English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہماری ثقافت پر مغرب زدہ میڈیاکی یلغار

share with us

وہی فعل جو قابل اعتراض تھا قابل فخربنتا جا رہا ہے بلکہ میں توکہوں گا کہ اس نے مذہب تک کو نہیں چھوڑا کہ جو افعال مذہب میں قابل اعتراض تھے ان کویوں عام کر دیا جیسے وہ کبھی قابل اعتراض تھے ہی نہیں۔میڈیا کی دوڑ نے اگر جغرافیائی سرحدیں نہیں مٹائی تو نظریاتی سرحدوں کو ایک ایسادھچکا ضرور لگا دیا ہے کہ اب تو خوف آتا ہے ۔آج کل ٹیلی ویژن پر جو طوفان فحاشی مچا ہوا ہوا ہے اُس نے تو معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔صلاح دین ایوبی کا قول ہیکہ ’’اگر کسی قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینی ہو تو اُس کے نوجوانوں میں فحاشی پھیلادو‘‘۔مختلف ٹی وی چینلز پرانتہائی مغرب زدہ لباس میں ملبوس خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو دکھا کر کون سی نوید سُنائی جا رہی ہے؟لباس کسی بھی معاشرے کی اولین پہچان ہے ۔اسلام میں لباس کا مقصد زیب وزینت اور سترپوشی دونوں ہے اور یوں ایک باحیاء اور پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کا مقصدپوراکرناہے لیکن ہمارے آج کے ’’مغرب زدہ میڈیا‘‘ نے جہاں اورکئی قومی معاملات میں قومی وقار کی دھجیاں بکھیر دی ہیں وہیں اپنے لباس کو مذاق بنا کر تار تار کر دیا ہے۔
آخر ہماری حکومت کہاں سوئی ہوئی ہے اور پیمرا کے ذمہ دار کس چیز کی تنخواہ لے رہے ہیں؟عدالتیں کیوں اس پر خاموش ہیں؟کیا یہ عام آدمی کی دلچسپی کی بات نہیں ہے یاقومی اہمیت کی نوعیت کا معاملہ نہیں ہے؟کیا ہم نے ثقافتی جنگ میں اپنی شکست بھی تہہ دل سے مان لی ہے؟ہم تو اپنے بچوں کو کارٹون کے نام پر وہ کچھ دکھا رہے ہیں اس کا نہ تو ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق ہے ،نہ اقدار سے اور نہ اخلاق سے۔فیشن شوز سٹیج پر ہوں تو ایک مخصوص طبقہ ہی دیکھتا ہے لیکن ہمارا میڈیا ان بے ہودہ ملبوسات کو پورے ملک کے سامنے کردیتا ہے اور ان کی شان میں جو تعریفی کلمات بولے جاتے ہیں ان کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔ہر لباس کو مشرق ومغرب کا حسین امتزاج کہہ کر معلوم نہیں کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ہر ٹی وی چینل پر دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد اور ہمارے مکار دشمن بھارت کی بے ہودہ ثقافت کی یلغار دکھائی دیتی ہے۔اس وقت بھارت نے مختلف بارڈرز پر اپنی دہشت گردکارروائیاں شروع کر رکھی ہیں جن کا پاکستان متعدد باراحتجاج ریکارڈ کرواچکا ہے۔روزانہ بھارتی دہشت گردی سے کئی بے گناہ افراد شہید ہورہے ہیں۔بھارت میں پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز پر پابندی عائد ہے۔اور کتنے شرم کی بات ہیکہ ہم اپنے وطن عزیز میں ایسے ملک کا کلچر عام کررہے ہیں جو ہماری عزتوں اور جانوں کا سب سے بڑادشمن ہے۔وہ ملک جو ہمارے ٹی وی چینلز کو اپنے ملک میں چلنے نہیں دیتا ہم بڑے فخر کے ساتھ اُسی ملک کے ٹی وہ چینلز اپنے ملک میں کھلے عام چلا رہے ہیں اور بے حیائی اورفحاشی کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں۔پاکستان کو اور بالخصوص آزادریاست جموں وکشمیر کی حکومت کو چاہے کو وہ فوری طور پر پاکستان اورآزادکشمیر میں چلنے و الے تمام بھارتی چینلز پر پابندی عائد کرے اور کیبلز آپریٹرزکی طرف سے چلنے والے ایسے تمام سی ڈی چیلنز پر بھی فوری پابندی عائد کی جائے جن پر بھارتی فلمز اور بھارتی گانے ہمہ وقت نشرکئے جاتے ہیں۔ایک طرف بھارت اپنی دہشت گردکارروائیوں میں روزانہ مسلمانوں کو خون کررہا ہے اور دوسری طرف ہم بڑے ڈھٹائی کے ساتھ اپنی ریاست میں بھارتی کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔اب تو بات یہاں تک آ چکی ہیکہ ہمارے نوجوان اپنی قومی زبان کو چھوڑ کر بھارت کی زبان ہندی بولنے لگ گے ہیں۔یہ سب کچھ میڈیا کی بدولت ہی ہورہا ہے۔ہمارے پورے معاشرے ہیں اس وقت بھارتی کلچررس بس گیا ہے۔

ہم مسلمان ہیں اور ہماری ثقافت اسلام ہے۔آج کتنے ٹی وی چینلز اسلام سے متعلق پروگرامز چلا رہے ہیں؟اسلامی پروگرامز تونہ ہونے کے برابر ہیں۔آج کے نوجوان سے اگراسلامی تہواروں اور دیگر اسلامی ایام کے بارہ میں پوچھا جائے تو بتانے سے قاصرہے اور اگر انہیں نوجوانوں سے ویلٹائن ڈے یا کسی اورمغربی دن کے حوالہ سے پوچھا جائے تو وہ شروع سے لیکر آخر تک مکمل ہسٹری بتا دیں گے۔یہ بھی صرف میڈیا ہی کی وجہ سے ہے کیوں کے جب مغربی دن منانے کی باری آتی ہے تو ٹی وی چینلز پر ایک مہینہ قبل ہی اُس دن کے حوالے سے خصوصی پروگرامز نشرکرنا شروع کردیے جاتے ہیں۔اور ان پروگرامز میں اُس دن کے حوالہ سے پوری پوری تفصیلات بتائی جاتی ہیں اور اُس دن کو منانے کے بے ہودہ طریقے بھی دکھائے جاتے ہیں اور جب کبھی کوئی اسلامی دن جیسے شب معراج،لیلۃ القدر،شب برات کا وقت آتا ہے تو ہمارے ٹی وی چینلز پر اس حوالہ سے کوئی خاص پروگرام نشر نہیں کیا جاتا ۔ رمضان المبارک کے مہینہ میں چند ٹی وی چینلز پر رمضان المبارک کے حوالہ سے خصوصی پروگرامز نشر کئے جاتے ہیں اور ان پروگرامز میں سے اکثرپروگرامز ایسے ہوتے ہیں جن کی میزبانی وہ خواتین و حضرات کر رہے ہوتے ہیں جو خوداسلامی معلومات سے کوسوں دور ہیں۔خاص طور پروہ خواتین جو ان پروگرامز کی میزبانی کررہی ہوتی ہیں اُن کا انداز گفتگو،لباس کسی طور پربھی اسلامی ثقافت کی نمائندگی نہیں کررہا ہوتا۔
کیا میڈیا آزادہونے کا یہ مطلب ہیکہ میڈیاہم سے ہماری پہچان ہی چھین لے؟ہرقوم کی پہچان اُس کی ثقافت سے ہوتی ہے اور ہمارا مغرب زدہ میڈیا ہماری پہچان ہی ختم کرتا جا رہا
ہے۔بہرحال میڈیا تو یہ سب کرہی رہا ہے لیکن سب سے بڑی ذمہ داری توحکومت کی ہے کہ اگر وہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے لے تو معاشرے کو بٹنے سے روک دے ورنہ ہم شدت پسندی کی جس آگ میں جل رہے ہیں اُس میں مزید اضافہ ہوگا۔ہم اپنی قومی شناخت بھی مکمل طور پر کھو دیں گے۔عدالتیں بھی جہاں کئی اداروں کو کئی باتوں کے لئے پابند کرتی ہیں وہیں اگر وہ میڈیا کو بھی ایک ضابطہ اخلاق کا پابند کر دے تو شائد ہم حرص،لالچ،بناوٹ اور بے روی کے مسائل پر قابو پالیں گے۔(فکروخبرمضامین)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا