English   /   Kannada   /   Nawayathi

تیری ذہنیت کا غم ہے غمِ بال و پر نہیں ہے

share with us

لیکن صرف پتھر تبدیل ہوئے اور وہاں جو دکانیں تھیں انہوں نے اپنے بل اور کیش میمو پر نیا نام لکھ دیا۔ لیکن وہاں کے رہنے والے اور دکانداروں سے اگر آج بھی آپ معلوم کریں گے تو وہ آج بھی وہی پرانا نام بتاتے ہیں جو انگریزوں نے رکھے تھے۔
اورنگ زیبؒ روڈ کو عبد الکلام روڈ بنانا ایک تیر سے دو شکار کرنا ہیں۔حضرت عالم گیر اورنگ زیبؒ جو تھے تو مسلمان بادشاہ لیکن وہ ایسے ہی دیندار تھے جیسے بڑے صوفی اور بزرگ گذرے ہیں۔ وہ یوں تو اس شاہ جہاں کے بیٹے تھے جس نے دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک عجوبہ تاج محل بنا کر کھڑا کر دیا اور اس کے علاوہ بھی جہاں جہاں وہ گیا اس نے ایسی ہی یادگار عمارتیں بنوائیں۔ لیکن ان کا بیٹا وہ تھا جس نے اپنے باپ کی قبرمیں جڑے ہوئے چاندی کے تختے اکھڑوا کر سکّے ڈھلوائے، نہریں بنوائیں، دریا کے پل بنوائے تاکہ عوام کو فیض پہنچے۔
اس وقت سب سے اہم مسئلہ مودی سرکار کے تحویل آراضی آرڈی نینس کی موت ہے۔ انہوں نے پورے پندرہ مہینے تک یہ جنگ لڑی اور یہ کہہ کر لڑی کہ یہ دوا کڑوی ضرور ہے مگر کسان کی زندگی کے لئے یہی ضروری ہے اور پورے ملک کی تمام پارٹیوں نے اس کی ایسی مخالفت کی کہ تھک ہار کر مودی صاحب نے یہ تسلیم کر لیا کہ وہی غلط تھے۔ اور کسان کے لئے وہی فیصلہ زیادہ مفید ہے جو سابقہ حکومت چلتے چلتے کر گئی تھی۔ اس کی وجہ صرف یہ ہوئی کہ ۱۰ ؍فیصدی کسان بھی مودی بل کی حمایت میں نہیں کھڑے ہوئے اور مودی کو تسلیم کرنا پڑا کہ اگر کسان ساتھ نہیں تو پھر اقتدار بھی خطرہ میں ہے۔
اورنگ زیبؒ روڈ کو میزائل مین عبد الکلام روڈ بنایا جانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ لیکن وہ فقیر صفت بادشاہ کتنا بڑا کسان دوست تھا اسے پورا ملک بھولے بیٹھا ہے اور ان کی مذہب سے وابستگی کو ہندو دشمنی سمجھے بیٹھا ہے۔ جبکہ ساڑھے تین سو برس پہلے ا س فقیر صفت بادشاہ نے جو احکامات دئے تھے ان میں محمد ہاشم دیوان گجرات کو ایک فرمان بھیجا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ہمارے عمّال کو چاہئے کہ کاشت کاروں کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں اور نکے معاملات میں ضروری تحقیقات کریں، ان کے حالات اور کوائف جانیں اور ان کی اس طرح حوصلہ افزائی کریں کہ وہ پیداوار بڑھانے میں خوش اور مسرت محسوس کریں۔ اس فرمان کی تشریح کے نوٹ میں لکھا تھا کہ محبت شفقت اور مہربانی اور عنایت کا مظاہرہ کیا جائے۔ اسباب پیداور بڑھانے کا ذریعہ بنیں گے۔ محبت اور شفقت کے معنی یہ ہیں کہ رعایا سے متعینہ اور مقررہ لگان سے ایک دھیلہ بھی زائد نہ وصول کیا جائے۔
ہر سال کے شروع میں تم پر لازم ہے کہ اپنی رعایا سے متعلق ہر ممکن اطلاع مہیا کرو۔ یہ جانو کہ کون لوگ زراعت میں مشغول اور مصروف ہیں اورکون توجہ سے کام نہیں لیتے۔ اگر انہیں کسی مدد کی ضرورت ہو اور تمہاری محبت اور توجہ کے محتاج ہوں تو ان پر توجہ کرو ،ان کی مدد کرو اور ان سے آئندہ کے لئے وعدے کرو۔ اگر یہ دیکھو کہ کاشتکار محنتی بھی ہیں اور کام بھی کرنا چاہتے ہیں مگر اس کے پاس سرمایہ نہیں ہے تو اپنے سرکاری خزانے سے تعاون دو۔
اس فرمان میں آگے لکھتے ہیں کہ جہاں زمین غیر آباد پڑی ہو اور اسکا کوئی مالک یا دعویدار نہ ہو ، تم وہاں اپنی مرضی سے فیصلہ کرو۔ اور زمین ایسے لوگوں کو دو جو اچھی طرح کاشت کریں ا ور لگان اتنا مقرر کرو جسے وہ خوشی سے ادا کر سکیں اور جو شریعت کے قانون کے مطابق ہو۔ جہاں لگان نقد کی صورت میں متعین ہے وہاں کے کاشتکار جنس کی شکل میں ادا کرنا چاہیں تو انہیں یہ سہولت ملنا چاہئے۔
آگے کہتے ہیں کہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ بادشاہ کی سب سے بڑی خواہش اور آرزو یہ ہے کہ زراعت ترقی کرے، اس ملک کی زرعی پیداوار بڑھے،کاشتکار خوشحال ہوں ا ور عام رعایا کو فراغت نصیب ہو ،جو خدا کی طرف سے امانت کے طور پر ایک بادشاہ کو سونپی گئی ہے۔ بادشاہ کا حکم ہے تم اپنے ماتحت دیوانوں اور امینوں کے ذریعہ اپنے علاقہ کی زمینوں کی پوری کیفیت معلوم کرو۔ یہ جانو کہ کتنی زمین مزروعہ ہے اور کتنی غیر مزروعہ اور جو غیر مزروعہ ہے اس کے اسباب کیا ہیں؟ اور جب یہ کام کر لو تو کوشش کرو کہ تمام غیر مزروعہ زمین پر کاشت ہونے لگے۔ یہ زمین جن لوگوں کو دو ان سے مضبوط قول و قرار کرو اور مستقبل میں بہتری کی امید دلاؤ۔ جہاں متروکہ اور غیر مستقل کنویں پاؤ ان کی اپنے خرچ سے مرمت کرواؤ اور جہاں نئے کنوؤں کی ضرورت ہو وہاں نئے کنویں کھدواؤ اور کچھ ایسا انتظام کرو کہ رعایا ،کاشتکار ان سے پورا فائدہ اٹھا سکیں اور اپنی اتنی پیداوار نصیب ہو کہ اپنا خرچ بھی نکال سکیں اور حکومت کا لگان بھی آسانی سے ادا کر سکیں۔
اگر یہ ۳۵۰ ؍برس پرانے فرمان ہمارے پاس نہ ہوتے تو بے تکلف کہا جا سکتا تھا کہ یہ حضرت اورنگ زیب عالمگیرؒ کے نہیں کسان لیڈرو چودھری چرن سنگھ کے وہ احکام ہیں جو انہوں نے افسروں کو دئے تھے۔
بات صرف ایک سڑک پر لگے پتھر کی ہے اور وہ جس نام سے جانی جاتی ہے وہ نام رہتی دنیا تک تاریخ میں سورج کی طرح چمکتا رہے گا۔ اس لئے کہ ہندوستان کی تاریخ میں شاید کوئی دوسرا نام ایسے بادشاہ یا حکمراں کا نہیں ہے جس نے( 1658ء سے 1707ء میں اپنے انتقال تک) تقریباً پچاس سال حکومت کی ہو۔رہی سڑک تو جس کے باپ کا بنایا ہوا پورا شہر ہی شاہ جہاں باد ہو، جس میں ایک شاہ جہانی مسجد ہو اور جس میں وہ لال قلعہ ہو کہ نہرو جیسا سیکولر اور مودی جیسا سنگھی بھی آزادی کی یادگار منانے کے لئے وہیں کھڑا ہوکر جھنڈا لہرائے اور وہیں سے ساری قوم کو خطاب کرے تو وہاں کی ایک سڑک اس کے نام سے منسوب کرنا اس کی عظمت کا اعتراف نہیں ہوسکتا۔
فیصلہ دہلی حکومت کا ہو یا مودی سرکار کا ،وہ اتنا اہم نہیں ہے کہ اس پر طارق انور اور مایاوتی جیسے لیڈر بیان دیں اور شاہ عالم اصلاحی جیسے صاحب قلم سنجیدہ مضمون لکھیں۔ یہ فیصلہ مسلمانوں کی دل آزاری کی نیت سے کیا گیا ہے۔ اگر واقعی ہم اپنی دل آزاری ہوتی ہوئی محسوس کریں تو وہ کامیاب ہیں اور اگر ہم کہیں کہ اس عظیم بادشاہ کے نام کا پتھر اس سڑک سے ہٹانا جو مشکل سے پانچ کلومیٹر کی ہوگی یا کچھ اس سے زیادہ.........اور جس کی حکومت قندھار سے راسکماری تک اور اراکان کی پہاڑیوں سے اردابیل تک پھیلی ہوئی تھی ، ہمارے نزدیک اورنگ زیب ؒ کی عظمت کا اعتراف ہے۔
کون ہے وہ حکمراں جو دعویٰ کرے کہ وہ خزانۂ عامری سے اپنی ضرورت کے لئے ایک پیسہ نہیں لیتا اور اپنی ضروریات کے لئے ٹوپی سیتا ہو اور قرآن پاک کی کتابت کرکے اس کی اجرت سے زندگی گذارتا ہو......اور کون ہے وہ جواتنی بڑے حکومت پچاس برس تک چلانے کے بعد وصیت کرے کہ میرے سی ہوئی ٹوپیوں کی مزدوری چار روپئے دو آنے ......... کے پاس ہیں اس سے میرا کفن خریدا جائے۔ میرے جنازہ کو چارپائی پر رکھنے کے بعد اسے کھدر کے کپڑے سے ڈھکا جائے۔ جنازہ کے جلوس میں چاندنی تاننے، گلوکاروں کا جلوس نکالنے اور رسول ؐاللہ کا یوم ولادت منانے جیسی خلاف مذہب رسموں سے گریز کیا جائے۔ اور کون ہے دوسروں کے جذبات کا اتنا خیال رکھنے والا کہ کہے چونکہ شیعہ قرآن کو نقل کرکے رقم حاصل کرنے کو ناجائز کہتے ہیں ، اس لئے محنتانے کے تین سو پچاس روپئے جو میرے ہیں وہ غریبوں میں تقسیم کردئیے جائیں۔۔۔۔اور تاکید کرے کہ میرے قبر کچی رکھی جائے اور اپنی وصیت میںیہ بھی لکھ دے کہ مجھ آوارہ کو ننگے سر دفنانا کہ شہنشاہ کبیر(خدائے ذوالجلال ) کے حضور برہنہ سر حاضر ہونے والا ہر ایک گناہ گار رحم کا مستحق قرار پائے گا۔
ہمیں کوئی حق نہیں کہ دوسروں پر اپنی رائے تھوپیں۔ لیکن اتنا ضرور عرض کریں گے کہ جس جس مسلمان بادشاہ کے نام سے سڑکوں کو منسوب کیا ہے وہ ان کی توہین کے مترادف ہے۔ ہم کو تو اس پر بھی خوش نہیں ہونا چاہئے کہ میزائل مین ڈاکٹر عبدالکلام کے نام سے ایک سڑک منسوب کردی جائے۔ انہوں نے صرف میزائل دینے کا کارنامہ ہی نہیں انجام دیا بلکہ وہ بھی حضرت عالمگیرؒ کی طرح دنیا سے گئے تو نہ کوٹھی چھوڑی نہ دولت اور نہ ایسا کوئی کپڑا چھوڑا کہ وہ کروڑوں روپئے میں نیلام ہوتا بلکہ جو چھوڑا وہ فقیروں کے کام آنے کے ہی قابل تھا۔ سلام ہو ان دونوں پر جن میں ایک تھا تو بادشاہ مگر امیرالمومنین تھا اور دوسرا میزائل مین اور ہندوستان کے بڑے محسنوں میں سے ایک۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا