سدھیر اگروال نے سیاست زدہ بیورو کریسی کا گہرا مشاہدہ کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے ملک میں تعلیم کی ناگفتہ بہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہی یہ حکم نامہ جاری کیا کہ اب سرکاری، نیم سرکاری اداروں کے افسران وملازمین، عدلیہ اور سرکاری خزانہ سے تنخواہ، اعزازیہ یا مالی فائدہ حاصل کرنے والے لوگوں کے بچے بنیادی طور پر بیسک تعلیمی بورڈ کی طرف سے چلنے والے اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں۔ یہ حکم نامہ کتنا عملی ہوگا، اس پر اظہار خیال قبل از وقت ہوگا۔ تاہم فاضل جج کے فیصلے سے اتنا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے میں بے حد حساس ہیں اور ان کا یہ فیصلہ ملک کے چوٹی کے سیاست دانوں کے منہ پر 
طمانچہ کے مترادف ہے۔ کاش مرکزی حکومت اب بھی عقل کے ناخن لے اور اہل وطن کے لیے یکساں مواقع اور یکساں حقوق کو یقینی بنائے تو ملک بحرانی دور سے نکل سکتا ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا