English   /   Kannada   /   Nawayathi

جرائم کی راجدھانی دلی اور اہل شہر کی ذہنیت

share with us

دہلی میں گزشتہ دنوں ایک چھ سال کی بچی کے قتل کے شبہ میں گرفتار 23 سال کے بس کلینر رویندر کمار نے پولیس کے سامنے جو انکشاف کئے وہ دل دہلانے والے ہیں۔ اس نے بتایا کہ وہ کس طرح بچوں کو لالچ دے کر پھسلاتا تھا اور ان کو قتل کر لاشوں کے ساتھ اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کرتا تھا۔پولیس کے مطابق وہ معصوموں کو چاکلیٹ کے بہانے سنسان علاقے میں لے جاتا، ان کے ساتھ عصمت دری کرتا اور پھر ان کو قتل کر دیتا۔رویندر نے بتایا ہے کہ زیادہ تر معاملات میں وہ پہلے بچوں کو قتل کر دیتا تھا اور اس کے بعد ان کے ساتھ عصمت دری کرتا تھا۔ پولیس کو شک ہے کہ اس کے جرائم کے اعداد کی فہرست طویل ہوسکتی ہے۔ رویندر بچے اور بچیوں دونوں کو ہی شکار بناتا تھا۔ پوچھ گچھ کے دوران اس نے بتایا کہ شناخت چھپانے اور بچوں کے رونے کی وجہ سے ان کا قتل کر دیتا تھا۔
رویندر کااقبال جرم
رویندر کمار کے گناہوں کی پرت در پرت کھلتی جارہی ہے اور وہ ہر روز پولس کے سامنے نئے نئے انکشافات کر رہا ہے۔پولیس کے مطابق ملزم رویندر نے 2008 میں پہلی واردات کو انجام دیا تھا، تب اس کی عمر تقریبا/17 16 سال رہی ہوگی۔ 2009 میں اس نے وجے وہار میں سات سال کے بچے کو قتل کر اس کے ساتھ ریپ کیا۔ 2011 میں اس نے جھاؤلا اور منڈیکا میں تین سال اور دو سال کی بچیوں کو اپنا شکار بنایا۔ 2013 میں رویندر ،علی گڑھ میں اپنے رشتہ دار کے یہاں شادی کی تقریب میں شامل ہونے گیا تھا، وہاں اس نے پانچ بچوں کے ساتھ ریپ کیا۔علی گڑھ میں ہی اس نے ایک بچے کا قتل کیاتھا، اس معاملے میں وہاں مقدمہ بھی درج کیا گیا۔دلی کے ڈپٹی پولیس کمشنر کے مطابق ،اترپردیش کے بدایوں کے رہنے والے رویندر کمار نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ وہ دہلی، این سی آر اور مغربی اتر پردیش کی بچیوں کو نشانہ بناتا تھا۔پوچھ گچھ کے دوران اس نے جرم کے بارے میں قبول کیا ۔پولس نے اسے کئی بچوں کے فوٹو گراف دکھائے، اس
نے ایک فوٹو کی نشاندہی کی اور مانا کہ اس نے 2012 میں اس لڑکی کی عصمت دری کے بعد اس کا قتل کر دیا تھا۔عصمت دری اور قتل کے سلسلے میں جب ملزم کو پولیس نے گرفتار کر پوچھ گچھ کی تو اس نے ایسے رازاگلے کہ ایک بار تو پولیس بھی حیران رہ گئی۔ ملزم رویندر کمار نے بتایا کہ وہ دہلی اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں 2009 سے سرگرم تھا اور درجنوں وارداتوں کو انجام دے چکا ہے۔
کس کس کے گھر کا چراغ بجھایا؟
معصوموں کے ساتھ حیوانیت کا ارتکاب کرنے والے رویندر کمار نے پہلی بار انتہائی کم عمری میں اس طرح کے جرائم کو انجام دیا تھا۔ پہلا جرم کسی کی نظر میں نہیں آیا اور وہ قانون کی گرفت سے بچ گیا،اس کے بعد سیکس کی سنک بڑھتی گئی اور معصوم شکار بنتے گئے۔ پولیس ریمانڈ پر چل رہے ملزم رویندر کو دہلی پولیس کی ٹیم دہلی کے مختلف علاقوں میں نشاندہی کے لئے لے کر گئی۔ پولس اسے ایک اسکول میں لے گئی جہاں اس نے ایک معصوم کے ساتھ بدفعلی کی تھی ،اس کے بعد ایک ایسا مقام پر اسے لائی ،جہاں اسے ایک تین سالہ بچی کی لاش ملی تھی۔رویندر کمار نے اس کی بھی آبروریزی کی تھی ، پھر قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کے ساتھ گندے کام کو انجام دیا۔پولیس ذرائع نے بتایا کہ یہاں موقع واردات پر ملزم رویندر نے اپنے گناہ کی بات قبول کی ہے۔ اس واردات والے دن کا ایک ایک واقعہ اس نے پولیس کو بتایا۔اس کے بیانات پولس رکارڈ سے مل رہے ہیں۔حال ہی میں یوپی پولیس نے بھی دلی پولس سے رابطہ قائم کیا ہے تاکہ ملزم کو حراست میں لے کر اس کے گناہوں کی تفتیش کی جاسکے جو اس کے اترپردیش میں انجام دیئے ہیں۔ رویندر کے گناہوں کی حقیقت میڈیا کے ذریعے دور دراز علاقوں میں ان بچوں کے خاندانوں تک پہنچ چکی ہے جہاں سے بچے غائب ہوئے یا جہاں ان کا قتل ہوا، ایسے میں لوگ غصہ میں ڈوبے ہوئے ہیں اور وہ پولس سے رابطہ قائم کرکے اسے ڈیٹیل مہیا کرا رہے ہیں۔ ایسے خاندانوں کو خدشہ ہے کہ ان کا بچہ اسی ملزم کا شکار ہوا ہو گا۔
دماغی حالت کی جانچ
پولیس کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ روندر کمار کی شادی نہیں ہو سکی ہے۔ تقریبا ایک سال پہلے ایٹہ ضلع کی ایک لڑکی سے شادی کے لئے بات چیت چلی تھی، لیکن اس لڑکی کے خاندان والوں نے جب دہلی میں اس کے چال چلن کی جانچ پڑتال کی تو شادی کی بات آگے نہیں بڑھ سکی۔ ملزم روندر نے اعتراف کیا ہے کہ 2009 سے اب تک تقریبا 40 سے زیادہ معصوموں کے ساتھ اسی طرز پر وارداتیں کر چکا ہے۔ ان میں 11 وارداتیں دہلی سے ہی مربوط ہیں۔ حالانکہ تفتیش کرنے والوں کا اندازہ ہے کہ اس نے سو کے قریب معصوموں کی زندگی برباد کی ہے۔ ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ 11 وارداتیں بیرونی دلی یا مغربی دلی کی ہیں۔ ان کے بارے میں خود ملزم رویندر نے قبول کر لیاہے۔ پولیس افسر کے مطابق خدشہ ہے کہ یہ اعداد و شمار بہت آگے تک تک پہنچ سکتے ہیں۔ مسلسل پوچھ گچھ میں نئے نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔ دہلی پولیس نے حالیہ دنوں باہری دلی سے گم ہوئے بچوں کی ڈیٹیل نکال کر رویندر سے پوچھ گچھ کررہی ہے۔وہیں اس معاملے میں ڈی سی پی کا کہنا ہے کہ رویندر کی ایسی ذہنیت کیوں بنی، اس کے لئے سائیکو انالیسس کرایا جائے گا۔ اس کا خاندان بیگم پور سے تعلق رکھتا ہے ۔چار بھائی ہیں۔ والد پلمبر ہیں اور ماں منجوگھریلو خاتون ہیں۔ کنبے کے باقی لوگ نوئیڈا میں رہتے ہیں۔ لیبر اور گاڑیوں پر ہیلپر کا
کام کرنے والا روندر کمار طویل وقت سے جنسی مرض کا شکار رہا ہے ۔ شراب کا نشہ اوپر سے سگریٹ میں گانجا بھرکے پینے سے اس کی ذہنی حالت بگڑ جاتی ہے۔
ڈی این اے ٹیسٹ
سیریل ریپسٹ رویندر کے خلاف پختہ شواہد جمع کرنے میں مصروف پولس نے ملزم کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا ہے۔ 14 جولائی کو دلی کے بیگم پور میں بچی کا قتل اور اس کے بعد آبروریزی کے معاملے میں رویندر کی گرفتاری ہوئی تھی۔ اس کے بعدوہ ایک ایک کرکے دل دہلانے والے راز اگلتا چلا گیا۔بچی کی جس جگہ لاش ملی تھی، وہاں سے پولیس نے خون وغیرہ کے نمونے حاصل کئے تھے۔ ایک پولیس افسر کے مطابق اسی لحاظ سے ملزم کا ڈی این اے پروفائل کرایاگیا ہے۔ اس کے علاوہ تین اور کیس میں بھی خون کے نمونے ملے ہیں۔ پولیس افسران کے مطابق ملزم کے ذہن میں کسی طرح کا خوف نہیں تھا۔اس کا کا نفیذڈینس لیول اتنا مضبوط تھا کہ ایک ایک جرم کے قصے سناتا رہا۔ زیادہ تر ریلوے لائن پر اس نے معصوموں کو شکار بنایا۔ ان میں فرید آباد، متھرا، ٹنڈلا میں ریلوے لائن پر 4 سال کی بچیوں کی لاش سے آبروریزی اور قتل کیا۔ ملزم نے اپنے رشتہ داروں کے گاؤں میں بھی معصوم بچوں کو شکار بنایا۔
آپ بھی خبردار ہوجائیں!
بھارت کے شہروں اور گاؤوں میں بچوں کی گمشدگی بہت عام ہے۔پورے ملک میں آئے دن بچے غائب ہوتے رہتے ہیں مگر پولس ان کی تلاش پر توجہ نہیں دیتی۔صرف راجدھانی دلی میں گزشتہ چند برسوں میں ہزاروں بچے غائب ہوچکے ہیں جن کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ بچے کہاں گئے؟ انھیں زمیں کھاگئی یا آسمان نگل گیا؟ اس سلسلے میں ایک کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور حکومت سے کورٹ نے کچھ سوالات پوچھے ہیں مگر اب تک وہ جواب دینے سے قاصر ہے۔ ظاہر ہے کہ بچوں کی گمشدگی کے تعلق سے لاپرواہی کے سبب ہی وہ جواب نہیں دے پارہی ہے۔پہلے کئی معاملے ایسے سامنے آچکے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ بچوں کو معذور بناکر ان سے بھیک منگوانے کا کام کیا جاتا ہے مگر جب سے رویندر کمار کا معاملہ سامنے آیا ہے تب سے یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ گمشدہ بچوں کے ساتھ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔بہرحال بچوں کے دیکھ بھال میں صرف پولس کی مستعدی کافی نہیں ہے بلکہ ہر آدمی کو خود اپنے بچوں کی دیکھ ریکھ کرنی چاہئے تاکہ معصوموں کو زندگی تباہ ہونے سے محفوظ رہے۔ایسا نہیں ہے کہ بچوں کا صرف اسی قسم کے چند معاملوں میں استعمال ہورہا ہے بلکہ انھیں تربیت دے کر کئی جرائم میں بھی استعمال کیا جارہا ہے، اس لئے ہوشیار رہنا لازمی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا