English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہندوستان کیلئے اسرائیل کی مددکوئی معنی نہیں رکھتی

share with us

اور زندگی کے ہر شعبہ کواس طرح مرتب کیا گیا تھا کہ وقت آنے پر وہ فوجی ودفاعی ضرورتوں کا بیک وقت کام انجام دے سکتا تھا دوسری بات یہ تھی کہ دنیا کے نقشہ پر نقطہ کی طرح نظر آنے والے اس چھوٹے سے ملک کو امریکہ اور برطانیہ جیسی بڑی طاقتوں کا تحفظ اور عالمی یہودی برادری کی جانی ومالی مدد اول دن سے حاصل رہی ہے اور اس چھوٹے لیکن وسائل وذرائع کے اعتبار سے دنیا کے مالدار ملک کو ہندوستان کی طرح داخلی، علاقائی، تہذیبی اور لسانی خطرات درپیش نہیں، صرف نہتے فلسطینیوں کی سرکوبی کا مسئلہ درپیش تھا جو وہ اپنی صلاحیت، آقاؤں کی مدد اور حریفوں کے انتشار سے فائدہ اٹھاکر کامیابی سے انجام دیتا رہا۔ پھر بھی وہاں دن بدن ایک ایسا طبقہ طاقتور ہوتا رہا جس کا کہنا تھا کہ رات دن کی اس لڑائی، قتل وغارتگری اور انسانی جانوں کے اتلاف کا سلسلہ بند کرنے کے لئے فلسطینیوں کے مطالبات کو مان لیا جائے۔
اسرائیل کے عوام میں پنپ رہی اس لہر کے نتیجہ میں وہاں ۱۹۹۳ء کے دوران اسحاق رابن کی حکومت قائم ہوئی جس کو سابق سرکاروں کے مقابلہ میں ایک معتدل حکومت تسلیم کیا گیا اور جو فلسطینیوں سے اپنے تنازعات طے کرنے کے لئے بات چیت کا طریقہ آزماتی رہی،فلسطینیوں کے خلاف جب بھی اسرائیلی حکومت کی طرف سے کوئی بڑا قدم اٹھایاجاتا تو عالمی انسانی برادری کے ساتھ ساتھ اسرائیل میں بھی اس کی مذمت کی جاتی اور ایسے جرائم میں ملوث یہودیوں کو وہاں کی عدالتوں سے سزائیں بھی ضرور دی جاتیں۔
مجوزہ فلسطینی ریاست کا قیام اسی دباؤ کا نتیجہ تھا اور اس کی ضرورت واہمیت محسوس کرکے اسحاق رابن نے ۱۹۹۵ء میں یاسر عرفات کے ساتھ ایک معاہدہ کیا لیکن افسوس کہ اس معاہدہ کو عملی جامہ پہنانے سے قبل ان کو ایک شدت پسند یہودی نوجوان نے گولی کا نشانہ بنادیا تب سے اسرائیل میں فلسطینیوں کے ساتھ مفاہمت کی فضا کمزور پڑتی گئی اور آج وہاں تشدد وبدامنی کا ماحول حاوی ہے۔ 
اس کے برخلاف ہندوستان جیسے وسیع وعریض مختلف مذہبوں تہذیبوں، علاقوں اور زبانوں کے ملک میں دہشت گردی کا کوئی ایک روپ نہیں یہاں جنوب سے لے کر شمال تک مشرق سے لے کر مغرب تک پورے ملک میں اگر کسی کی بہار آئی ہوئی ہے تو وہ تشدد ودہشت گردی ہے جس کی شمال کے مقابلہ میں شمال مشرق میں اور جنوب کے مقابلہ نکسلی متاثرہ علاقوں میں ایک دوسرے سے قطعی علاحدہ بلکہ متضاد نوعیت ہے اور ان کی سرپرستی بھی مختلف عناصر کی طرف سے ہورہی ہے جن کے مفادات قطعی جداگانہ ہیں۔ وہ نکسلیوں کے حکومت مخالف حملے ہوں یا کشمیر کی اکثریتی آبادی میں گھل مل کر پاکستانی دراندازوں کی مسلح جدوجہد ہو یا ذات برادری کے نام پر بہار میں حملے ہوں، ان کا ایک دوسرے سے درپردہ رابطہ تو ہوسکتا ہے مگر مقاصد اور مطمع نظر کے لحاظ سے ان میں باہم کوئی اشتراک نظر نہیں آتا۔ پھر یہاں حقیقت پسندی کا بھی کافی فقدان ہے۔
ایسے سلگتے مسائل کے دوران ہندوستان میں جس کو اسرائیل کی طرح کسی بڑی طاقت کا تحفظ بھی حاصل نہیں بھلا اسرائیل کی مہارت وصلاحیت کس طرح دہشت گردی سے نجات دلاسکے گی یہ ان عناصر کے غوروفکر کا موضوع ہونا چاہئے جو اس بارے میں آج عملی طور پر بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں اور اسی مقصد سے اسرائیل کے دورے بھی ہورہے ہیں، یہاں تک کہ وزیراعظم نریندرمودی بھی اس کا پروگرام مرتب کرچکے ہیں، حالانکہ انہیں یہ ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ جو ملک نہتے فلسطینیوں پر قابو پانے سے عاجز ہو وہ بھلا ہندوستان میں چہار طرف پھیلی ہوئی دہشت بربریت کے مقابلہ میں کس طرح مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا