English   /   Kannada   /   Nawayathi

یقیں کی تیغ، عمل کی سپاہ پیدا کر

share with us

یہ اوراس طرح کی سیکڑوں تصویریں جو کچھ دنوں کے لیے دنیا کے سوشل میڈیا میں وائرل ہوتی ہیں، اور پھر لوگوں کے ذہن سے محو ہوجاتی ہیں، صہیونی درندے آئے دن مسلمان شیرخوار بچوں کو گولیوں سے بھونتے رہتے ہیں، ابھی حال ہی میں محمد ابو خضیر اورایک معصوم دودھ پیتابچہ علی سعد کو زندہ جلادیا تھا، جس کو میڈیا نے کوریج دینا بھی مناسب نہ سمجھا،فلسطین میں تحریک انتفاضہ جب شروع ہوئی تو انہیں ایام میں سیکڑوں بچے یہودی فوجیوں کی گولیوں کا شکار ہوئے، اور خصوصا محمد الدرۃ نامی ایک لڑکے کی مظلومانہ شہادت کی تصاویر تو بین الاقوامی میڈیا پر بار بار نشر ہوئی، لیکن یہ تصویریں خصوصا ہم مسلمانوں کے لیے سوچ و فکر کا نیا در کھول دیتی ہیں،اور زبان حال سے شکوہ کناں ہیں کہ کیا اے مسلمانو:تم وہی امت نہیں ہو ، جس کی ایک بیٹی روم کے ساحل سے’’ وامعتصماہ‘‘ کی دہائی دیتی تھی ، اور مسلمانوں کا بادشاہ اعلان کرتا تھا کہ جب تک میں اس بیٹی کی مدد کو نہیں پہونچوں گا تب تک چین سے نہیں بیٹھوں گا،اور اسلامی فوجیں دشمنوں کے علاقے تاراج کرتی ہوئی اپنی بیٹیوں کی حفاظت کے لیے پہونچتی تھی ، عموریہ فتح ہوتا تھا،عیسائیوں کے ناقابل تسخیر قلعے جس کو سکندریونانی اور ایران کے کسریٰ پرویز وقت کی قوت ہونے کے باوجود فتح نہیں کرپاتے تھے،علم نجوم و جوتش کے ماہرین جس کوفتح کرنے سے ناامید کرتے تھے، وہ ایک مظلوم عورت کی دہائی کے بعد مجاہدین اسلام کے گھوڑوں سے پامال ہوجاتے تھے۔
اس وقت میرے سامنے ایک غیور قوم کی بے بس بیٹی کا خط ہے جس میں اس نے وقت کے حکمراں حجاج بن یوسف کو اپنی بے بسی کی داستان سناتے ہوئے اپنی اور اپنی قوم کی مدد کے لیے پکاراہے، وہ لکھتی ہے :
’’مجھے یقین ہے بصرہ کا حکمراں اب تک قاصد کی زبانی مسلمان بچوں اور عورتوں کا حال سن کر اپنی فوج کے غیور سپاہیوں کو گھوڑوں پر زینیں کسنے کاحکم دے چکا ہوگا اور قاصد کو میرا خط دکھانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، اگر حجاج بن یوسف کا خون منجمد ہوچکاہے،تو شاید میری تحریر بھی بے سود ثابت ہو، میں اور میرا بھائی ابھی تک دشمن کی دسترس سے محفوظ ہیں، لیکن ہمارے ساتھی ایک ایسے دشمن کی قید میں ہیں، جس کے دل میں رحم کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
قید خانہ کی اس تاریک کوٹھری کا تصورکیجئے جس کے اندر اسیروں کے کان مجاہدین اسلام کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سننے کے لیے بے قرار ہیں، یہ ایک معجزہ تھا کہ میں اور میرا بھائی دشمن کی قید سے بچ گئے تھے، لیکن ہماری تلاش جاری ہے، اور ممکن ہے کہ اہمیں بھی کسی تاریک کوٹھری میں پھینک دیاجائے، ممکن ہے اس سے پہلے ہی میرا زخم مجھے موت کی نیند سلادے، اور میں عبرتناک انجام سے بچ جاؤں، لیکن مرتے وقت مجھے یہ افسوس ہوگا، کہ وہ سبا رفتار گھوڑے جن کے سوار ترکستان اور افریقہ کے دروازے کھٹکھٹارہے ہیں وہ اپنی قوم کے یتیم اور بے بس بچوں کی مدد کو نہ پہونچ سکے، کیا یہ ممکن ہے وہ تلوار جو روم و ایران کے مفرور تاجداروں کے سرپر صاعقہ بن کر کوندی، وہ سندھ کے راجہ کے سامنے کند ثابت ہوگی، میں موت سے نہیں ڈرتی، لیکن اے حجاج! اگر تم زندہ ہو تو اپنی غیور قوم کے یتیموں اور بیواؤں کی مدد کو پہونچو‘‘۔
یہ خط جب دربار یوسفی میں پڑھا گیا ، تو اس دن کا سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے حجاج نے اپنے لشکر کو تیار ہوکر کوچ کرنے کا حکم دے دیا تھا، اپنے جواں سال بھتیجے محمد ابن قاسم کو اس لشکر کا سپہ سالار بنا کر سندھ کے راجہ داہر پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا، جس نے مسلمانوں کے ایک قافلہ کو لوٹ کر جنگ کی آگ بھڑکائی تھی، اور یہی ہندوستان کی فتح کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
اے غیور قوم کے جاں بازو: فرق صرف یہ ہے کہ آج ہمارے اندر وہ حمیت ایمانی بھڑک نہیں رہی ہے، اور ہمارا ایمان ہم سے وہ کارنامے انجام نہیں دے رہاہے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا امتیاز تھا،ان کااتحاداور ان کی اخوت مثالی تھی، ایک جگہ مسلمانوں پر کوئی تکلیف گذرتی تھی توسارے عالم کے مسلمان اس دردو کرب و بے چینی کو محسوس کرتے تھے، اگر کہیں مسلمانوں پر حملہ ہوتا تھا تو مسلمان اس دشمن کے خلاف ایک آواز بن کر اٹھتے تھے، اور اس دشمن کی کمر توڑ دیتے تھے، اسی طرح کی دہائیوں اور مظلوموں کے خطوط کی بناء پر کئی علاقے مسلمانوں کے زیر نگیں آئے، اور روئے زمین اسلام کے شہسواروں کی جولاں گاہ بنی،ان مسلمانوں میں خوف خدا تھا، اسلام پر مر مٹنے کا جذبہ تھا، خدا کی زمین پر عدل و انصاف قائم کرنا ان کا مقصد تھا،خدا کے بندوں کو خدا سے ملانا ان کا نصب العین تھا،اخلاص و للہیت، نظم و اتحاداورسنت مطہرہ کی پیروی ان کا امتیازتھا،وہ سب ایک رنگ میں رنگے ہوئے، ایک سانچے میں ڈھلے ہوئے، اللہ کے لئے جان کی بازی لگانے والے، شریعت پر جینے مرنے والے، شرک سے دشمنی رکھنے والے، نفاق و جاہ پرستی سے دور، دن کے روزہ دار اور رات کے تہجد گذار، متقی و پرہیز گار تھے، ان کے پاس ایمان و یقین تھا، عزم و توکل تھا، جو ش جہاد تھا، احتساب نفس تھا، شوق شہادت تھا ، وہ جہاں بھی جاتے تھے سرخ رو ہورتے تھے، دشمن بھی ان کے اخلاق و انسانیت کی گواہی دیتا تھا۔
حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مشہور مقولہ ہے،(لقد کنا ولسنا شیئا مذکورا، حتی أعزنا اللّٰہ بالاسلام، فاذا ذھبنا نلتمس العزۃ فی غیرہ ، ذللنا) ہم لوگ کوئی قابل ذکر قوم نہیں تھے، اللہ نے ہمیں اسلام کے ذریعہ سے عزت دی، دنیا کی سلطنت دی ، ہمارا ذکر بلند کیا، ہم کو باعزت کیا، اسلام کے ذریعہ سے ہم لوگ دنیا کے حاکم بن گئے،اگر ہم اسلام کے علاوہ کسی اورمذہب و ثقافت میں عزت تلاش کریں گے،تواللہ ہمارے مقدر میں ذلت لکھ دے گا۔
آج ہم مسلمانوں کا حال وہی ہے کہ اسلام کی تہذیب و ثفاقت ہمیں راس نہیں آتی، نبی ﷺ کا طریقہ اپنانے میں شرمندگی محسوس ہوتی ہے، سنت کی جگہ فیشن پرستی آگئی ہے، اتحاد و یگانگت کی جگہ فرقہ پرستی اور الحاد ہے، عرب حکمرانوں نے اسلام پسندوں کو اپنے لیے خطرہ 
سمجھ لیاہے، اور ان کی وفاداریاں یہودیوں، عیسائیوں ،مشرکوں کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے، مصرو شام اور دوسرے عرب ممالک میں ان کے اسلام مخالف مشن پوری قوت سے سرگرم عمل ہیں،وہ قوم جو پہلے داعی تھی اب مدعو بن گئی ہے، قحبہ خانے ، شراب خانے اور قمار خانے ان کی تہذیب کا جزء بنتے جارہے ہیں، ان کا قبلہ کعبہ کے بجائے امریکہ اوریورپ ہوگیاہے، ان کے یہاں مغربی کلچر نے اسلامی تہذیب کی جگہ لے لی ہے ، امت محمدیہ دنیا پرستی کی بیماری میں مبتلا ہے، اس امت کے فساد کو دور کرنے کا واحد طریقہ وہی ہے جس طریقہ سے پچھلی صدیوں میں اس کا علاج کیاگیا، اس کو محمدرسول اللہ ﷺ سے جوڑ نے کی ضرورت ہے، نبی کے اسوہ سے، نبوی طریقوں سے، نبوی سنتوں سے اس کو قریب کرنے کی ضرورت ہے،صحابہ کو نمونہ بناکرصحابہ کے واقعات سے سبق حاصل کر کے امت کا بگاڑ دور ہوگا۔
یہ امت بیمار ہوسکتی ہے مرنہیں سکتی، غافل ہوسکتی ہے سو نہیں سکتی،سکڑ سکتی ہے ختم نہیں ہوسکتی،سمٹ سکتی ہے وجود نہیں مٹاسکتی،قرآن کی وجہ سے اس امت کی حفاظت کی بھی ذمہ داری ہے،اس امت کی بقاء قرآن سے جڑی ہوئی ہے،اس امت میں شروفساد ختم کرنے کے لیے مجددین کے پیداہونے کا سلسلہ جاری ہے،جب کبھی یہ امت اپنے اندرونی اختلافات کوختم کر کے اتحاد ویکجہتی کی مثال قائم کرے گی،اور اپنے بھائیوں کی نصرت و حمایت کے لیے اٹھے گی،اس کے لیے پھر سے فتح مندی کے جھنڈے ہوں گے،کفراس کے سامنے سرنگوں ہوگا،دنیا کی امامت و سیادت ہوگی،تاریخ میں پھر سے نئے ابواب لکھے جائیں گے، اندلس و افریقہ و یورپ کے کلسیاؤں میں اذانیں گونجیں گی، جب کبھی یہ اپنے رب کی طرف لوٹے گی ، عزت کی زندگی، سرخروئی اور کامرانی حاصل ہوگی۔(فکروخبر مضامین)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا