English   /   Kannada   /   Nawayathi

نریندر مودی کے لئے ناک کامسئلہ بن گیا بہاراسمبلی الیکشن

share with us

بی جے پی کے ذرائع کے مطابق، پارٹی نے اس پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں لیا ہے، لیکن کچھ وقت پہلے تک جہاں پارٹی اجتماعی قیادت میں بہار الیکشن میں اترنے کی تیاری میں تھی، صورت حال اب ویسی نہیں ہے۔پارٹی کے مرکزی لیڈران ریاست کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور سی ایم امیدواراعلان کرنے یا نہ کرنے کو لے کر ہونے والے نقصان کا اندازہ کر رہے ہیں۔ بی جے پی کے ایک لیڈر کے مطابق، ریاست میں اگر جے ڈی یو اور آر جے ڈی الگ الگ لڑتیں تو پارٹی کے لئے راہ آسان ہوتی، لیکن اب ان کے ساتھ آنے سے راہ تو مشکل ہوئی ہے، ساتھ ہی پارٹی کو بھی سی ایم کینڈیڈیٹ پر سوچنا پڑ رہا ہے کہ کہیں اسے اعلان نہ کرنے سے نقصان نہ ہو جائے۔پارٹی ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے اعلان کرنے میں، سب سے بڑی دقت یہ ہے کہ بی جے پی کے پاس کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے جوپوری ریاست کے لئے قابل قبول ہو۔اسی کے ساتھ بہت زیادہ لیڈروں کا ہونا بھی بڑی دقت ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ریاست میں ذات پات کی سیاست چلتی ہے اور اگر کسی ایک شخص کا نام اعلان کردیا گیا تو دوسری ذات کے لوگوں کا ووٹ ملنا مشکل ہوجائے گا۔
بہار میں مودی کی ساکھ داؤ پر
بی جے پی کے بہار نگران اننت کمار کہہ چکے ہیں کہ بہار میں اسمبلی الیکشن نریندر مودی کے کے نام پر لڑا جائے گا۔ جب کہ بی جے پی کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ اگر وہ نریندر مودی کے نام پر الیکشن لڑتی ہے تو بہار میں شکست کی صورت میں پورے ملک میں پیغام جائے گا کہ یہ مودی کی ہار ہے اور ان کی حکومت کے خلاف رائے عامہ مانا جائے گا اور اگر مودی کے نام کے بغیر الیکشن لڑا گیا تو نتیش ولالو یہ کہہ کر مودی سرکار پر نشانہ سادھیں گے کہ بی جے پی کو اب مودی سرکار پر بھروسہ نہیں رہا لہٰذا وہ ان کے نام کے بغیر الکشن لڑ رہی ہے۔ ایسے میں اس کے پاس نہ جائے رفتن ہے اور نہ پائے ماندن۔بہر صورت میں مودی کی ساکھ داؤ پر ہے۔ بہار کے بعد بنگال اور پھر یوپی کے انتخابات ہیں جہاں بی جے پی کے خلاف ماحول بن سکتا ہے۔ دہلی میں بھی پارٹی کو دھکا لگا تھا، لیکن وہاں وہ اس سے بچ گئی کہ کرن بیدی سی ایم امیدوار تھیں۔بہار میں بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر کے مطابق، فی الحال اس معاملے میں سوچنا انتہائی جلدی ہوگی، اگر سی ایم امیدوار کے نام کا اعلان کرنے کے بارے میں فیصلہ لیا بھی جائے گا تو بھی انتخابات سے کچھ دن پہلے ہی ہوگا۔

بی جے پی کے لئے خطرہ ایک درجن سی ایم امیدوار
بہار کی کہاوت ہے کہ ’’ڈھیر جوگی مٹھ اجاڑ‘‘ یہ کہاوت ان دنوں بی جے پی پر صادق آرہی ہے۔بہار میں بی جے پی نے اب تک کسی کو وزیر اعلیٰ کی کرسی کا امیدوار نہیں بنایا گیا ہے۔مگر نیتاؤں کی طرف سے خود کو وزیر اعلیٰ کے طور پر پیش کرنے کا سلسلہ تھم نہیں رہا ہے۔ کوئی خود کو امیدوار بتا رہا ہے تو کوئی اخبارات او ر میڈیا کے لوگوں کو مینیج کر رہا ہے کہ اسے وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کیا جائے۔ اس میں سرفہرست نام ہے سی پی ٹھاکر کا جو بہت دن سے حاشئے پر ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر سی پی ٹھاکر نے خود کو وزیر اعلی کی دوڑ میں شامل ہونے کی بات کہتے ہوئے وزیر اعلی کے عہدے کے امیدوار کو لے کر دعوی ٹھونک دیا۔ ان کے بیان سے سابق نائب وزیر اعلی سشیل کمار مودی کا خیمہ تعجب میں ہے۔ پٹنہ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے سابق مرکزی وزیر ٹھاکر کہہ چکے ہیں کہ ، ’’اگر پارٹی چاہے تو میں بہار کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار ہوں۔ میں وزیر اعلی کے عہدے کی دوڑ میں ہوں۔ سی پی ٹھاکر ابھی راجیہ سبھا ایم پی ہیں اور بھومی ہارذات سے آتے ہیں۔علاوہ ازیں مرکزی وزیر روی شنکر پرساد، رام کرپال یادو، گری راج سنگھ، سابق مرکزی وزراء راجیو پرتاپ روڈی اور شہنواز حسین ، ممبر پارلیمنٹ شتروگھن سنہا، کرتی آزادکے ساتھ ساتھ بہار اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نند کشور یادو اور سابق نائب وزیر اعلیٰ سشیل کمار مودی کے نام بھی سی ایم امیدوار کے طور پر لئے جارہے ہیں۔
سشیل مودی
سابق نائب وزیر اعلی بہار بی جے پی کے اندر وزیر اعلی کے عہدے کے سب سے مضبوط دعویدار مانے جا رہے ہیں۔انھوں نے سی پی ٹھاکر کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت میں سب کو بولنے کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی کے عہدے کے لئے امیدوار بی جے پی پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ میں طے ہو گا۔سشیل مودی کے قریبی ایک بی جے پی رہنما کے مطابق مودی کا نام پارٹی سی ایم امیدوار کے طور پراعلان کر سکتی ہے۔ سشیل مودی پسماندہ ذات سے ہیں۔ بہار میں وہ بی جے پی کے سب سے طاقتور لیڈر ہیں۔ اگرچہ اعلی ذات کے رہنماؤں کے درمیان بھی پارٹی میں سی ایم امیدوار کی دعویداری پیش کی جا رہی ہے۔حالانکہ پسماندہ برادریوں کے کچھ دوسرے لیڈران بھی اس کرسی کے دعویدار ہیں۔
نند کشور یادو
بہار اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نندکشور یادو بھی بی جے پی کے اندر وزیر اعلیٰ کی کرسی کے دعویدار مانے جا رہے ہیں۔ گزشتہ سال تک بی جے پی میں اعلی ذات لیڈروں کا مضبوط گروپ سشیل مودی کو وزیر اعلی کے لئے امیدوار بنانے کے خلاف رہا ہے۔ایسے لیڈروں کا ماننا ہے کہ اگر کوئی پسماندہ ذات کا شخص ہی وزیر اعلیٰ بنتا ہے تو وہ نند کشور یادو ہوسکتے ہیں۔اس طرح یادو ووٹوں کو لالو سے چھیننے کا موقع مل سکتا ہے۔حالانکہ ایسا ہی ایک نام رام کرپال یادو کا بھی ہے۔
مرکزی وزراء،بہار میں سی ایم؟
مرکزی وزیر مواصلات روی شنکر پرساد کو بہار میں بی جے پی کی طرف سے وزیر اعلیٰ کی کرسی کا مناسب امیدوار مانا جارہا ہے جن کا
بہار سے تعلق رہا ہے اور اس سے بھی بڑی وجہ یہ مانی جارہی ہے کہ ان کا خاندان آرایس ایس کا پرانا وفادار رہا ہے۔ بی جے پی کے اندر سنگھ سے وابستگی کے سبب بھی اچھے نمبر ملتے ہیں۔حالانکہ وہ بہار کی سیاست میں سرگرم نہیں رہتے ہیں۔
مرکزی وزراء میں گری راج سنگھ اور رام کرپال یادو کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے کہ بہار میں جیت کی صورت میں وہ سی ایم بن سکتے ہیں۔ گری راج سنگھ کو ان کے متنازعہ بیانات کے لئے یاد کیا جاتا ہے اور وہ نوادہ سے ممبر پارلیمنٹ ہیں تورام کرپال یادو لوک سبھا الیکشن سے قبل تک لالو پرساد یادو کے ساتھ تھے اور ان کے بے حد قریبی مانے جاتے تھے۔ اب وہ پٹنہ سے ممبر پارلیمنٹ ہیں۔
سابق وزراء کو جاب ملے گی؟
سابق وزراء میں راجیو پرتاپ روڈی اور شہنواز حسین کو بھی بعض لوگ سی ایم امیدوار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ راجیو پرتاپ روڈی چھپرہ سے ممبر پارلیمنٹ ہیں اور شہنواز حسین بھاگلپور سے الیکشن ہارے ہوئے ہیں۔وہ بی جے پی کے دو،تین مسلم چہروں میں سے ایک ہیں اور بہار میں اکلوتے بھاجپائی مسلمان ہیں۔روڈی اور شہنواز، واجپائی کابینہ میں ذمہ دار وزیر کی حیثیت سے پہچان رکھتے تھے۔
شترو اور کرتی 
فلم اداکار سے نیتا بنے شتروگھن سنہا اور کرکٹ سے سیاست میں آئے کرتی آزاد بھی سی ایم امیدوار کے طور پر دیکھے جارہے ہیں۔دونوں ہی اس وقت ایم پی ہیں۔ شتروگھن سنہا پارٹی میں لمبے عرصے سے ہیں مگر انھیں کبھی مرکز میں وزیر نہیں بنایا گیا،جس سے وہ ناراض ہیں اور ان دنوں پارٹی کے خلاف جاکر وہ اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ اگر انھیں مرکز میں وزیر نہیں بنایا گیا تو کم از کم بہار میں سی ایم ہی بنادیا جائے۔ وہ نتیش کمار سے بھی رابطے میں ہیں اور کہاجارہا ہے کہ ان کی بیوی پونم سنہا جنتا دل (یو) کے ٹکٹ پر اسمبلی الیکشن لڑ سکتی ہیں۔ ان کے ان اقدام کو پارٹی پر دباؤ کی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ کرتی آزاد بھی مرکز میں منتری بننا چاہتے تھے مگر ان کی یہ آرزو پوری نہیں ہوسکی ۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ انھیں بہار میں وزیر اعلیٰ کا امیدوار بنادیا جائے۔ ان کے والد بھگوت جھا آزاد کانگریس کے دور حکومت میں وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے۔
بی جے پی کی فکر کیا ہے؟
میڈیا کی خبروں کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی چیف امت شاہ نے کہا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ انتخابات تک وزیر اعلیٰ کی بحثوں کو قابو میں رکھا جائے۔بی جے پی کو ڈر ہے کہ کہیں پارٹی میں ہی اوبی سی بمقابلہ اعلی ذات والی صورتحال نہ بن جائے۔ ایسی حالت میں بی جے پی کو کسی کمیونٹی کا غصہ جھیلنا پڑاسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو بی جے پی کا بہار میں اقتدار حاصل کرنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔بی جے پی کے بعض لیڈروں نے نام نہیں بتانے کی شرط پر کہا کہ بہار میں بی جے پی کے دو گروپوں میں تقسیم ہے۔ اگر اوبی سی یا اعلی ذات کو سی ایم امیدوار بنایا جاتا ہے کہ تو کسی ایک گروپ سے دشمنی مول لینا طے ہے۔ایک اور بی جے پی رہنما نے کہا کہ پارٹی کویقین ہے کہ اونچی ذات کے ووٹر روایتی طور پر ان کے ساتھ ہی رہیں گے۔ یہاں فکر اوبی سی ووٹ کو لے کر ہے کیونکہ نتیش اور لالو کے ساتھ آنے سے صورتحال بدل گئی ہے۔بہار میں اس سال ستمبر،اکتوبر میں ہونے والے ریاستی اسمبلی انتخابات کو لے کر راشٹریہ جنتا دل (آر
جے ڈی) اور جنتا دل (یونائیٹڈ) اتحاد نے وزیر اعلی کے عہدے کے لئے جہاں نتیش کمار کے نام کا اعلان کر دیا ہے، وہیں بی جے پی کی بہار یونٹ ریاست سے کسی چہرہ کو آگے نہ کر وزیر اعظم نریندر مودی کے نام پر الیکشن لڑنے کی سوچ رہی ہے۔حالانکہ نتیش۔لالو کے اتحاد سے مقابلہ آسان نہیں لگتا۔(فکروخبر مضمون)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا