English   /   Kannada   /   Nawayathi

جسے اﷲرکھے اسے کون چکھے

share with us

عالم اسلام کی مشہوردرسگاہ دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنؤکے معتمدتعلیمات اوربرصغیرکے مشہورعالم دین حضرت مولاناڈاکٹرعبداﷲعباس صاحب ندوی چندسال قبل دہلی سے بریلی جانے کی ٹرین پرسے اس طرح گرے کہ پلیٹ فارم کی دیواراور ٹرین کی لائن کے درمیان پٹری پروہ چت پڑے ہوئے تھے اوران پرسے ٹرین گزررہی تھی، مولاناشوگرکے مریض تھے اوربائی پاس آپریشن بھی ہوچکا تھا، ٹرین والوں نے یہ دیکھ کرچلاناشروع کیاکہ ملّاجی کٹ گئے، لیکن اﷲکوبچانا مقصودتھا، نہ صرف بچایابلکہ جسم پرکوئی خراش تک نہیں تھی اورنہ کوئی عضومتاثرتھا، اسی طرح کسی کی مدت حیات ختم ہوجائے توفٹ دوفٹ کے فاصلہ سے گرکراور زخمی نہ ہوکربھی اس کی موت واقع ہوجاتی ہے، دارالمصنفین اعظم گڑھ کے سابق ناظم صباح الدین عبدالرحمن صاحب ندوۃ العلماء میں میرے زمانہ طالب علمی کے دوران لکھنؤ میں سائیکل رکشہ سے اس وقت گرے جب ایک گائے سامنے آگئی اوررکشہ والے نے بریک لگایا وہ دوڈھائی فٹ اوپرسے گرے، نہ زخم نہ خراش لیکن اسی وقت جان بحق ہوئے، ۲۲/ جولائی ۲۰۰۳ء کوہندوستان میں مغربی ساحل پرسات آٹھ سال قبل شروع ہوئے کوکن ریل کے اب تک کہ سب سے بڑے ریلوے حادثہ سے خود ہم لوگ دوچارہوئے لیکن اﷲنے حیرت انگیزطریقہ پراپنی قدرت ورحمت کااس طرح مظاہرہ کیاکہ ہم سے متصل ڈبے والے درجنوں لوگوں نے اسی وقت زخموں کی تاب نہ لاکرداعی اجل کولبیک کہااورہم فضل خداوندی سے محفوظ ومامون رہے، جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں ششماہی کی چھٹیوں میں مہاراشٹرااور گجرات کے مولاناابوالحسن ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل کے ایک دعوتی دورہ پر دس اساتذہ پرمشتمل ایک وفدمہتمم جامعہ مولاناعبدالباری صاحب ندوی کی قیادت میں روانہ ہواجس میں مولانامقبول صاحب ندوی، مولاناشعیب صاحب ندوی، مولاناانصارصاحب ندوی، مولانااسامہ صاحب ندوی، مولاناافضل صاحب ندوی مولانابشیرصاحب ندوی، مولاناابرار صاحب ندوی اورمولاناعبدالسمیع صاحب ندوی تھے، اتوارکا دن تھا، ہم لوگ دوپہرکو رتناگیری مہاراشٹراجانے کیلئے اپنے ضلع کے ہیڈکوارٹرکارواراسٹیشن بذریعہ سوموپہنچے ، چونکہ ہمارا ریزرویشن نہیں تھا اورسفربھی دن میں اوروہ بھی صرف پانچ چھ گھنٹے کاتھااس لئے ہم لوگ کاروارممبئ ہالی ڈے اسپیشل ٹرین کی جنرل بوگی میں جوپوری خالی تھی آرام سے بیٹھ گئے اورالگ الگ سیٹوں پرلیٹنے کیلئے اپناسامان رکھ دیا، چونکہ ٹرین کی روانگی میں غیرمعمولی تاخیرہوگئی تھی اس لئے ہمارے کچھ ساتھی چائے لانے کیلئے ٹرین سے اترے اورکینٹین کارخ کیا جہاں ایک ٹی ٹی کی نگاہ ہم پرپڑی ، اس نے ہم سے پوچھا: آپ لوگ کہاں جارہے ہیں اورکہاں بیٹھے ہیں، تفصیل سن کربڑی لجاجت کے ساتھ اس نے کہا: آپ لوگ پیچھے میری ریزرویشن والی بوگی میںآجائیے، ہم نے اس کی بات سنی ان سنی کردی لیکن دوبارہ جب جب بھی اس کے سامنے سے ہم گزرے وہ بارباریہی کہتارہاکہ آپ لوگ پیچھے میری خالی بوگی میں کیوں نہیںآتے، جب اس کااصراربڑھاتوہم لوگوں نے واپس اپنے کوچ میں جاکرمشورہ کیا، اکثرساتھیوں کی رائے تھی کہ یہاں سے منتقل ہونے کی چنداں ضرورت نہیں اس لئے کہ بوگی خالی ہے، آرام سے لیٹ کروقت کٹ جائے گالیکن بعض ساتھیوں کے اصرارپربالآخریہ فیصلہ ہواکہ ہم لوگ اس ٹی ٹی کی بوگی میں چلے جائیں،خواہی نہ خواہی ہم لوگ اس ٹی ٹی کے کوچ میںآگئے، گاڑی چلی،ہم لوگوں نے سفرکی دعاپڑی، مغرب کاوقت ہوگیا،چونکہ ہم مسلکاًشافعی تھے اس لیے نمازکے متعلق اکثرساتھیوں کاخیال تھاکہ رتناگری پہونچ کرجمع تاخیرکرلیں گے لیکن بعض دوستوں نے اول وقت میں ہی جمع تقدیم کرلی، جوساتھی نمازپڑھنے سے رہ گئے تھے ان کوایک ساتھی نے یہ کہہ کرکہ زندگی کاکیابھروسہ ابھی نمازسے فارغ ہوجائیں جمع تقدیم ان سے بھی کروالی، ہم لوگ نمازسے فارغ ہوئے ، سب دوستوں نے اپنی اپنی سیٹ پراپنے معمولات اوراورادووظائف مکمل کرلئے، دوبارہ مجلس جمی، یادوں کے دریچوں سے پرانے تذکروں، تفریحی گفتگواور قومی مسائل کاسلسلہ پھرچل پڑا ، یہاں تک کہ شب کے نوبجنے لگے، ٹرین سے باہر آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے، سخت اندھیرا تھا، موسلادھاربارش ہورہی تھی اور ٹرین اپنی پوری رفتارکے ساتھ فی گھنٹہ پچھتر کلومیٹرکے حساب سے وائی بھاؤواڑی اور راجہ پوراسٹیشن کے درمیان اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی، اسی دوران کیادیکھتے ہیں کہ اچانک ہماری بوگی لڑکھڑانے لگی، دس پندرہ سکینڈتک یہ سلسلہ جاری رہا، سیٹ پرآمنے سامنے بیٹھے ساتھی ایک دوسرے پرگرگئے اورایسامحسوس ہواکہ کسی کھائی میںآہستہ آہستہ ہماری ٹرین اوندھے منہ گررہی ہے، سب کی زبان سے بے ساختہ بڑی آوازسے کلمہ کی آوازیں بلند ہونے لگیں، اوریااﷲیااﷲ کی صداہرطرف سے سنائی دینے لگی، کچھ وقفہ کے بعدگارڈنے بریک لگایااورٹرین رک گئی، کسی کی سمجھ میں نہیںآرہاتھاکہ کیاہوااورکیسے ہوا، کچھ ساتھی دوڑے دوڑے باہردروازہ کی طرف بھاگے اورنیچے اترنے کی کوشش کرنے لگے، لیکن پٹریوں پر کمرتک پانی تھااورگپ اندھیرا، اس پربارش کانہ رکنے والاسلسلہ ، مسافروں میں سے کسی نے آوازلگائی کہ کچھ نہیں ہواہے ، کسی نے زنجیرکھینچ دی ہے، اس لئے ایمرجنسی بریک لگے ہیں جس سے جھٹکے محسوس ہوئے ہیں اورٹرین رکی ہے، تھوڑی دیرہی میں ٹرین چلنے لگے گی، آپ سب اپنی اپنی نشستوں پر دوبارہ بیٹھ جائیں، دس پندرہ منٹ تک ہم لوگ بھی یہی سوچ کراپنے ساتھیوں کوبھی نیچے اترنے سے سختی کے ساتھ منع کرتے رہے، کچھ دیرکے بعد ہمت کرکے بائیں طرف سے دروازہ کھول کرکے دیکھاتوعجیب نظارہ تھا، سامنے پہاڑتھاجس پرٹرین چڑھ گئی تھی اور ہم سے متصل اگلااے سی ڈبہ خوددوسرے ڈبہ پرچڑھ گیاتھا، ایک دوسروں کوآوازیں دی جانے لگی، دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے اکثرساتھی اورٹرین کے دوسرے مسافرنیچے اترے، جب پٹریوں پرموجودکمرتک پانی پار کرکے آگے بڑھنے لگے توانہیں پانی میں لاشیں ملیں، سب سے پہلے آٹھ نوماہ کے معصوم بچہ کی ایک لاش ملی، اس کے بعدایک عورت کی ، آگے بڑھتے ہوئے یہ سلسلہ بڑھتاہی گیا، بارہ تیرہ لاشیں خود ہمارے ساتھیوں نے ہمارے ڈبہ میں پہونچائی، بڑاعجیب قیامت کامنظرتھا، سب سے حیرت انگیزبات یہ تھی کہ وہ جنرل بوگی جس میں ہم لوگ کچھ گھنٹوں پہلے سوارتھے اورٹی ٹی نے ہمیں جہاں سے بڑی منت سماجت سے اٹھواکراپنے کوچ میں بٹھایاتھاوہ پوری طرح کٹ کر ایک دوسرے میں گھل مل کر ناقابل شناخت ہوگئی تھی، کچھ دیرپہلے جن سیٹوں پرہم بیٹھے ہوئے تھے اس میں صرف بکھری لاشیں تھیں، مددمددکی چیخ وپکارتھی، کسی کاہاتھ کٹ گیاتھااورکسی کاپیر، کسی کا سرایک طرف تھاتودھڑ دوسری طرف ، ہمت کرکے ہمارے ساتھی گپ اندھیرے کے باوجودزخمیوں کوبڑی احتیاط سے نکالنے لگے اور لاشوں کوچادروں میں لپیٹ لپیٹ کراوپرپہونچانے لگے، مسلسل گھنٹہ بھرکام کرنے سے سب کی ہمتیں جواب دینے لگیں، اسی دوران پیچھے سے ریلوے کمک پہنچ گئی اور ہم لوگوں کومع لاشوں اورزخمیوں کے پیچھے کے ان ڈبوں میں جوصحیح سلامت بچ گئے تھے سوارکرکے واپس کنکولی اسٹیشن لے گئی جہاں پہلے سے اطلاع ملنے کی وجہ سے ایمبولینس اورپولس فورس وغیرہ موجودتھی، دوسرے دن بمبئ پہنچ کراخبارات سے سرکاری اطلاع کے مطابق ہمیں معلوم ہواکہ جملہ باون لوگ جان بحق ہوئے اورسوکے قریب زخمی اس میں اکثریت جنرل بوگی کے مسافروں کی تھی،حادثہ کی وجہ یہ تھی کہ ہماری ٹرین جب پٹری پرپچھترکلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتارسے چل رہی تھی تو رتناگری سے ایک کلومیٹردور ڈرائیورنے دورسے ایک چٹان کوپٹری پرگرا ہواپایا جو قریب کے پہاڑسے موسلا دھاربارش کی وجہ سے تھوری دیرپہلے پٹری پرگرگئی تھی حالانکہ پندرہ منٹ پہلے اسی پٹری پردوسری ٹرین گزرچکی تھی، اچانک ڈرائیورنے جب پٹری پرچٹان کوگرادیکھاتواس نے ٹرین کوروکنے کی کوشش میں بریک لگائے جس سے سب سے پہلے انجن والی بوگی پٹری سے اتری اورگری اوراس سے متصل ہم سے اگلی چاروں بوگیاں ایک دوسرے پرچڑھ گئیں اوریہ خطرناک حادثہ پیش آیا، جس حیرت انگیزطریقہ پراﷲنے ایک ٹی ٹی کوذریعہ بناکراس ٹکڑے ہونے والی جنرل بوگی سے ہمیں اٹھاکر اپنافضل فرمایااس کودیکھ کرہم سب کی زبانوں سے بے ساختہ یہ نکلا کہ یہ سفرکی اسی دعاکی برکت تھی جس کے پڑھنے پر حدیث شریف میںیہ پیشن گوئی کی گئی ہے کہ اس کاپڑھنے والاپورے سفرمیں اﷲکی حفاظت میں رہتاہے اوراسی کی نگہبانی میں، اﷲہی اس کیلئے کافی ہوتاہے اورہرشرسے اسکو وہ محفوظ بھی رکھتاہے، اس کااعلان فرشتوں کے ذریعہ بھی ہوتاہے اورانسان اپنی آنکھوں سے بھی اس کے اثرات دیکھتاہے، وہ دعاہے : بِسْمِ اﷲِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اﷲِلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّابِاﷲِ کہ میں نے اﷲہی پربھروسہ کیا، تمام طاقتوں وقوتوں کا مالک اورسرچشمہ وہی تنہاہے ، سفر کی اس دعا سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِیْنَ وَاِنَّا اِلیٰ رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ کی برکت سے سینکڑوں نہیں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کواﷲ جس طرح محفوظ رکھتا ہے اس کے مظاہرہرجگہ روزہمیں نظرآتے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان روزمرہ کی ان مسنون دعاؤں کی سفرحضر، اٹھتے بیٹھتے اہتمام سے پابندی کرے جس کے اثرات خوداس دنیاہی میں اﷲتعالی دکھادیتے ہیں اوراس کے پڑھنے پرجوآخرت میں ملنے والاہے اس کاتواندازہ ہی نہیں کیاجاسکتا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا